میاں صاحب ، تمام بچوں کو واپس اسکول بھیجیں

دنیا میں پرائمری تعلیم سے محروم بچوں کا دس فیصد پاکستان میں رہتا ہے۔

دنیا میں پرائمری تعلیم سے محروم بچوں کا دس فیصد پاکستان میں رہتا ہے- اور یہ افسوسناک حقیقت آئینی ترمیم ( آرٹیکل 25 A ، اٹھارویں ترمیم) کے بعد بھی کہ 5 سے 16 سال تک کے بچوں کے لئے تعلیم لازمی اور مفت ہوگی، ابھی تک موجود ہے- نئی حکومت کے پہلے بجٹ 12 جون کو پیش کیا جاۓ گا- چند ہفتوں کے مختصر عرصے میں ، نئی منتخبہ حکومت کو، اپنے ووٹروں سے کیےسرسبز و شاداب وعدوں کو عملی شکل دینے کا اہتمام کرنا ہوگا - ایک محدود وسائل کی معیشت جہاں ٹیکس ریونیو اور قابل استفادہ قدرتی وسائل کی فراہمی کم ہے، وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کو عوامی سیکٹر سرمایا کاری پر منافع کی زیادہ شرح حاصل کرنے کے لئے مناسب حکمت عملی کے ساتھ سرمایہ کاری کرنا ہوگی -

جبکہ نۓ بجٹ میں بہت سی ضروریات حکومتی سرمایہ کاری کے لئے کوشاں ہونگی ، بہرحال، ان میں سے کوئی بھی اتنی اھم نہیں جتنا تعلیم پر سرمایہ کاری ضروری ہے - اور جیسا کہ بہت سے اس بات کی کوشش کریں گے کہ علیٰ تعلیم پر سرمایہ کاری کی جاۓ ، شریف گورنمنٹ کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ پرائمری تعلیم میں سرمایہ کاری دوسروں کے مقابلے میں سماجی طور پرزیادہ  منافع بخش ہے -

ابھی چند ہفتوں پہلے کی بات ہے کہ نواز لیگ نے اپنے ووٹروں سے اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ منتخب ہو گۓ تو تعلیمی بجٹ کو 2018 تک  جی ڈی پی کے 2 فیصد سے بڑھا کر 4 فیصد کر دیا جاۓ گا- پاکستان پیپلز پارٹی نے 2018 تک 4.5 فیصد جب کہ عمران خان کی پارٹی نے 5 فیصد تک تعلیمی بجٹ میں اضافے کا وعدہ کیا تھا- خیر یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے کہ سیاسی جماعتوں نے اپنی انتخابی مہم میں  تعلیمی سرمایہ کاری بڑھانے کی بات کی ہے- بعد انتخابات کی حقیقت میں ٹیکس ریونیو کی محدودگی ، بڑے بڑے قرضوں کی ادائیگی اور مسلح افواج، اور تعلیم سے وابستگی کی کمی کے نتیجے میں اکثر تعلیم پر پہلے سے بھی کم سرمایہ کاری کی جاتی ہے-

پاکستان میں تعلیم پر زائد اخراجات کے وعدوں کے باوجود، تعلیم تو دور کی بات، خواندگی تک  کا برا حال ہے- ایک اندازے کے مطابق تقریباً 7 ملین بچے اسکول نہیں جاتے- دوسرے سودوں کے مقابلے میں خیبر پختون خواہ میں انرولمنٹ کی شرح کم ہے- اور پختوں خواہ میں بھی لڑکوں کے مقابلے بہت کم لڑکیاں اسکول جاتی ہیں- یونیسکو کی رپوٹ کے مطابق ، پرائمری عمر کے بچوں  کے 89 فیصد علاقائی اوسط( ریجنل ایوریج)  کے مقابلے میں ، خالص تناسب اندراج (نیٹ انرولمنٹ ریشو)  72 فیصد (2011) تھا- ثانوی تعلیم کے لئے کل تناسب اندراج علاقائی اوسط کے 60 فیصد کے مقابلے میں 35 فیصد (2011) تھا- اور آخر میں تیسرے درجہ تعلیم کا کل تناسب اندراج ، علاقائی تناسب کے 18 فیصد کے مقابلے میں 8 فیصد (2011)  تھا-

