نقطہ نظر

'کپتان' اینڈ 'شاہین کمپنی'

گرم خون رکھنے والوں کو چھتریوں کی بھی ضرورت پڑے گی تاکہ دھاندلی زدہ سورج کی شعاعوں سے بھی بچا جاسکے۔

اپریل کے مہینے میں شروع ہونے والی گرمی مئی میں عروج پر ہے اور جوں جوں تاریخیں آگے بڑھ رہی ہیں شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ سورج کے ساتھ ساتھ واپڈا بھی لوڈ شیڈنگ کے ذریعے اپنا کردار بہ خوبی ادا کر رہا ہےاور لوگوں کو بہانہ فراہم کر رہا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف مظاہرے کرنے سڑکوں پر آئیں۔

انہی 'مظاہرانہ صلاحیتوں' کو دیکھتے ہوئے شاید تحریک انصاف کے 'کپتان' مکرّمی و محترمی مد ظلّہہ جناب حضرت عمران خان نے دو ہزار تیرہ میں ہونے والے انتخابات کے ایک سال مکمل ہونے پر انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ جس کا آغاز گیارہ مئی بروز اتوار اسلام آباد کے ڈی چوک سے ہوگا۔

خان صاحب کو اس دھاندلی کا تعین کرنے میں ایک سال کا عرصہ لگا۔ جس کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ انتخابات میں مسلم لیگ نواز نے جنگ گروپ کے ساتھ مل کر دھاندلی کی اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی اس دھاندلی میں شریک تھے۔

خان صاحب کے مطابق جنگ گروپ کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی کے لئے مسلم لیگ نواز کا ساتھ دینے کے صلے میں نواز حکومت نے جیو سوپر کو میچ رائٹس دے کر احسان کا بدلہ اتارا۔ جبکہ خان صاحب کو یقین تھا کے سابق چیف جسٹس کی موجودگی میں انتخابات شفاف ہونگے مگر چیف صاحب نے بھی مایوس کیا۔

لگتا ہے بیچارے کپتان صاحب کو کسی قریبی دوست نے قیمتی مشورہ دیا کے یہ بہترین وقت ہے نواز حکومت کے خلاف احتجاج کرنے کا اور اِس وقت آئی ایس آئی پر الزامات لگانے کی وجہ سے جنگ گروپ بھی داڑھ کے نیچے آیا ہوا ہے۔ چنانچہ اِس بہتی گنگا میں ہمیں بھی ہاتھ دھو لینے چاہییے۔ اس طرح آئی ایس آئی کی بھی آشیر واد مل جائے گی اور جنگ گروپ مخالف جذبات رکھنے والے لوگ بھی ساتھ مِل جائیں گے۔ صدقے جاؤں میں خان صاحب کی معصومیت کے۔

عمران خان نے تو اپنے سابقہ چہیتے چیف جسٹس --جن کے کبھی وہ قصیدے پڑھتے تھے-- کو بھی دھاندلی میں ملوث گردان دیا۔ لہزٰا خان صاحب اب وکیلوں سے یہ توقع نا رکھیں کے وہ مئی کی تپتی گرمی میں خان صاحب کی تحریک میں شامل ہونگے۔ ہاں یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ جن وکیلوں کو سابق چیف جسٹس صاحب کے بارے میں خان صاحب کے الزامات اچھے نہیں لگے۔ وہ تحریک میں شامل ہو کر وکیل پنا کرنے کی کوشیش کریں۔ جیسا کے ماضیِ قریب میں دیکھا گیا کہ وکیلوں نے پولیس اور حتٰی کے ججوں کے خلاف بھی اپنی بدمعاشانہ صلاحیتیں آزمائی ہیں۔

