فساد فی سبیل اللہ ؟
وہ کوئی بھی دوسرا عام سا مریض ہو سکتا تھا جو ایک آئی کلینک پر علاج کیلئے آیا ہو-
لاہور کے بادامی باغ کا رہائشی، بیس پچیس سالہ عبدلرؤف، اپنے والد کو ڈاکٹر علی حیدر کے کلینک لے گیا- کلینک پر اس کی باری آنے میں ہونے والی تاخیر نے اسے اتنا غصہ دلایا کہ اس نے ڈاکٹر علی حیدر کو قتل کرنے کی پلاننگ کر ڈالی- اور پھر کچھ روز بعد، اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ڈاکٹر حیدر اور ان کے گیارہ سالہ بیٹے کو ایک ساتھ ایف سی کالج کے داخلی رستے کے قریب قتل کر دیا-
تاہم یہ مکمل کہانی نہیں-
عبدالرؤف فرقہ ورانہ نفرت میں جل رہا تھا- اس بات کے احساس نے کہ جس ڈاکٹر کے پاس وہ اپنے والد کو علاج کیلئے لایا تھا ایک شیعہ تھے، اسے فرقہ ورانہ عصبیت میں اندھا کر دیا- اس کی نفرت اتنی گہری اور راسخ تھی کہ حملہ آوروں نے گیارہ سالہ مرتضیٰ کو بھی نہ بخشا جسے اس کے والد اسکول چھوڑنے جا رہے تھے-
پنجاب پولیس نے حال ہی میں ایک گینگ کو گرفتار کیا ہے جو کہ سولہ فرقہ ورانہ ٹارگٹ کلنگز اور بہت سوں پر جان لیوا حملے کرنے میں ملوث تھا- گینگ کے ہاتھوں حملے کا شکار ہونے والوں میں سے اکثر لاہور کے شیعہ پروفیشنلز تھے- معروف صحافی رضا رومی پر ہونے والے حملے میں بھی یہی گروہ ملوث تھا- اس حملے میں رضا رومی زخمی ہوئے تھے جبکہ ان کا ڈرائیور ہلاک ہو گیا تھا- اس چھ رکنی گروہ کے پنجاب میں فرقہ ورانہ عسکریت میں ملوث معمول کے مشتبہ افراد کے ساتھ روابط ہیں-
ان کی گرفتاری پر خوشیاں منائی جا رہی ہیں تاہم یہ کہیں وقت سے پہلے تو نہیں ہو رہا- پاکستان میں شاید ہی کسی فرقہ ورانہ قاتل کو آج تک سزا ملی ہو- فرقہ پرستی کے پیش اماموں کی طرح، جو کہ کئی دہائیوں سے انصاف کی آنکھوں میں دھول جھونکتے آ رہے ہیں، ان کے پیدل سپاہی بھی جن کے برین فساد فی سبیل الله مچانے کیلئے واش کیے جا چکے ہیں، ہر بار کی طرح اس بار بھی آزاد ہو جائیں گے-
جہاں پنجاب میں شیعوں، عیسائیوں اور قادیانیوں کے خلاف فرقہ ورانہ جنگ میں اضافہ ہوا ہے تو ایسا لگنے لگا ہے جیسے لیڈرشپ نے مذہبی اور دوسری اقلیتوں کو درپیش سنگین حالات سے آنکھیں چرائی ہوئی ہیں- بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے حال ہی میں دعویٰ کیا کہ طالبان سے مذاکرات کے ثمرات نظر آنا شروع ہو گئے ہیں اور اسی کے نتیجے میں آجکل ملک میں امن و سکون ہے- خان صاحب کا ماننا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی ہے-
تاہم، عمران خان کے اس بیان میں دو مسئلے ہیں-
پہلا تو یہ کہ یہ مکمل طور پر درست نہیں- تاہم، اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اگر طالبان سے مذاکرات کی وجہ سے واقعی شہریوں کے خلاف دہشت گرد حملوں میں کمی آئی ہے تو یہ چیز خود اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ طالبان پاکستان میں عام شہریوں کے بہیمانہ قتل عام کے ذمہ دار ہیں-
