نقطہ نظر

اب کی بار مودی سرکار

نریندر مودی اکیس مئی کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان کے چودھویں پردھان منتری کا حلف اٹھائیں گے۔

ہندوستان میں پچھلے دس سالوں تک اقتدار پر قابض رہنے کے بعد کانگریس کے ترجمان راجیو شکلا نے الیکشن ریزلٹس کے اعلان سے پہلے ہی ہار مانتے ہوئے کہا کہ ہم اپوزیشن میں بیٹھنے کو تیار ہیں۔

بھولے راجیو شکلا اگر شکست تسلیم نا بھی کرتے تو کیا فرق پڑتا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی انتخابات میں جیت تو اندھے کو بھی نظر آرہی تھی اور اگر ہار ہی ماننی تھی تو ریزلٹس ڈے سے کچھ دن پہلے ہی کرلیتے۔ اب شکست تسلیم کی بھی تو کونسا احسان کیا۔

بہر حال اب تو ہندوستان میں چڑھنے والا سورج اگلے پانچ سال تک نریندر مودی کی سرکار کو توانائی فراہم کریگا جو ہندوستانی ریاست گجرات میں ہونے والی ترقی کے کرتا دھرتا مانے جاتے ہیں۔

ہندوستانی سیاسی پنڈتوں کی پیشین گوئیوں کے مطابق تو مودی سرکار انڈین نیشنل کانگریس کے دس سالہ دور کے نتیجے میں ڈوبتی معیشت کو سہارا دے گی اور بہت جلد ہندوستانی معیشت دنیا کی بہترین اکانومیوں میں سے ایک ہوگی۔

نتائج کو دیکھا جائے تو یہ امید ضرور تھی کہ نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس (این ڈی اے) حکومت بنانے کے لئے مطلوبہ سیٹیں حاصل کر لیگا مگر یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کے بی جے پی اتنی آسانی سے دو سو بہتر سے زائد سیٹیں حاصل کر لے گی۔

انیس سو ننانوے کے انتخابات میں بی جے پی دو سو ستر سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی اور ابھی تک کے نتائج کے مطابق 543 سیٹوں میں سے 283 اپنے نام کروا چکی ہے اور کل ملا کر 40 فیصد سے زیادہ ووٹ لینے میں کامیاب ہوئی۔

انتخابات میں برتری حاصل کرنے کے بعد پیلے رنگ کی ویسٹ کوٹ میں ملبوث نریندر مودی اپنی ماتا جی کا آشیر واد لینے گاندھی نگر پہنچے۔ ماتا جی سے میٹنگ سے پہلے ہندوستان کے منتخب شدہ وزیر اعظم نے ٹویٹ بھی کی کہ "ہندوستان جیت گیا۔ ہندوستان کی وِجے، اچھے دن آنے والے ہیں"۔

مودی کو آشیرواد دینے کے بعد ماتا جی ہیرابین کا کہنا تھا کہ میں اپنے بیٹے کے لئے بہت خوش ہوں۔ میرا آشیر واد اس کے ساتھ ہے۔ میری پرارتھنا ہے کے ہمارا ملک اس کی سربراہی میں ترقی کرے۔

انتخابات میں بی جے پی کا الائنس این ڈی اے 334 سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ جبکہ کانگریس کا الائنس یو پی اے دوسرا نمبر بھی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ دیگر جماعتوں کی حاصل کردہ سیٹیں 138 رہیں اور یو پی اے صرف 61 سیٹیں حاصل کر سکا۔


انتخابات میں ویسے تو تمام مقابلے ہی اہم تھے۔ مگر کچھ ایسے مقابلے بھی تھے جن پر تمام ہندوستانیوں کی نظر تھی۔


نریندر مودی بمقابلہ اروند کیجریوال

ہندوؤں کے سب سے مقدس شہر بنارس سے بی جے پی کے نامزد وزیر اعظم نریندر مودی کا مقابلہ عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجروال اور کانگریس کے اجے رائے کے مابین تھا۔ اگر مودی کیجروال سے ہار بھی جاتے تو شاید بی جے پی کو اتنا فرق نا پڑتا مگر اروند کیجروال کی جیت سے ان کی گڈی خوب چڑھ جاتی۔ نریندر مودی الیکشن میں دو سیٹوں سے حصّہ لے رہے تھے اور دونوں سیٹوں پر ہی مودی نے جیت اپنے نام کی۔

اتر پردیش کے حلقے وارانسی سے نریندر مودی نے 516593 حاصل کئے۔ جبکہ انقلاب لانے کی دعویدار جماعت عام آدمی پارٹی کے سربراہ صرف 179739 ووٹ لینے میں کامیاب رہے۔ بیچارے اروند کیجروال دہلی کی حکومت بھی گنوا بیٹھے اور لوک سبھا میں بھی نا پہنچ پاۓ۔


راہل گاندھی بمقابلہ کمار وشواس

اتر پردیش کی ہی ایک سیٹ امیٹھی پر مقابلہ تھا کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی اور عام آدمی پارٹی کے کمار وشواس کا۔ امیٹھی کی سیٹ پر ہمیشہ ہی گاندھی خاندان کا کوئی فرد یا ان کا وفادار الیکشن لڑتا رہا ہے اور اس دفعہ عام آدمی پارٹی کے کمار وشواس نے بہت دعوے کئے تھے کہ وہ کانگریس کے گڑھ میں گاندھی خاندان کے سپوت کو مات دیں گے۔

