Dawn News Television

اپ ڈیٹ 25 مارچ 2014 10:04pm

کپتانی کنفیوژن

گزشتہ دنوں جناب بڑے بلکہ بہت ہی بڑے خان صاحب حضرت عمران خان بنی گالا والے جب سر کے بال کٹوا کے سُسرالی سرزمین سے میکے واپس پہنچے تو سوچا کہ چلو بھائی زرا ڈی چوک سے ہوتے ہوئے پارلیمینٹ کا ایک چکر ہی لگا لوں۔

میں تو بس یہ سوچتا ہوں کہ اگر آپ صاحبِان استطاعت میں سے کوئی مجھے نوکری پہ رکھتا تو کیا مجھے بھی یہ سہولت میسر ہوتی کہ میں نوکری پر اپنی مرضی سے آتا جاتا اور کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہوتا، خاص طور سے وە جس کی جیب سے مجھے تنخواە مل رہی ہوتی۔

کبھی آپ حضرات نے یہ سوچا بھی ہے کہ یہ بڑی بڑی گاڑیوں میں ٹُوں ٹاں کرتے پھرتے یہ لوگ اصل میں ہماری ہی جیب سے نکلے کڑک نوٹوں کے زور پر یہ خر مستیاں فرماتے ہیں. اور یہ جو پارلیمان سے غیر حاضری ہے اِس پر سوال اُٹھانا آپ کا اور میرا حق ہے کیونکہ جو ڈبل روٹی آپ خریدتے ہیں اُس پہ دیا جانے والا ٹیکس ہی اِن حضرات کی جیب تک تنخواە کی صورت میں پہنچتا ہے۔

اپنے ڈرائیور مالی اور گلی کے چوکیدار کی ایک چھُٹی تو ہم سے برداشت نہیں ہوتی اور جِن کے ہاتھ ہم نے اپنی اور اپنے بچوں کی تقدیر سونپی ہے کبھی ہمت کر کے اُن سے گفتگو فرمانے کا بھی سوچئے، آپ کے اور ہمارے لئے بلکہ سب کے لئے یہی بہتر ہے۔ کہیں اور دیر نہ ہو جائے۔

خیر صاحب تو ذکر تھا جناب خان صاحب کے دورەِ پارلیمنٹ کا۔ اندر کیا ہوا یہ تو وہی جانیں جن کی قسمت پہ ٹھپا مار کے ہم نے اندر بھیجا ہے مگر خان صاحب کے باہر آتے ہی ایک بار پھر خوب شور مچا۔ حالانکہ اُنہوں نے ایسا بھی کچھ نہیں کیا جیسا پچھلے دنوں وینا ملک نے کر ڈالا، میرا مطلب ہے شادی جس پر اتنا طوفان مچایا جائے اور سچ تو یہ ہے کہ مجھ سمیت جتنے بھی صاحبِ عقل ڈالر خور خود ساختہ دانشور ٹائپ امریکی ایجنٹ اور شائد آنے والے دنوں میں کافر قرار پائے جانے والے لوگ ہیں وە تو شائد پہلے ہی یہ جانتے تھے کہ اس ڈرامہ کا دی اینڈ یہی ہوگا.

یقین جانئیے میں نے یہاں خان صاحب کو ڈرامہ بالکُل نہیں کہا، میں نے تو بس پوری صورتِ حال کو ڈرامہ سے تشبیہہ دی ہے۔ تو جناب خان صاحب نے پارلیمینٹ کے باہر میڈیا سے جو گفتگو فرمائی اُس نے مجھے 4 مارچ 1992 کو سِڈنی میں کھیلے جانے والے ورلڈکپ کے پاکستان-ہندوستان میچ کی یاد دِلا دی جس کے دوران جناب بڑے خان صاحب ایک چھوٹی سی کنفیوژن کا شکار ہو کر رن آوٴٹ ہو گئے تھے اور ہم وە میچ ہار بیٹھے تھے۔

اگر خان صاحب اپنے نائب کی ایک غلط کال پر یوں آنکھیں بند کئے سر پٹ دوڑ نہ پڑے ہوتے تو شائید تاریخ یہ کریڈٹ بھی بڑے خان صاحب کی جھولی میں بڑے پیار سے ڈال دیتی کہ ہم نے بھی کبھی ہندوستان کو ورلڈکپ کے کسی میچ میں شکست دی ہوتی اور وە بھی خان صاحب کی قیادت میں۔

اِس میچ کو ہوئے اب قریباً کوئی 22 سال ہو چکے ہیں مگر کنفیوژن ابھی بھی برقرار ہے بس اُس کی نوعیت زرا کچھ دائمی قبض کی سی ہو گئی ہے۔ مطلب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید پختہ اورعمر دراز اور اب ضرورت ہے تو بس اِس بات کی ہے کہ ہم سب مل کر اِس دائمی قبض اوہو میرا مطلب ہے اِس دائمی کنفیوژن سے خان صاحب کی جان چھوٹنے کے لئیے دعا کریں۔

کنفیژن کا یہ حال دیکھ کہ مجھے بس خوف ہے تو اِس بات کا کہ اِس بار میچ اسٹریلیا کے شہر سِڈنی میں نہیں بلکہ اپنے ہی مُلک کی گلیوں میں کھیلا جا رہا ہے اور دوسری طرف ہندوستان نہیں کوئی اور ہی ہے. خان صاحب کے نائب اِس بار میانداد بھی نہیں کہ جن کی کال پر آنکھ بند کر کے دوڑ لگا دی جائے، بلکہ اِس بار حالات کچھ ایسے ہیں کہ اگر خان صاحب کنفیوز ہوئے تو شائید پوری قوم رن آوٴٹ ہو جائے گی اور ہم میچ نہیں کچھ اور ہی ہار جائیں گے۔۔۔

Read Comments