!مودی، گاندھی اور کیجریوال: مقابلہ سخت ہے
پیر کے روز ہندوستان کے نو مراحل میں منعقد ہونے والے لوک سبھا انتخابات کے آخری مرحلے میں تین ریاستوں اتر پردیش، مغربی بنگال اور بہار کی اکتالیس سیٹوں کے لئے ووٹ ڈالے گئے۔
سب سے اہم معرکہ بہار کی وارانسی یعنی بہار کی سیٹ پر ہوا۔ جہاں مقابلہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے نامزد وزیر اعظم نریندر مودی، عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجروال اور کانگریس کے نمائندے اجے رائے کے درمیان ہوا۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت رکھنے والے ہندوستان میں لوک سبھا انتخابات کے آخری مرحلے میں یہ معرکہ اس لئے اہم ہے کیونکہ یہاں مقابلہ بی جے پی کے نریندر مودی اور عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجروال کے مابین ہے۔
نریندر مودی ذہنی طور پر وزیر اعظم بنے بیٹھے ہیں اور اپنی کابینہ تشکیل دینے کے لئے لوگوں کا چناؤ بھی کرچکے ہیں۔ اروند کیجروال دہلی میں شیلا ڈکشٹ کو شکست دینے کے بعد دل میں آس لئے ہونگے کہ کاش میں مودی کو شکست دے دوں تو انقلاب آجائیگا۔
لوک سبھا میں حکومت بنانے کے لئے دو سو بہتر سیٹیں درکار ہوتی ہیں اور ہندوستانی سیاسی پنڈتوں کے مطابق بی جے پی دو سو تیس سے دو سو چالیس سیٹیں حاصل کر سکتی ہے۔
سوال یہ ہے کے اگر بی جے پی اتنی سیٹیں حاصل کر لیتی ہے تو باقی مطلوبہ سیٹیں وہ کس سیاسی جماعت کے ساتھ الحاق کر کے حاصل کرے گی؟
دیکھنا یہ ہے کے آیا بی جے پی نیشنل ڈیموکریٹک الائنس میں شامل دیگر جماعتوں کی سپورٹ حاصل کر پائے گی یا نہیں کیونکہ ہندوستان کی ریاستی جماعتیں اپنی ریاست کے لوگوں کے مفادات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے ہی کسی بھی بڑی سیاسی جماعت کے ساتھ الحاق کرتی ہیں۔
الائنس میں شامل جماعتوں کی تعداد اٹھائیس ہے مگر اس کا ہر گز مطلب نہیں کے یہ تمام جماعتیں ہی بی جے پی کے ساتھ حکومت بنانے کے لئے الحاق کر لیں گی اور اس کی وجہ یہ ہے کے الائنس میں شامل کچھ سیاسی جماعتوں کو بی جے پی کی جانب سے وزیر اعظم کے لئے نریندر مودی کے انتخاب پر نالاں ہیں۔ جو کے سوشلزم کے دُشمن اور ہندوتوا کے علمبردار گردانے جاتے ہیں۔
ماضی کو دیکھا جائے تو انیس سو اٹھانوے کے انتخابات میں بی جے پی ایک سو بیاسی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی مگر حکومت بنانے کے لئے مطلوبہ نشستیں نا ہونے کے سبب بی جے پی کی سربراہی میں تیرہ پارلیمانی جماعتوں کے اشتراک سے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) تشکیل دیا گیا۔ جس کے موجودہ سربراہ چندرا بابو ہیں اور اس کے اعزازی چیئرمین سابق وزیر اعظم اٹل بہاری ہیں۔
الائنس میں دیگر ہندوستانی رہنما ایل کے ایڈوانی، سشما سوراج، ارون جیٹلی، اور کاریا منڈا شامل تھے۔ الائنس انیس سو اٹھانوے سے دو ہزار چار تک بر سر اقتدار رہا اور اب پارلیمان میں حزب اختلاف ہونے کے ساتھ ساتھ کئی ریاستوں میں برسر اقتدار بھی ہے۔
انیس سو چھیانوے کے انتخابات میں بننے والی یونائٹیڈ فرنٹ کی حکومت انڈین نیشنل کانگریس کی علیحدگی کے بعد ٹوٹ گئی۔ جس کے بعد انیس سو اٹھانوے میں لوک سبھا کے لئے دوبارہ انتخابات کروائے گئے۔ مگر ان انتخابات میں بھی کوئی بھی سیاسی جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکی۔ تاہم بی جے پی پانچ سو پینتالیس اراکین میں سے دو سو چھیاسی اراکین کی مدد سے حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کی جماعتوں کے الحاق سے بننے والی بی جے پی کی حکومت آل انڈٰیا انّا ڈراودا مونیترا کازیگم کے اٹھارہ اراکین کی علیحدگی کے بعد دوبارہ ٹوٹ گئی۔ جس کے نتیجے میں ہندوستان میں انیس سو ننانوے میں ایک دفعہ پھر انتخابات کروائے گئے۔