اور اس کے ساتھ ہی ، یونیسکو کے اندازے کے مطابق تقریباً 50 ملین پاکستانی نا خواندہ ہیں- یہ کیسے ممکن ہے کہ ہر آنے والی حکومت تعلیم پر زیادہ اخراجات کا وعدہ کرتی ہے اور پھر بھی دوسروں کو پاکستان میں لاکھوں لوگ نا خواندہ ملتے ہیں-

وفاقی حکومت ، اٹھارویں ترمیم کے بعد علیٰ تعلیم کے لئے ذمہ دار ہے- صوبوں کے سپردبارہویں جماعت تک کی تعلیم ہے- پرائمری اور سیکنڈری تعلیم ، ضلعی حکومت کے زمرے میں آتی ہے- یہ پاکستان کے لئے ایک دلچسپ چیلنج بن جاتا ہے جہاں پرائمری تعلیم لوکل گورنمنٹ کے سپرد ہے یہ حکومت کا وہ درجہ ہے جہاں پیسوں کی سب سے زیادہ تنگی ہے کیوں کہ یہ ٹیکس آمدنی کے بہتر ذرائع پیدا کرنے سے قاصر ہیں-

اس امر کے باوجود کہ پرائمری تعلیم پاکستان کے تعلیمی اخراجات کا سب سے زیادہ حصّہ ( کل تعلیمی اخراجات کا 34 فیصد)  حاصل کرتی ہے ، پرائمری تعلیمی خدمات کی طلب اس کی فراہمی سے کہیں زیادہ ہے - نتیجہ بلکل واضح ہے- غیر معیاری اور ناقص پرائمری اسکول نظام ،پرائمری تعلیم کے مطالبات پورے کرنے میں ناکام رہا ہے، جس کے نتیجے میں اسکول جانے کی عمر کے بہت سے بچے اسکول نہیں جا رہے-

حکومت کے تحت چلنے والے پرائمری اسکولوں کی ناقص کارکردگی اور تعلیم کی وجہ سے مڈل کلاس اور اپر کلاس گھرانے اپنے بچوں کو پرائمری اور سیکنڈری گورنمنٹ اسکول نہیں بھیجتے - پاکستان میں منافع خور پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کی ایک متوازی دنیا ظاہر ہوئی ہے- یہ اسکول حد سے زیادہ ٹیوشن فیس لیتے ہیں ، جو اکثر مڈل کلاس گھرانوں کی حیثیت سے زیادہ ہوتی ہے، لوئر مڈل کلاس اور کم آمدنی والے گھرانوں کی تو بات ہی چھوڑیں-

اس کے نتیجے میں پاکستان میں پرت دار تعلیمی تصویر سامنے آئ ہے ، جہاں زیادہ آمدنی والے گھرانوں کے بچے علیٰ معیار کے نجی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ لوئر مڈل کلاس بچے اور دوسرے گورنمنٹ پبلک اسکول بھیج دیے جاتے ہیں - اور انتہائی غریب لوگوں پر قسمت کی دیوی مہربان نہیں کیوں کہ ان کے بچے اسکول نظام کا حصّہ ہی نہیں ہیں-

یونیسکو نے پاکستان کی غریب اور امیر عوام کے درمیان تعلیمی حصول میں واضح تفریق بیان کی ہے- دیہاتی اور شہری دونو طرح کا گھرانوں میں  ،زیادہ آمدنی والے گھرانوں میں  اسکولنگ کے سالوں کی تعداد کہیں زیادہ ، کم آمدنی والے ، اور دیہی گھروں میں کم آمدنی والے 20 فیصد گھرانوں کی خواتین کے بارے میں سب سے کم اسکولنگ کے سال رپورٹ کے گۓ ہیں-

