Dawn News Television

شائع 01 جون 2014 11:15am

مذہبی انتہا پسندی اور پاکستان کا تعلیمی میعار

کیسا محسوس ہوگا آپ کو اگر مسلح غنڈے آپ کی کلاس میں گھس آئیں اور آپ کو حکم دیں کہ آپ جو تعلیم حاصل کررہی ہیں شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی؟ اس سے زیادہ برا احساس کیا ہوگا کہ آپ کی ریاست اس لائق نہیں، یا چاہتی ہی نہیں کہ آپ کو اپنی تعلیم کے دوران اس طرح کی دھمکیوں سے محفوظ رکھا جائے؟

افسوس کہ بلوچستان کے شہر پنجگور کے طلباء کو چند ہفتوں پہلے یہ مسئلہ درپیش تھا جبکہ انگریزی میڈیم کے پرائیویٹ اور مخلوط تعلیم کے اسکولوں کو اس قسم کی دھمکیاں دی گئیں اور ان پر حملے کئے گئے-

تنظیم الاسلام الفرقان نامی گروہ، جو پہلے غیرمعروف تھا، ان اسکولوں کو تحریری دھمکیاں دے رہا ہے جہاں لڑکیاں پڑھتی ہیں اور خواتین اساتذہ کام کرتی ہیں- انھیں دھمکی دیجارہی ہے کہ وہ "بیہودہ مغربی" تعلیم حاصل نہ کریں- اس گروہ نے ان ٹیکسی ڈرائیوروں کو بھی نشانہ بنایا جو لڑکیوں کو اسکول پہنچاتے ہیں- لوگوں کو بتانے کے لئے کہ وہ ان کی بات سمجھ لیں انہوں نے 14 مئی کو ایک وین پر گولی چلائی اور اسے جلادیا جو اسکول کی طرف جارہی تھی-

پاکستان میں تعلیم پر انتہا پسندوں کے حملے کوئی نئی بات نہیں ہیں --- ایک اندازے کے مطابق کے پی میں حالیہ برسوں کی عسکریت پسندی کے نتیجے میں 600000 طلباء حصول تعلیم سے محروم ہیں-

گزشتہ مہینے ہی میں کے پی کی صوبائی اسمبلی میں تعلیم پر عسکریت پسندی کے اثرات پر بحث کی گئی- شعبہ تعلیم کے اعداد و شمار کے مطابق عسکرت پسندوں کے حملوں کے نتیجے میں صوبے کے 160 پرائمری اور سکنڈری اسکول اور پشاور کے 13 اسکول بند رہے-

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تعداد صحیح نہیں ہے بلکہ 385 اسکول بند رہے جن میں سے 295 لڑکیوں کے اسکول تھے- یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ اس میں وہ درجنوں اسکول شامل نہیں ہیں جنھیں عسکریت پسندوں نے 2000 کی دہائی کے وسط سے بموں کے حملوں میں تباہ کردیا تھا-

پنجگور کی صورتحال کا مقابلہ نائجیریا میں بوکوحرام کی سرگرمیوں سے کیا جاسکتا ہے جو آجکل بین الاقوامی میڈیا کی زد میں ہے، جس نے اسکول کی 200 لڑکیوں کو اغوا کیا ہے-

پنجگور میں اسکولوں کے بند ہوجانے کے نتیجے میں مدرسوں کی تعداد بڑھ جائیگی-

یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ عسکریت پسند بلوچستان میں سیکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے فائدہ اٹھا کر وہاں کے غیریقینی ماحول کو اپنے نظریاتی ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں، گو کہ صوبے میں ملٹری اور پیرا ملیٹری فورسز موجود ہیں- اور ایک بار پھر یہ پریشان کن سوالات پیدا ہوگئے ہیں کہ آیا حکومت اور ریاست میں یہ صلاحیت اور عزم موجود ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کو پیچھے دھکیل سکیں-

اسکولوں کے بند ہوجانے سے پنجگور کی آبادی نفسیاتی طور پر متاثر ہوئی ہے جسکی وجہ سے مستقبل میں تنگ نظری کے نظریات کو ایک ایسے معاشرے پر مسلط کرنا آسان ہوگیا ہے جو تاریخی اعتبار سے اعتدال پسند تھا- لیکن ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان تاریک محرکات کو بے نقاب کریں.

