!ہماری لڑکیاں واپس لاؤ
ضروری نہیں کہ آپ ملک سے باہر رہتے ہوں تبھی آپ کو یہ احساس ہو کہ بوکو حرام کے خلاف، جو نائیجیریا میں پاکستانی اور افغان طالبان کی دوسری شکل ہیں، ساری دنیا میں اس قدر شدید غم و غصہ کیوں ہے؟
ٹویٹر پر جائیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ نائیجیریا کے دور دراز گاؤں چیبوک میں 300 لڑکیوں کا اغوا کرنے والوں کی مسلسل شدید مذمت کی جارہی ہے- ہیش ٹیگ #Bring Back Our Girls اسقدر ایکٹیو ہے کہ آپ ابھی ایک پیغام پڑھ بھی نہیں پاتے کہ دوسرا سامنے آ جاتا ہے-
لیکن پاکستان میں ہم اپنے معاملات میں اتنے منہمک ہیں کہ شائد ہی کسی نے اس جانب توجہ دی ہو- ڈان اخبار میں ماہرعلی کے ایک بلیغ مضمون اور اخبار کے اداریہ کے علاوہ، جس میں عالم اسلام سے اس وحشیانہ فعل کی مذمت کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا، میری نظر سے اور کوئی قابل ذکر بیان نہیں گزرا- ہمارے نجی ٹی-وی چینل ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں یا موجودہ بحران پر اظہار خیال کرنے میں اس قدر مشغول ہیں کہ ان کے پاس اس دوردراز کے واقعہ کے بارے میں اپنے ناظرین کو بتانے کے لئے وقت نہیں-
لیکن اگرچہ ہم اپنے ملکی واقعات میں اسقدر ڈوبے ہوئے ہیں، تب بھی ہمیں سمجھنا چاہیئے کہ ہمارے آگے بھی ایک دنیا ہے اور وہاں ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں کہ ہم پر چند اخلاقی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں- ایک مثال ملالے یوسف زئی کی ہے: لاکھوں پاکستانی یہ پوچھتے رہتے ہیں کہ آخر ساری دنیا میں اس کے بارے میں اسقدر ہنگامہ کیوں ہے-
ایک ایسے ملک میں جہاں روزانہ معصوم لوگوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، شائد یہ سوال جائز ہے- لیکن ملالے کو یہ مثالی پوزیشن اس لئے حاصل ہوئی ہے کہ اس نے لڑکیوں کے تعلیم پانے کے حق پر ایک موقف اپنایا ہے- اسی طرح، مغوی ہونے والی نائیجیریا کی سینکڑوں نوجوان لڑکیوں کی تشویش ناک حالت نے----جن میں سے شائد بیشتر جنسی کاروبار کے لئے فروخت کردی جائینگی---- ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے-
اس غم و غصے اور کچھ کرنے کی خواہش کا اظہار اس پیشکش سے ہوتا ہے جو امریکہ اور برطانیہ کی حکومتوں نے نائیجیریا کی حکومت کو مغوی لڑکیوں کی بازیابی کے لئے کی ہے- خبر یہ ہے کہ انٹیلیجنس افسروں کی ٹیم نائیجیریا پہنچ چکی ہے- دیگر ملکوں نے بھی، جن میں چین بھی شامل ہے، مدد کی پیشکش کی ہے-
نائیجیریا اور پاکستان میں انتہا پسندوں کی جانب سے جدید تعلیم سے نفرت کے علاوہ اور بھی مماثلتیں موجود ہیں- ہمارے قباِئلی علاقوں اور کیمرون کے قریب نائجیریا کی غیر محفوظ شمال - مشرقی سرحد پر واقع گھنے جنگلات باغیوں کے لئے بہتریں پناہ گاہوں کا کام دیتے ہیں جبکہ یہاں باقاعدہ فوجوں کے لئے کارروائی کرنا بہت مشکل ہے-
جو بات ناقابل فہم اور اتنی ہی ناقابل برداشت ہے وہ ہے صدر گڈلک جوناتھن کا سہل پسندی کا رویہ- انھوں نے واقعہ کے تین ہفتوں بعد اعلان کیا کہ مغوی لڑکیوں کی جگہ کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والوں کو انعام دیا جائے گا-