عمران خان کی جانب سے جیو کے بائیکاٹ اور دھاندلی میں ملوّث ہونے کے الزامات کے جواب میں جیو کے ڈائریکٹر الیکشن سیل کی جانب سے عمران خان کو ٹیم کے ساتھ جیو پر مزاکرے کا چیلنج دیا گیا۔ جس کا جواب ابھی تک تو نہیں دیا گیا۔ تاہم تحریک انصاف کے پنجاب کے صدر کی جانب سے اس مزاکرے کا چیلنج قبول کرنے کا عندیہ دیا گیا۔

بھولی سیاسی جماعت کے بھولے پنجابی صدر شاید نہیں جانتے کے کسی بھی ٹیم کی جانب سے کسی بھی فیصلے کا اعلان کپتان ہی کرتا ہے اور ویسے بھی خان صاحب کے ماضی کو دیکھتے ہوئے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خان وہ اپنے پنجابی صدر کے بیان کو رد کرتے ہوئے مزاکرے سے اِنکار کر دیں۔ بعد میں تحریک انصاف کے باقی ٹکٹ حِلال رہنما مختلف ٹی وی مزاکروں میں اپنے بھولے سربراہ کے ساتھ ساتھ اپنے پنجابی صدر کے بیان پر بھی شرمندہ ہو رہے ہوں۔

ویسے سلام ہے تحریک انصاف کے رہنماؤں کو جو اپنے سربراہ کے بیانات کا دفاع کرنے دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور ایک شاطر میزبان کا سامنا کرتے ہیں۔ مگر ہو سکتا ہے کہ خان صاحب اپنی جماعت کے رہنماؤں کی پرفارمینس کا اندازہ انہی ٹاک شوز میں پرفارمینس سے لگاتے ہوں۔

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی جانب سے بھی خان صاحب کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی تردید کی گئی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ چیف جسٹس کا انتخابات سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ ریٹرننگ آفیسرز کی تعیناتی کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہوتی ہے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کے میں کسی کے احمقانہ خیالات کے بارے میں کچھ کہنا نہیں چاہتا۔

اب ذرا بات کر لیں خان صاحب کی 'تحریک' کی جو وہ مولانا طاہر القادری اور جماعت اسلامی کے ساتھ ملکر گیارہ مئی سے شروع کر رہے ہیں۔

خان صاحب اِس تحریک کا آغاز اسلام آباد کے ڈی چوک سے کریں گے۔ مگر ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ اتوار گیارہ مئی کو شروع ہونے والی یہ تحریک کب تک جاری رہے گی۔

پانچ مئی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں خان صاحب نے کہا کہ وہ گیارہ مئی کو حکومت کے سامنے اپنے مطالبے رکھیں گے لیکن یہ واضح نہیں فرمایا کہ تحریک انصاف کے جیالے کتنے دن تک ڈی چوک میں موجود رہیں گے۔

تحریک انصاف کی یہ تحریک گیارہ مئی بروز اتوار اسلام آباد کے ڈی چوک سے شروع ہوگی، محکمہ موسمیات کی پیشین گوئی کے مطابق اسلام آباد میں موسم انتہائی گرم ہوگا اور سورج اپنی گرما گرم کرنوں سے تحریکی شاہینوں کا استقبال کریگا۔

چونکہ مولانا طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک بھی تحریک انصاف کے ساتھ اس احتجاج میں حصّہ لے رہی ہے۔ اس لئے یہ امید کی جاسکتی ہے کے جو ٹرک مولانا طاہر القادری کے لئے اسلام آباد میں کئے جانے والے دھرنے میں استعمال کیا گیا تھا۔ وہی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے لئے بھی دستیاب ہوگا۔