جسکی وجہ سے عسکریت پسندوں نے اسکولوں کو اپنا نشانہ بنا رکھا ہے- نجی، مخلوط اور انگلش میڈیم اسکولوں کے بند ہونے کی صورت میں مدرسوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا جسکے نتیجے میں عسکریت پسندوں کی حمایت میں اضافہ ہوگا-

اسلام آباد کی حالیہ انٹیلیجنس رپورٹوں میں زور دیکر یہ بات کہی گئی ہے کہ مدرسوں اور تشدد پسند انتہاپسندوں کے درمیان تعلق موجود ہے- مدرسے نہ صرف نئے ریکروٹس اور فنڈز فراہم کرتے ہیں جنھیں جنگجوئی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، بلکہ ان سے نیٹ ورکنگ کا کام بھی لیا جاتا ہے جس سے عسکریت پسند گروپوں کو ایک دوسرے سے رابطہ کرنے میں سہولت ہوتی ہے- رپورٹ کے مطابق صوبے میں 2500 رجسٹرڈ اور 10000 ہزار غیر رجسٹرڈ مدرسے موجود ہیں-

اس پس منظر میں، فرقان گروپ کا منطر عام پر آنا حال ہی کے اس دعویٰ کی یقین دہانی کراتا ہے کہ ریاست کی سیکیورٹی فورسز بلوچستان میں انتہا پسندوں کو بڑھتا ہوا موقع دے رہی ہیں کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ مذہبی آئیڈیالوجی بڑھتے ہوئے نیشنلسٹ جذبات کو ختم کرسکتی ہے-

اس بات کی تائید میں بہت سی وجوہات پیش کی جاسکتی ہیں کہ حکومت کے لئے عسکریت پسندی کا خاتمہ کرنا کیوں ضروری ہے، لیکن سب سے بڑی وجہ تعلیم پر اس کے اثرات ہیں-

پنجگور میں حکومت کے خلاف احتجاجات عسکریت پسندوں کی دھمکیوں کو روکنے میں حکومت کی نا اہلی کو ظاہر کرتے ہیں، جس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ آج بھی ترقی کرنے کا خواہاں ہے اور اسکے مواقع حاصل کرنا چاہتا ہے-

تعلیم پر عسکریت پسندی کو روکنے میں ناکامی کے نتیجے میں ہمیں غیر ضروری طور پر ایک نسل سے ہاتھ دھونا پڑے گا-

ہمیں اعتراف کرنا چاہیئے کہ پاکستان میں غیر معیاری تعلیم کی وجہ صرف سیکیورٹی کی ناکامی نہیں ہے --- یہ بھی سب لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ تعلیم ریاست کی ترجیح نہیں ہے- اندرون سندھ کی مثال لیجیئے، جہاں انتہاپسندوں کی عسکریت کے واقعات کم ہیں، لیکن جہاں کا ہر ساتواں اسکول گھوسٹ اسکول ہے-

تعلیم پر عسکریت پسندی کے منفی، دل دہلا دینے والے اثرات کو کم کرکے بیان کرنا ممکن نہیں: پڑھی لکھی آبادی کے بغیر جمہوریت کام نہیں کرسکتی کیونکہ ایسے ہی لوگ شہری معاملات میں حصہ لے سکتے اور تنقیدی سوچ کے حامل ہوتے ہیں-

تعلیم حاصل کئے بغیر، پاکستان کے عوام اس ہنرمندی سے محروم ہوجائنگے جو عالمی سطح کی معیشت میں حصہ لینے کے لئے ضروری ہے اور ان فوائد سے بھی محروم ہوجائنگے جو ایک بڑی آبادی سے حاصل ہوسکتےہیں-

بین الاقوامی ملازمتوں میں پاکستان کا حصہ بھی گھٹ جائیگا جس سے ہماری معیشت کو دھچکا پہنچے گا جس کا باہر سے آنیوالے زر مبادلہ پر گہرا انحصار ہے- علاوہ ازیں، یہ حقیقت کہ اس سے کے پی اور بلوچستان کے اسکولوں کو سخت نقصان پہنچا ہے صوبوں کے درمیان تناؤ بڑھ سکتا ہے کیونکہ دیگر صوبوں کے ساتھ ترقی کے اشاریوں کے درمیان خلیج بڑھتی جائیگی-

چنانچہ، اسکے نتیجے میں نہ صرف زندگیوں کا نقصان ہوگا بلکہ سیاست پر بھی اسکے براہ راست اثرات پڑ سکتے ہیں، تاوقتیکہ اسکی روک تھام نہ کیجائے-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: سیدہ صالحہ

Read Comments