پرائمری تعلیم پر پیداوار کی معاشرتی شرح :

1986 سے  ورلڈ بینک کے ایک مطالعہ سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں ، علیٰ تعلیم کی سماجی شرح پیداوار  میں ، ایک اندازے کے مطابق  کم درجے کی تعلیم کے مقابلے میں ، علیٰ تعلیم سے حاصل ہونے والی زیادہ  آمدنی میں 13 فیصد کمی ہوئی ہے- اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ آمدنی  میں زبردست اضافے کے لئے علیٰ تعلیم کے بجاۓ پرائمری تعلیم میں سرمایہ کاری ضروری ہے- بہرحال شریف گورنمنٹ کے پاس اکیلے علیٰ تعلیم پر سرمایہ لگانے کے لئے مینڈیٹ محدود ہے-

اسکا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ علیٰ تعلیم میں سرمایہ کاری کے فوائد نہیں ہیں- درحقیقت ورلڈ بینک کی رپورٹ کے بعد 1996 میں ایک تنقید، اکنومیکس آف ایجوکیشن ریویو جرنل میں شائع ہوئی جس میں مصنف نے یہ بحث کی کہ سماجی شرح پیداوار کی پیمائش میں دوسرے سماجی مفادات کو نظر انداز کر دیا ہے ، جو علیٰ تعلیم میں سرمایہ کاری کی حمایت کرتے ہیں-

بہرحال بہت سے ایسے تحفظات ہیں جو پاکستان میں الا تعلیم پر بےتحاشا سرمایہ لگانے کے حوالے سے بحث کے اھل ہیں- اسی حوالے سے پہلے بھی لکھتے ہوے ، میں نے اس بات پر بحث کی تھی کہ تحقیق پر علیٰ تعلیمی اخراجات نے قوم کی فوری ضروریات کے لئے کچھ نہیں کیا - ایسے مسائل پر تحقیق میں تعلیمی ادارے  مصروف ہیں جوعوام کو  فوری امداد کی پیشکش نہیں کرتے- میں نے لکھا تھا :

" مندرجہ گراف ان موضوعات کے رقبےکا  تصویری خاکہ  ہے جو 7،115  تحقیقی مقالوں کی تقسیم کرنے کے لئے استعمال کیا گیاہے- ہر  موضوعاتی رقبے کا حجم ، اس تناسب کے ساتھ ہے کہ وہ کتنی بار لسٹ میں نظر آتا ہے - اور اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں  کیمیا اور دوسرے بنیادی سائنسی ، ساتھ ہی اردو اور اسلامک اسٹڈیز ڈاکٹری  مقالوں کے لئے سب سے عام تحقیقی موضوعات ہیں- تعلیم اور زراعت ، متعدد تحقیقی موضوعات میں بہت کم نظر آتے ہیں ، جو پاکستان کی فوری ضروریات کی طرف توجہ دلاتے ہیں -

" جب بھی کوئی پاکستان کو پچھلی ٣ دہائیوں سے لاحق سنگین چیلنجوں کے بارے میں سوچتا ہے تو کیمسٹری، زولوجی اور اردو ادب ذہن میں نہیں آتے- جو نظر آتا ہے وہ ہے غربت، غیر مساوی آمدنی، غذائی قلت، پانی کی کمی، بنیادی ڈھانچے میں نقص، نا خواندگی، تشدد، جنگ ، مذہبی بنیادپرستی اور فرقہ پرستی ، یہ وہ چیلنج ہیں جو سوسائٹی اور ریاست کی بقا کے لئے خطرہ ہیں-"

علیٰ تعلیمی تحقیق میں سرمایہ کاری کا جواز بنتا ہے اگر ادارے اپنی تحقیقی ترجیحات کو قوم کی ضروریات کے ساتھ ایک خط پر لے آئیں- اکیلے 2010-2011 کے بجٹ میں تحقیق کے لئے مختص کیے جانے والے ٨٠٠ ملین روپے کے بارے میں سوچا جاۓ کہ فنڈز میں سے کتنا غربت کے خاتمے، خواندگی بہتر بنانے، پانی تک بہتر رسائی، صحت و صفائی اور سستی توانائی کی تحقیق پر خرچ ہوا-