کیا ہی اچھا ہوتا کے خان صاحب اس تحریک کے آغاز کے ساتھ مدّت کا تعین بھی کردیتے۔ تاکہ خان صاحب کو ووٹ دینے والے 'شاہین' تحریک میں شامل ہونے کے لئے سارے انتظامات کر کے شامل ہوتے اور خاص کر تب جبکہ سورج بھی مسلم لیگ نواز اور جنگ گروپ کی مدد سے اِس تحریک کے دوران زیادہ آگ اُگلے گا۔ اِس اُبلتی گرمی میں بھلا بیچارے 'شاہین' اپنے نظریاتی ہیرو کی خاطر کتنی دیر تک انقلابی نغموں اور بورنگ تقریروں کو برداشت کر سکیں گے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ مئی کی گرمی کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اور پاکستان کے مستقبل کا خیال کرتے ہوئے اخلاقی طور پر منرل واٹر کی بوتلوں کی فراہمی یقینی بنائے اور اس بات کی بھی ضمانت دے کہ تحریک انصاف کی تحریک کے دوران فراہم کی جانے والی منرل واٹر کی بوتلیں ٹھنڈی ہونگی۔ تاکہ تحریکی 'شاہین' تازہ دم رہیں اور اپنے ہیرو کے ساتھ زیادہ دیر تک احتجاج میں ڈٹے رہیں۔

اس کے علاوہ لیمو پانی کے سٹالز بھی ڈی چوک سے منسلک جگہوں پر لگانے کی اجازت ہونی چاہیے اور اس کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے حکومت اخبارات میں اشتہار دے کر سٹالز لگانے میں دلچسپی رکھنے والوں سے درخواستیں بھی وصول کر سکتی ہے۔

منرل واٹر کی خالی بوتلوں کو ٹھکانے لگانے کے لئے بھی حکومت کو چاہیے کہ اخبار میں اشتہار دے۔ یہ نا ہو کہ مئی کی گرمی برداشت کرتے کرتے معصوم اور پر جوش 'شاہین' اتنے آگ بگولہ ہوجائیں کہ مشتعل ہوکر خالی بوتلیں دیگر 'شاہینوں' پر برسانا شروع کردیں۔

سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے یہ بھی ہو سکتا ہے سیکیورٹی پر معمور پولیس اہلکار میکڈونلڈز، پیزا ہٹ اور کے ایف سی کی ڈلیوری والوں کو بھی تحریک میں ڈلیوری نا کرنے دیں اور اس کی وجہ ان کے پاس کھانے کو گرم رکھنے کے لئے موٹر سائیکلوں پر لگے بڑے بڑے بکسے ہو سکتے ہیں۔ لہزٰا کپتان صاحب کے 'شاہینوں' کو اس بات کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے تحریک میں شامل ہونے کا پروگرام بنانا چاہیے۔

کسی بھی ہنگامی صورتحال کو نبٹنے کے لئے تحریک انصاف کے منتظمین کو یہ بھی چاہیے کہ وہ ایدھی کی خدمات بھی حاصل کر لیں۔ تاکہ اگر کوئی 'شاہین' تپتی گرمی میں خالی پیٹ نعرے مارنے کی وجہ سے پانی کی کمی کا شکار ہو تو اسے فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا جاسکے۔ اس قسم کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اسلام آباد کے ہسپتالوں میں ڈرپس کی دستیابی یقینی بنائے اور چھٹیوں پر گئے ہوئے ڈاکٹرز کی چھٹیاں بھی منسوخ کردے۔

حکومت کی جانب سے تھری جی اور فور جی کے لائسنسز تو جاری کئے جارہے ہیں۔ مگر ابھی تک موبائل کمپنیوں کی جانب سے یہ سروس فراہم نہیں کی گئی۔ جس کی وجہ سے انقلابی 'شاہینوں' کو اپنے موبائل نیٹ ورکس پر دستیاب ایج پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا اور اس کو استعمال کرتے ہوئے ہی اپنی تصویریں اپ لوڈ کرنا پڑیں گی۔ جس میں کافی دشواری پیش آتی ہے تاہم سٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے کے لئے یہ سروس کافی ہوتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کے ڈی چوک کو وائی فائی ہاٹ سپاٹ میں تبدیل کردے اور سگنلز کی دستیابی کو یقینی بنائے۔ اس کے علاوہ حکومت کو چاہیے کے وہ ہر دس فٹ کے فاصلے پر موبائل فون چارجر بوتھس کا بھی انتظام کرے۔ جو کہ یو پی ایس کے بیک اپ سے بھی لیس ہو۔ تاکہ تحریکی 'شاہین' بلا رکاوٹ اپنے موبائل فونز استعمال کر سکیں۔

