Dawn News Television

اپ ڈیٹ 08 مارچ 2014 05:19pm

تحفظ جنگلی حیات

پاکستان کے زیادہ تر اخبارات میں منگل کو ایک مختصر سی خبر شائع ہوئی تھی کہ عالمی یوم جنگلی حیات کے موقع پر خیبر پختون خواہ کی متعلقہ انتظامیہ نے ایک تقریب کا اہتمام کیا، شاید ہی اس خبر سے جڑے حقائق پر کسی نے توجہ دی ہو۔ ہمارے معاشرے میں یہ دن بھی باقی اور دنوں کی طرح آیا اور گذرگیا۔

بلاشبہ، اس وقت معاشرے کے زیادہ تر لوگوں کو پُرتشدد ماحول میں خود اپنی جان کی پڑی ہے تو یہ پھر بھی پاکستان کی سرزمین پر بسنے والی جنگلی حیات کی بقا کا مسئلہ ہے۔ جنگلی حیات اور اس کے تحفظ کے لیے یہ ہمارے رویوں کی صحیح عکاسی ہے۔

خیبر پختون خواہ میں منعقدہ تقریب کے دوران مقررین نے نشاندہی کی کہ ملک کی جنگلی حیات اور اس کی بقا کو عدم آگاہی، غیر قانونی شکار اور تیزی سے بڑھتی انسانی آبادیوں اور گلّہ بانی سے سخت خطرات لاحق ہیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ جنگلی حیات اور ان کی بقا کو لاحق موخرالذکر دونوں مسائل، سب سے پہلے بیان کردہ مسئلے کا نتیجہ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے تناظر میں تیزی سے بڑھتی شہری آبادی، پرانے طرز حیات اور نئے انداز زندگی کے درمیان منقطع رابطے اور شاید سب سے زیادہ جدیدیت سے بڑھتا لگاؤ، جنگلی حیات کے تحفظ میں درپیش بڑے چیلنجز ہیں۔

آج کے پاکستانی منظر نامے میں بہت ساروں کا خیال ہے کہ قدامت پسندی پھیلتی جارہی ہے لیکن پھر بھی جنگلی حیات کے تنوع کے بجائے فولاد اور کنکریٹ کی عمارات لوگوں کے دل و دماغ کو اپنی طرف کھینچ رہی ہیں۔

پھر بھی، حکومت اور متعدد غیر سرکاری تنظیموں، دونوں کی کوششوں کے باوجود توقع کے مطابق جنگلی حیات کے تحفظ کا معاملہ اس طرح ایجنڈے پر نہیں لایا جاسکا، جس کی امید تھی اور ایسا نہ ہونے میں حیرانی کی کچھ خاص بات بھی نہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تیز رفتار کوششوں سے بھی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔

خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا سے آگاہی پروگرام کے ذریعے، مسئلے کو اُجاگر کرنے اور طویل المدت تناظر میں جنگلی حیاتیاتی تنوع اور اس کے تحفظ کی اہمیت پر، عوامی سوجھ بوجھ بڑھانے میں مدد لی جاسکتی ہے۔

اس سکّے کا دوسرا رخ ان علاقوں میں مداخلت کی ضرورت ہے جہاں جنگلی حیات کا شکار ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ان باشندوں کو ترغیب دی جاسکتی ہے کہ وہ جنگلی حیات کے شکار یا ان کی تجارت کے بجائے آمدنی کے دیگر ذرائع تلاش کریں۔

انگلش میں پڑھیں

Read Comments