ہندوستان کے ساؤتھ ایشین ٹیررازم پورٹل میں بیان کئے جانے والے تازہ ترین اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ دہشت گرد حملوں میں ہونے والی شہری ہلاکتوں میں کمی آئی ہے (نیچے دیا گیا چارٹ دیکھیں)- مثال کے طور پر، پاکستان میں جنوری 2014 میں دہشت گرد حملوں میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد 236 تھی جبکہ اس کے مقابلے میں جنوری، 2013 میں یہ تعداد 414 تھی- کچھ ایسے ہی اعدادوشمار فروری اور مارچ کے بھی ہیں- سب سے نمایاں کمی اپریل کے مہینے میں ریکارڈ کی گئی، جس میں اپریل، 2014 میں 116 سویلین ہلاکتیں ہوئیں جبکہ اپریل، 2013 میں سویلین ہلاکتوں کی تعداد 230 تھی-
اوپر دئے گئے چارٹ میں ، دہشت گردی سے منسلک خون خرابے میں کمی کو ثابت کرتی ہے تاہم کیا ان ہلاکتوں کے نمبرز اس حد تک گر چکے ہیں کہ خان صاحب اور دوسرے یہ اعلان کر سکیں کہ "کام ختم ہوا"- صرف اپریل، 2014 میں 116 شہریوں، بیس سیکورٹی اہلکاروں اور 130 مشتبہ عسکریت پسندوں کی ہلاکت سے کہیں بھی یہ تاثر نہیں ملتا کہ اس ملک میں امن و شانتی کا دور دورہ ہے-
جہاں حملوں کی تعداد اور ان کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں میں کمی ہوئی ہے وہیں دہشت گردوں کے ٹارگٹس کے حوالے سے ریجنل فوکس بھی ابھرنے لگا ہے- بلوچستان اور سندھ میں دہشت گرد حملوں کا تناسب 2012 سے ایک ہی جیسا نظر آتا ہے جبکہ پنجاب اور کے پی کے میں پچھلے دو سالوں کے دوران اس تناسب میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ہے (نیچے دیا گیا چارٹ دیکھیں)-
مثال کے طور پر، 2012 میں پنجاب میں دہشت گردی میں ہونے والی سویلین ہلاکتوں کا تناسب صرف دو فیصد ریکارڈ کیا گیا تھا اور 2014 میں پنجاب میں یہی تناسب سات فیصد تک ہو گیا ہے-
اسی طرح کے پی کے صوبے کے آباد علاقوں میں ہونے والی شہری ہلاکتیں، پاکستان میں ہونے والی مجموعی شہری ہلاکتوں کا بارہ فیصد تھیں اور 2014 میں یہ تناسب بڑھ کر بائیس فیصد ہو گیا ہے- اسی عرصے میں فاٹا میں ہونے والی شہری ہلاکتوں کا تناسب جو 2012 میں اٹھارہ فیصد تھا، 2014 میں گھٹ کر پانچ فیصد ہو گیا ہے-
بادامی باغ کا عبدالرؤف یا اس جیسے دیگر فرقہ ورانہ قتل و غارتگری کا اعتراف کرنے والے سینکڑوں قاتل، یہ سب اب وہ مجرم نہیں رہے جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پہنچ سے دور ہوں-
تاہم ان انتہا پسندوں کو ہمارے کمزور عدالتی نظام کے ذریعے سزا دینا مشکل ہے- یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خدا کے نام پر موت اور تباہی کا رستہ چنا-
یہ اس وقت تک نہیں رکنے والے جب تک ریاست کے تمام ادارے ایک ساتھ مل کر پاکستان میں انتہا پسند تشدد کے خطرے کا سامنا نہیں کرتے-
ترجمہ: شعیب بن جمیل
مرتضیٰ حیدر ٹورنٹو میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، اور regionomics.com کے ڈائریکٹر ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: regionomics@