بی جے پی نے انیس سو ننانوے کے لوک سبھا انتخابات کے بعد جب حکومت بنائی تو بی جے پی کی دوسو ستتر نشستیں تھیں اور الائنس میں شامل دیگر تیرہ جماعتوں کے الحاق کے ساتھ بی جے پی لوک سبھا میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ جس نے پانچ سال کا جمہوری عرصہ مکمل کیا۔
مگر ہندوستانی عوام بی جے پی اور نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کی کارکردگی سے نا مطمئن رہی اور اسی لئے انہوں نے دو ہزار چار کے انتخابات میں یونائٹیڈ پروگریسو الائنس اور انڈین نیشنل کانگریس کو اکثریت دلوائی۔ اِن انتخابات میں بی جے پی نے ایک سو اڑتیس اور کانگریس نے ایک سو پینتالیس نشستیں اپنے اپنے نام کیں۔
دو ہزار نو کے انتخابات میں بھی ہندوستانیوں نے یونائٹیڈ پروگریسیو الائنس کو ہی اپنے ووٹوں کا صحیح حقدار سمجھا اور اس طرح کانگریس مسلسل دوسری مرتبہ ہندوستان میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ ان انتخابات میں یو پی اے کی دو سو باسٹھ نشستوں میں سے اکثریتی جماعت کانگریس نے دو سو چھ نشستیں حاصل کیں۔ جبکہ نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کی اکثریتی جماعت بی جے پی نے ایک سو سولہ نشستیں اپنے نام کیں۔
دو ہزار چودہ میں ہونے والے انتخابات میں حصّہ لینے والے این ڈی اے میں شامل سیاسی جماعتوں کی تعداد اٹھائیس ہے۔ جن کے پانچ سو بیالیس امیدواران انتخابات میں حصّہ لے رہے ہیں اور ان میں بی جے پی کے امیدواران کی تعداد چار سو ستائیس ہے۔
انیس سو نناوے کے انتخابات کے بعد تو این ڈی اے میں شامل تمام جماعتوں نے بی جے پی کے ساتھ باآسانی الحاق کر لیا تھا، وجہ یہ تھی کہ اگر کوئی بھی جماعت بی جے پی کے ساتھ الحاق نا کرتی تب بھی بی جے پی اس پوزیشن میں تھی کہ وہ اکیلے ہی کسی بھی سیاسی جماعت کی حمایت کے بغیر ہی لوک سبھا میں اپنی حکومت بنا لیتی۔
ٹائم آف انڈیا کے ایگزٹ پول کے مطابق تو این ڈی اے دو سو انچاس نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا دکھائی دے رہا ہے جبکہ یو پی اے ایک سو اڑتالیس نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر آتا دکھ رہا ہے۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کے ہندوستان میں انقلاب لانے کی دعویدار عام آدمی پارٹی اِن ایگزٹ پول کے مطابق کوئی بھی نشست حاصل کرتی دکھائی نہیں دے رہی۔
اگر بی جے پی ان انتخابات میں دو سو سے زائد سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو بی جے پی کو دو سو بہتر نشستوں کا ہدف حاصل کرنے کے لئے این ڈی اے کی باقی جماعتوں سے سپورٹ چاہیے ہوگی۔ جن میں کچھ جماعتیں بی جے پی کی جانب سے نریندر مودی کے چناؤ کے بعد ناراض دکھائی دیتی ہیں۔
اس صورت حال میں بی جے پی کے لئے مطلوبہ نشستیں حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا اور اگر بی جے پی دیگر جماعتوں کے الحاق کے ساتھ مطلوبہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو دیکھنا یہ بھی ہو گا کے دیگر جماعتیں کب تک بی جے پی اور اس کی جانب سے نامزد وزیر اعظم کا ساتھ نبھاتی ہیں۔
بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@
nasim.naveed@gmail.com