مگر کمار کے خواب چکنا چور ہوگئے جب آج نتائج آئے۔ جس کے مطابق کمار صرف 24040 ووٹ لینے میں کامیاب رہے اور راہل گاندھی 398579 ووٹ لینے میں کامیاب رہے۔ اس حلقے سے بی جے پی کے امیدوار نے 29152 ووٹ حاصل کئے۔


سونیا گاندھی

اتر پردیش کے ہی حلقے رائے بریلی سے کانگریس کی صدر سونیا گاندھی الیکشن میں حصّہ لے رہی تھیں۔ جن کا مقابلہ تھا بی جے پی کے اجے اگروال سے۔ تاہم کانگریس کی صدر اپنی سیٹ بچانے میں کامیاب رہیں اور 526434 ووٹ لینے میں کامیاب رہیں۔


ارون جیتلی بمقابلہ امرندر سنگھ

گولڈن ٹیمپل کا شہر امرتسر جہاں مقابلہ تھا بی جے پی کے ارون جیتلی اور سابق وزیر اعلی کیپٹن امریندر سنگھ کا۔

ارون جیتلی اپنے لمبے سیاسی کیریئر کا پہلا الیکشن لڑ رہے تھے اور اس مقابلے میں ان کی دلچسپی بھی نہیں تھی۔

امریندر سنگھ نے 482876 ووٹ لیے اور ان کے مقابلے میں بی جے پی کے ارون جیٹلی 380106 ووٹ لے سکے۔ جیتلی کی شکست کے باوجود بھی یہ امید کی جارہی ہے کہ نریندر مودی کے بعد حکومت میں سب سے اہم عہدہ ارون جیتلی کو ہی سونپا جائیگا۔


جسونت سنگھ بمقابلہ کرنل سونا رام

راجستھان کی سیٹ بارمیر جہاں سے بی جے پی کے رکن جسونت سنگھ آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصّہ لے رہے تھے۔ ان کا مقابلہ تھا بی جے پی کے کرنل سونا رام کے ساتھ جو 488747 ووٹ اپنے نام کر سکے اور جسونت سنگھ 412086۔


کرکٹر محمد کیف

ہندوستانی کرکٹ ٹیم کا حصّہ رہنے والے محمد کیف نے کانگریس کے ٹکٹ پر اتر پردیش کی پھول پور سیٹ سے الیکشن میں حصّہ لیا اور صرف 57373 ووٹ حاصل کئے۔ اس سیٹ سے بی جے پی کے کیشور پرشاد 498240 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔


کرکٹر اظہر الدین

سابق ہندوستانی کرکٹ کپتان اظہر الدین نے کانگریس کی ٹکٹ پر راجستھان کے حلقے ٹونک سے الیکشن میں حصّہ لیا۔ مگر کرکٹ کے کامیاب کپتان کانگریس کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنے کے سبب جیت اپنے نام نا کر سکے اور بی جے پی کے امیدوار کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئے۔


ہیما مالنی

بولی ووڈ کی ڈریم گرل ہیما مالنی مندروں کے شہر متھرا سے بی جے پی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہی تھیں۔ جو 574633 ووٹ لیکر کامیاب رہیں۔ اس حلقے سے راشٹریا لوک دل کے جینت چوہدری 243890 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔


ونود کھنہبولی ووڈ کے ہی ماضی کے ہیرو ونود کھنہ ریاست پنجاب کے حلقے گرداس پور سے بی جے پی کے ٹکٹ پر 482255 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے۔


راکھی ساونتبولی ووڈ میں جگہ حاصل کرنے میں ناکام رہنے والی راکھی ساونت جنہوں نے پبلسٹی حاصل کرنے کے لئے اپنے سابقہ بوائے فرینڈ کو تھپڑ مارا تھا ممبئی سے الیکشن لڑ رہی تھیں۔ مگر بیچاری راکھی صرف اور صرف 15 ووٹ لے سکیں۔


ان انتخابات میں ایک حیرانگی کی بات رہی کہ ہندوستان میں انقلاب لانے کی دعویدار جماعت عام آدمی پارٹی صرف پانچ سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔

عام آدمی پارٹی کے رہنماؤں کا خیال تھا کے وہ دہلی سے مستعفی ہونے کے بعد لوک سبھا انتخابات میں اپنی قسمت آزمائیں گے اور دہلی کی طرح پورے ہندوستان میں سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مگر اب تو عام آدمی پارٹی دہلی کا اقتدار بھی کھو بیٹھی اور لوک سبھا میں بھی ان کی شمولیت نا ہونے کے برابر ہی ہوگی۔

جمعہ کے روز وزیر اعظم من موہن سنگھ نے نریندر مودی سے ملاقات کی اور ان کو بی جے پی کی جیت پر مبارک باد دی۔ وزیر اعظم من موہن سنگھ ہفتے کے روز اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے۔ جس کے بعد من موہن سنگھ سیاست سے ریٹائر ہو جائیں گے۔

ہندوستانی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق نریندر مودی اکیس مئی کو ہندوستان کے چودھویں وزیر اعظم کا حلف اٹھائیں گے۔ جس کے بعد اگلے پانچ سال تک مودی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے پردھان منتری ہونگے۔

نوید نسیم

بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@

nasim.naveed@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