ایک اور بڑا مسلۂ علیٰ تعلیم میں سرمایہ کاری سے متعلق یہ ہے کہ گورنمنٹ علیٰ تعلیمی اداروں میں شرکت کرنے والے تمام لوگوں پر سبسڈی لگاتی ہے، ان یونیورسٹیوں کو چلانے کی لاگت ٹیوشن فیس میں سے ہی نہیں نکالتی- چناچہ سبسڈی مستحق  اور غیر مستحق دونوں طرح کے طالبعلموں پر لاگو ہو جاتی ہے- مزید یہ کہ ، ایک بڑی تعداد جو ڈاکٹروں اور انجنیئروں کی تربیت  پر آنے والی لاگت کے ایک حصّے کی ادائیگی کرتی ہے، بہتر مواقعوں کی تلاش میں پاکستان چھوڑ کر چلی جاتی ہے، چناچہ قوم ، انسانی وسائل میں سرمایہ کاری کے فوائد حاصل کرنے سے محروم رہ جاتی ہے-

بہت سے لوگ اس بات پر بحث کریں گے کہ تحقیق میں سرمایہ کاری اور ترقی ، قوم کی معاشی ترقی کے لئے ضروری ہے- یہ بات ترقی یافتہ معیشت کے لئے تو صحیح ہو سکتی ہے لیکن پاکستان پر لاگو نہیں ہوتی- سوچیں نیوکلیئر ہتھیار پروگرام جدید تحقیق ہزاروں نہیں تو سیکڑوں علیٰ طبیت یافتہ فزکسٹ پیدا تو کردیے ہیں ، لیکن اس سے قوم میں توانائی اور پانی کے بحران پر قابو نہیں پایا جا سکتا- 2009  میں  ، پاکستان کے جرنل آف کامرس اینڈ سوشل سائنسز میں امتل آر. چودھری اور دیگر نے یہ جائزہ پیش کیا ہے کہ پاکستان کے معاملے میں : علیٰ تعلیم معاشی ترقی کا ذریعہ نہیں ہے- ان کےتجربہ کار  ٹیسٹ یہ تجویز کرتے ہیں کہ یک سمتی عملی قوت، معاشی ترقی سے علیٰ تعلیم کی طرف جاتی ہے -

علیٰ تعلیم کا معاشی ترقی پر اثر شاید صرف طویل مدّت بعد ہی نظر آسکتا ہے- صائمہ ریاست اور دیگرے دسمبر 2011، میں ایجوکیشنل ریسرچ جرنل میں لکھتے ہیں کہ ، " تعلیمی اخراجات ، طویل مدتی معاشی ترقی میں اھم کردار ادا کرتے ہیں"- بہرحال انڈیا میں تعلیم اور معاشی ترقی کے درمیان تعلق پر تنقیدی جائزہ ، ان دونوں کے بیچ قوی تعلق دیکھنے میں ناکام رہا-

یونیورسٹی آف ڈنڈی کے سیاتن گھوش داستیدار اور دیگر نے ایک مباحثی پرچے میں یہ جائزہ پیش کرتے ہیں کہ " تعلیم پر خرچ ضروری ہے لیکن ترقی کے لئے لازمی شرط نہیں"- اس کا دارو مدار  زیادہ تر لیبر مارکیٹ اور معاشی حالت پر ہے- انکا کہنا تھا کہ یہ صرف 1991 کی بات ہے جب انڈیا نے اپنی معیشت کے دروازے  دنیا کے لئے کھولے تب پیداوار پر تعلیمی اخراجات کے اثرات کو محسوس کیا گیا-

پاکستان کا تعلیمی بجٹ:

