لائف اسٹائل

مووی ریویو: منڈیلا

ایک عظیم تاریخی شخصیت پر بنی یہ فلم اس شخصیت اور ناظرین کے ساتھ انصاف کرنے میں ناکام ثابت ہوتی ہے۔

دو گھنٹے سے تھوڑا زیادہ رن ٹائم لئے، منڈیلا: لونگ واک ٹو فریڈم مجرمانہ حد تک مختصر محسوس ہوتی ہے- جیسا کہ ہم میں سے اکثر جانتے ہیں کہ منڈیلا ایک عظیم شخصیت تھے جن کو انتہائی پیچیدہ واقعات نے ایک آوارہ گرد غصہ ور نوجوان سے ایک پوری قوم کے قابلِ تعریف خدمت گزار پریگمیٹک لیڈر میں تبدیل کر دیا- جب ہم ایک منڈیلا فلم دیکھتے ہیں تو ہماری خواہش ہوتی ہے کہ ہم نہ صرف یہ بات سمجھیں کہ آخر وہ کیا چیز تھی جس نے اس عظیم شخص کو متحرک کیا بلکہ یہ بھی کہ بھلا کیسے وہ اس پائے کے لیڈر بن پائے۔

بدقسمتی سے ڈائریکٹر جسٹن چاڈوک کی فلم ان سوالات کے زیادہ تسلی بخش جوابات دینے میں ناکام رہتی ہے- اگر سیدھی بات کریں تو یہ بائیوگرافیکل فلم منڈیلا کی سوانح عمری سے ماخوذ ہے لہٰذا لونگ واک ٹو فریڈم کی تمام خامیاں فطری طور پر اس کے سنیما کے لئے بنائے گئے ورژن میں بھی نظر آئیں گی- یہ کہنے کے باوجود، اکثر فلم کے دوران ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپ منڈیلا کی زندگی کے بارے میں وکی پیڈیا کی انٹری کے ویژول ورژن کا بہت تیزی سے نظارہ کر رہے ہیں۔

آپ کو یہ خامی خاص طور پر تب محسوس ہوگی جب لونگ واک ٹو فریڈم منڈیلا کی ابتدائی زندگی کا معائنہ کرتی ہے جس میں وہ ایک عورت باز شخص ہیں جو کہ نہ صرف اپنی بیوی کو دھوکہ دیتا ہے بلکہ اس کے ساتھ جسمانی طور پر اور توہین آمیز حد تک خطرناک ہو جاتا ہے- یہاں سے منڈیلا افریقن نیشنل کانگریس جوائن کر لیتے ہیں اور اس اسٹیبلشمنٹ کے خلاف حملوں کے ایک سلسلے کی قیادت کرتے ہیں جو کہ جنوبی افریقہ کے کالوں سے جانوروں جیسا برتاؤ روا رکھے ہوئے تھی۔

اپنی اہمیت کے باوجود، یہ واقعات فلم میں کچھ خاص معلوم نہیں ہوتے اور ان میں جذباتی تاثر کا فقدان دکھائی دیتا ہے- ایڈیٹنگ کے حساب سے مجھے لگتا ہے کہ ان مناظر کی جان بوجھ کر ایڈیٹنگ روم میں کاٹ چھانٹ کی گئی ہے- میں صرف اندازہ لگا سکتا ہوں تاہم یہ ممکن ہے کہ چاڈوک کو فلم کی ماس مارکیٹ کی ضروریات کے تحت فلم کا دورانیہ کم کرنے کیلئے دباؤ کا سامنا ہو۔

خوش قسمتی سے اداکاری، زیادہ تر اچھی دیکھنے کو ملتی ہے خاص طور پر ادریس البا کی جانب سے جو کہ ایچ بی او سیریز 'دی وائر' میں گینگسٹر اسٹرنگر بیل کے کردار میں شاندار کردار نگاری کرنے کے بعد، اپنے مداحوں کا ایک بڑا حلقہ بنا چکے ہیں- یہاں بھی البا نے ملنے والے اسکرپٹ کے حساب سے بہترین کام کیا ہے- تاہم، خوفناک حد تک انتہائی برے میک اپ نے البا کی اداکاری کو ماند کر دیا ہے اور یہ اس میک اپ کی بات ہے جس نے اختتام کے قریب البا کو منڈیلا کی ایک جیتی جاگتی تصویر میں تبدیل کرنا تھا- افسوس سے کہنا پڑے گا کہ البا جنوبی افریقہ کے لیڈر کے بجائے منڈیلا کا ہیلوین ماسک پہنے جوکر زیادہ معلوم ہوئے ہیں- خاص طور پر جب وہ فلم کے دوسرے کرداروں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں تو ان کرداروں کے مقابلے میں جو فطری طور پر عمر رسیدہ نظر آتے ہیں تو البا منڈیلا کا ماسک پہنے کوئی متاثر کن تاثر چھوڑنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔

جائے اور جسے اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ اپنے تعلقات کے ٹوٹنے کا غم جھیلنا پڑے، یہ ضروری ہے کہ ایسے شخص کے پاس ذہنی مضبوطی کا ذخیرہ ہو تاکہ وہ ان اپاہج کر دینے والے واقعات کا سامنا کرسکے- تاہم اس کے باوجود، لونگ واک ٹو فریڈم میں ایسی کسی چیز کی عکاسی نہیں کی گئی- اس کے ساتھ ساتھ سوائے چند ایک جذباتی مناظر کے، فلم اس المیہ شخصیت کے لئے ہمدردی کا جذبہ جگانے میں ناکام رہتی ہے، خاص طور پر ان کی قید کے دوران- یہ ذہن میں رکھیے کہ چاڈوک کے پاس ایک انتہائی طاقتور سبجیکٹ سے بہت اچھے نتائج حاصل کرنے کا نادر موقع تھا تاہم ان کی خراب فلم میکنگ نے اس کو برباد کر کے رکھ دیا۔

شاید لونگ واک ٹو فریڈم کیلئے زیادہ بہتر فلم میکر اسپائیک لی ہوتے جن کی میلکم ایکس (1992) سوانح فلموں کی ایک بہترین مثال ہے- یقیناً، دو سو منٹ طویل میلکم ایکس، منڈیلا: لونگ واک ٹو فریڈم کے مقابلے میں ایک گھنٹہ زیادہ لمبی ہے- اسی طرح، گاندھی 1982 بھی اس فلم سے پینتالیس منٹ طویل ہے- اور تو اور، 165 منٹ کی دی ڈارک نائٹ رائزز بھی لونگ واک ٹو فریڈم سے لمبی تھی- یقیناً، دنیا کے عظیم ترین بلیک لیڈر اس بات کے مستحق تھے کہ انہیں سلور اسکرین پر ممی ڈیڈی ایشو لئے خیالی سپر ہیرو کے مقابلے میں زیادہ وقت دیا جاتا۔

ترجمہ: شعیب بن جمیل

نعمان انصاری

نعمان انصاری فری لانس لکھاری ہیں اور کئی اشاعتوں، بشمول امیجز کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آج کل اپنے فینٹیسی ناول پر کام کر رہے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: @pugnate

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