ستم ظریفی یہ ہے کہ، اسی دن کیمرون کی سرحد کے قریب ایک مارکیٹ پر بوکو حرام نے بارہ گھنٹوں تک حملہ کیا جس میں 300 افراد ہلاک ہو گئے- یہ دلیرانہ حملہ خوف کی اس حکمرانی کی یاد دلاتا ہے جسے جرائم پیشہ ٹولے نے نائیجیریا کے طول و عرض میں برپا کر رکھا ہے-
آجکل، ملک کے دارالحکومت ابوجا میں ورلڈ اکنامک فورم کا اجلاس منعقد ہورہا ہے- نائیجیریا کو افریقہ کی سب سے بڑی معیشت سمجھا جاتا ہے- اس لئے نائجیریا کے عوام کا یہ سوال بالکل بجا ہے کہ ریاست انھیں تحفظ فراہم کرنے میں کیوں ناکام ہے: گزشتہ سال، ملک کے دفاع پر 6 بلین ڈالر صرف کئے گئے-
بلاشبہ، بدنظمی اور بے انتہا بدعنوانی نے ریاست کو مسلم اکثریت والے شمالی صوبوں میں ناکامیوں سے دوچار کیا ہے- یہاں، بوکو حرام نے انتہائی ڈھٹائی سے حملے کئے جس کا نائیجیریا کی دفاعی فوجیں بمشکل مقابلہ کرپائیں-
اب جبکہ مغرب کی سیکیورٹی ٹیمیں ریسکیو آپریشن میں نائجیریا کی مدد کرینگی، مجھے ذرہ برابر بھی شبہ نہیں کہ بہت سے لبرل، اسلام پسندوں کے ساتھ یک آواز ہو کر کسی خودمختار ملک کے اندرونی معاملات میں اوباما اور کیمرون کی مداخلت کی مذمت کرینگے- اس تمام معاملے میں اسلامی ملکوں نے ایک لفظ بھی نہیں کہا، کیونکہ ان میں سے بیشتر کو یہ ڈرہے کہ ان کے اپنے ملکوں کے انتہا پسند اس پر ناراض ہو جائینگے-
لیکن ان کی خاموشی سے، جیسا کہ ڈان کے حالیہ اداریہ میں کہا گیا ہے، بجا طور پر یہ سمجھا جائے گا کہ وہ بوکو حرام کے جرائم کی 'خاموش تائید' کر رہے ہیں، جو اسلام کے نام پر کئے جا رہے ہیں- ہم مسلسل یہ الفاظ دہراتے رہتے ہیں کہ اسلام امن کا مذہب ہے- لیکن بہت سے غیر مسلم اس بات سے اتفاق نہیں کرتے-
ہم اسے پسند کریں یا نہیں-----اور ہم میں سے اکثر پسند نہیں کرتے ---- سنگین حقیقت یہ ہے کہ مسلم انتہا پسندوں کے جتھوں نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرکے دنیا بھر میں بہت سے افراد کو ہلاک یا معذور کردیا ہے- ان میں سے بعض اپنے حقوق کے لئے جدو جہد کر رہے ہیں، اور وہ مسلمان ہیں- لیکن دوسرے اپنی خون کی پیاس بجھانے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے اسلام کا نام استعمال کررہے ہیں-
ان عناصر نے اسلام کے نام کو داغدار کردیا ہے، لیکن اسکے باوحود مسلم امہ خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے- اس لئے حیرانی نہیں ہوتی کہ غیر مسلموں کا یہ یقین بڑھتا جارہا ہے کہ مسئلہ اسلام کے اندر ہے، نہ کہ چند مسلمانوں کا-
ہماری یہ غلط خواہش کہ ہم ان گروہوں پر تنقید نہیں کرنا چاہتے جو اسلام کا نام لے کر لڑ رہے ہیں، ہم اس کاز کا گہرائی سے جائزہ نہیں لیتے جس کے لئے وہ کہتے ہیں کہ وہ جدوجہد کررہے ہیں: بوکو حرام، جسکی قیادت ایک جنونی کررہا ہے، جو مغوی لڑکیوں کو بیچنے کے درپے ہے، ہرگز ہماری حمایت کے لائق نہیں اور ہمیں صاف صاف لفظوں میں اس کی مذمت کرنا چاہیئے-
ترجمہ: سیدہ صالحہ
