Dawn News Television

شائع 02 مئ 2014 02:00am

....... سنا ہے مرنے والے انسان تھے

عزت مآب

وزیرِاعلٰی سندھ

محترم جناب سید قائم علی شاە

حضور آپ سے خیر خیریت کی کیا تمہید باندھنی ملک کے سب بڑے اور دنیا کے ساتویں بڑے شہر کا باسی اور آپ کی رعایا کا ایک معمولی سا فرد ہونے کے ناطے اب مجھے انتظار ہے تو بس اپنی باری کا۔۔

نہیں نہیں حضور نہ تو میں کسی سیلاب یا قحط کے بعد ملنے والی کسی امداد کی قطار میں کھڑا ہوں اور نہ ہی کسی انکم سپورٹ پروگرام کا ATM Card تھامے بینک کی کسی مشین کے سامنے. میں تو بس اپنے کمپیوٹر کے سامنے بیٹھا میمن گوٹھ سے ملنے والی چار تشدد زدە لاشیں دیکھ رہا ہوں اور اپنی باری کا بڑی بے صبری سے انتظار کر رہا ہوں۔

سنا ہے مرنے والے انسان تھے؟؟؟ میرا مطلب ہے آج سے زیادە نہیں بس کچھ دو ہفتے پہلے تک مکمل طور پر جیتے جاگتے کھاتے پیتے اور سب سے بڑی بات شہر کی سب بڑی یونیورسٹی میں پڑھتے لکھتے نوجوان سے انسان تھے بیچارے۔۔

اب ان کا قصور کیا تھا اور ان چاروں کا اتنی عجلت میں مارا جانا کیوں ضروری تھا اِس بات کا جواب تو آپ کی پولیس کے وە عظیم اور بہادر سپوت ہی دے سکتے ہیں جن کے ہاتھوں میں خود اپنے دو دوستوں کے ہمراە آج سے کچھ مہینے پہلے ائیرپورٹ کے علاقے میں صبح تقریباً ساڑھے پانچ بجے اُس وقت ایک پولیس مقابلہ کا شکار ہوتے ہوتے بچا جب اپنے ایک دوست کو اسلام آباد کی فلائیٹ کے لئے سی آف کرنے جا رہا تھا. ماڈل کالونی اور ائیرپورٹ کے بیچ ایک یوٹرن پر اچانک سامنے سے آنے والی ایک کالے رنگ کی پرائیوٹ ہنڈا سٹی کار نے ہمیں یوں روکا جیسے کہ یوٹرن لینا کوئی جرم ہو. گاڑی رکتے ہی پانچ مسلح دہشت گردوں سے زیادە خوفناک غنڈوں کی شکل والے 'اہلکار' ہم پہ بندوقیں تان کر ایسے کھڑے ہو گئے کہ ہمارے پاس کلمہ پڑھنے کے علاوە کوئی دوسرا راستہ بچا ہی نہیں تھا وە تو شکر کہ میڈیا کے پریس کارڈ نے جان بخشی کروائی ورنہ ہم تین بھی کسی گوٹھ میں مسخ شدە پائے جاتے۔۔

آج کا یہ خط قطعی آپ سے اُن بیچارے پولیس والوں کی شکایت کرنے کے لئے نہیں لکھ رہا ہوں، آج مقصود ہے تو بس اپنے عزیز واقارب کے بارے میں آپ کو کچھ معلومات فراہم کرنا تاکہ جب اُن کی باری آئے تو آپ اور آپ کی پولیس کو زیادە دقت نہ ہو، کیونکہ جس ڈھنگ سے جس ڈگر پہ آپ کے جوان رواں دواں ہیں باری تو سب کی آنی ہے بس کسی کی جلدی اور کسی کی زرا دیر سے۔۔

تو حضور میرے بھی چھوٹے بڑے بھائی اسی شہر میں آپ کی بادشاہت میں بستے ہیں۔۔ ایک کسی موبائیل کمپنی میں کال سنٹر کی جاب کرتا ہے دوسرا ایک پرائیویٹ بنک میں ملازم ہے ایک کسی کولا بنانے والی کمپنی میں ہوتا ہے اور چوتھا جس کی فکر سب سے زیادە ہے وە کراچی یونیورسٹی میں ماسٹرز کا طالبعلم ہے۔۔

حضور چھوٹے بھائی اولادوں کی طرح ہوتے ہیں اِس لئے گزارش صرف اتنی کرنی تھی کہ اُن کی باری آپ کے جن بھی جوانوں کے ہاتھوں آئے اُنہیں بس اتنا کہہ دیجیئے گا کہ زرا بچوں کا سینہ کم چاک کریں، ہڈیاں جتنی کم سے کم توڑیں آخری غسل کے لئے آسانی رہتی ہے اگر انہیں آنکھیں کسی کو عطیہ نہیں کرنی ہوں تو نکالنے سےگریز کریں اور اگر پورے بتیس دانت منہ میں صحیح سلامت واپس چلے جائیں تو کیا ہی بات ہو۔

ویسے حضور سنا تھا آپ اس ملک کی سب سے بڑی جمہوری جماعت سے تعلق رکھتے ہیں پھر ہمیشہ آپکے ہی دور میں ہی کیوں یہ ماورائے قانون و آئین قتال ہوا کرتے ہیں. بینظیر پارک میں رینجرز کے ہاتھوں قتل ہونے والا سرفراز شاە ہو یا کالعدم امن کمیٹی کے 70 کارندے یا 'سادە لباس بھوتوں' کا نشانہ بننے والے ایم کیو ایم کے 25 کارکنان ہوں، سب کو مارنے سے پہلے اگر عدالتوں کا ایک پھیرا ہی لگوالیتے تو وہاں بیٹھے لوگوں کو بھی کچھ مصروفیت مل جاتی اور شائید کوئی ایک آدھ فضول جان ضائع ہونے سے بچ جاتی۔۔

اِس سے زیادہ لکھنے کی ہمت نہیں، ہو سکے تو کچھ ضرور کیجیئے گا ویسے اِس عمر میں کچھ ہونا زرا مشکل ہی ہے۔۔

فقط والسلام

اپنی باری کا منتظر

ایک اور پاکستانی

Read Comments