اگر شریف گورنمنٹ پیدؤال بڑھانے کے لئے تعلیمی کا سہارا لینا چاہتی ہے تو اسے تعلیمی سیکٹر میں دانشمندانہ سرمایہ کاری کرنا ہوگی - بنا کسی غور و غوض کے تعلیمی بجٹ میں اضافہ کے الٹ اثرات بھی ہو سکتے ہیں- بجٹ کے ساتھ مشقت کرنے والے مالیاتی منصوبہ کاروں کو مندرجہ باتوں پر غور کرنا چاہیے:

1. پرائمری تعلیم کو پیسے سے محروم لوکل گورنمنٹ کے حوالے کر کے ، وفاق کو علیٰ تعلیم کو اپنی ترجیح نہیں بنانا چاہیے - وفاق کو پرائمری اور سیکوندرے تعلیم کے لئے بہتر فنڈز دینا ہوں گے جب کہ اسکولوں کا انتظام و انصرام لوکل گورنمنٹ کے پاس ہی رہنے دیا جا سکتا ہے- وفاق، پرائمری اور سیکوندرے تعلیم کی بہتری کے لئے ، ایک ٹاسک فورس تشکیل دے سکتی ہے جو، گورنمنٹ کی نچلی سطح پر منتقل فنڈز کی کار کردگی کی نگرانی ، نشان دہی اور دستاویز مرتب کر سکے -

2. علیٰ تعلیمی فنڈز  ابتدائی طور پر ایسی تحقیق اور ترقی پر خرچ کیے جائیں جو ملکی مسائل کے مختصر مدّت میں حل پیش کر سکیں- توانائی کی کمی، پانی کی قلّت،  فصلوں کی رکی ہوئی پیداوار، قدرتی آفات مثلاً سیلاب اور زلزلوں  کے تباہ کن اثرات سے بچاؤ ، امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے کے لئے حل ، یہ تحقیقی ترجیحات کی کچھ مثالیں ہیں -

3. پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیان انڈر گریجویٹ ڈگری کے لئے مناسب ٹیوشن فیس لاگو کریں جو یونیورسٹی چلانے کی لاگت کا بھی احاطہ کر سکے- اس طرح سبسڈی کا خاتمہ ہوگا ان کے لئے بھی جو اس کے مستحق نہیں ہیں- ضرورت کی بنیاد پر وظائف کی پیشکش کی جاۓ ان کے لئے جو ضرورت مند ہوں اور علیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے اپنی اہلیت ثابت کریں-

اس طرح تحقیق کے لئے خاصہ فنڈ بچایا جا سکتا ہے-

تعلیم بالغاں کے لئے ایک مہم چلائی جاۓ جس میں نوجوانوں کو حصّہ لینے کی ترغیب دی جاۓ - ماضی میں ایسے منصوبے بیکار ہو گۓ تھے- اگرپاکستان میں  ممتاز شخصیات کو اس حوالے سے ملایا جاۓ تو یہ کام بہتر طریقے سے ہو سکتاہے-

ایک خواندہ پاکستان چیلنجوں کا بہتر سامنا کر سکتا ہے- اگر لاکھوں اسکولوں سے باہر رہ جاتے ہیں اور لڑکیوں کی ایک انتہائی غیر متناسب تعداد ، نا خواندہ یا نیم خواندہ رہ جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں پاکستانی افرادی قوت کبھی بھی دنیا کا سامنا نہیں کر سکتی -

چناچہ نئی حکومت کو معنی خض ہدف بنانے ہونگے- تعلیمی بجٹ میں اضافہ کے وعدے سمجھداری نہیں ہیں- اس کے بجاۓ شریف گورنمنٹ کو2018 تک پرائمری عمر کے بچوں میں خواندگی کی شرح 100 فیصد تک حاصل کرنے کا ہدف بنانا ہوگا - پاکستان اسی وقت آگے بڑھ سکتا ہے جب ایک بچا بھی پیچھے نہ رہ جاۓ -