مئی کے گرم مہینے میں گرم خون رکھنے والوں کو اس کے ساتھ ساتھ چھتریوں کی بھی ضرورت پڑے گی تاکہ دھاندلی زدہ سورج کی شعاؤں سے بچا جا سکے۔

اس کے علاوہ مہنگے ترین دھوپ کے چشمے پہنے، امپورٹڈ سن بلاک لگائے اور لان کے مہنگے ترین سوٹ پہنے خوبصورت خواتین بھی اس ریلی میں جلوہ گر ہونگیں۔ ریلی میں شامل نوجوانوں کو موبائل کارڈز اور سگریٹس بھی درکار ہونگیں۔ جن کی عدم دستیابی کی صورت میں جوشیلے 'شاہینوں' کا احتجاج شاید اتنا جوشیلا نا ہو پائے۔

شکر ہے عمران خان کے دیوانوں کی اکثریت کا تعلق شہروں سے ہے ورنہ گندم کی کٹائیوں میں مصروف کسان بھی اپنی فصلوں کو چھوڑ کر تحریک میں شرکت کے لئے آجاتے۔

گزشتہ دنوں ٹھیک ڈی چوک میں ہونے والے مسنگ پرسنز کے رشتے داروں کے احتجاج کے موقعہ پر تو اسلام آباد کی پولیس نے خوب غصّہ اتارا اور ان کی سربراہ آمنہ مسعود جنجوعہ پر بھی خواتین پولیس اہلکاروں نے خوب تشدد کیا۔ جس کے بعد احتجاج میں شامل افراد تِتر بِتر ہوگئے۔

اگر خدا نخواستہ گیارہ مئی کو کوئی ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو خان صاحب کو تو ماضی میں کوئی ایسا تجربہ نہیں کہ وہ اسلام آباد پولیس کی لاٹھیاں کھا سکیں اور نا ہی ماضی میں تحریک انصاف کی کسی ریلی پر پولیس نے لاٹھیاں برسائیں۔

لیکن جو بھی ہو۔ گیارہ مئی کو ہونے والی تحریک انصاف کی اس ریلی میں کچھ غریب لوگوں کو روز گار بھی مل جائیگا۔ دوسرے شہروں سے آنے والوں کی وجہ سے غریب ٹرانسپورٹ مالکان کی آمدنیوں میں اضافہ ہوگا۔ پوسٹرز بنانے والے اور بینرز لکھنے والے مہنگائی کے اس دور میں کچھ کمائی کر سکیں گے۔ لاؤڈ اسپیکرز اور جنریٹرز کرائے پر دینے والے اپنی سرمایہ کاری کا کچھ حصّہ ریکور کر پائیں گے۔

تحریک انصاف کی جرات کو بھی سلام ہے ۔ کبھی جعلی ڈگریوں اور کبھی دھاندلی کی وجہ سے وکٹیں گروانے والے عمران خان گیارہ مئی کو کس منہ سے دوسری جماعتوں پر دھاندلی کے الزامات لگائیں گے۔ جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے این اے سینتالیس سے منتخب ہونے والے قیصر جمال کی رکنیت معطل کر دی گئی ہے!۔

ابھی تو یہ بھی دیکھنا ہے کہ تحریک انصاف کی اِس ریلی کی کوریج جیو بھی کرتا ہے یا نہیں کیونکہ تحریک انصاف کی جانب سے تو جیو نیوز کا بائیکاٹ کیا گیا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ گرمی کے ستائے 'شاہین' جیو کے سٹاف کو اس ریلی کی کوریج سے روک دیں، باقی اور کسی پر تو بس چلنا نہیں………..

نوید نسیم

بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@

nasim.naveed@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