نقطہ نظر

انقلابی کا سفرِ انقلاب

وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ سابق صدر آصف علی زرداری سے مشاورت کریں تا کہ علامہ صاحب کو ایک دفعہ پھر لولی پاپ دیا جا سکے۔

خبر دار خواتین و حضرات، امیرالمومنین شیخ السلام پروفیسر ڈاکٹر مولانا طاہرالقادری صاحب 23 جون بروز سوموار پاکستان کے ریلوے اسٹیشن نُما ہوائی اڈے پر لندن سے آنے والی پرواز سے نازل ہورہے ہیں۔ مولانا طاہرالقادری جن کو مولانا کہنے پر ان کے مریدین مائنڈ کرتے ہیں اور اسرار کرتے ہیں کے انھیں مولانا کی بجائے علامہ کہہ کر مخاطب کیا جائے۔ لہذا اس پوری تصنیف میں ہم مولانا طاہرالقادری صاحب کو علامہ کے خطاب سے خطابیں (مخاطب) گے۔

اس تصنیف کے لئے جب میں نےچچا گوگل سے علامہ صاحب سے متعلق مدد لینا چاہی اور گوگل پر طاہرالقادری لکھنا چاہا تو سمجھدار چچا نے طاہر لکھنے پر ہی میرے مطلوبہ بقیہ الفاظ یعنی القادری پورا کردیئے اور اس سے بیشتر کے میں علامہ سے متعلق چچا گوگل سے مزید کچھ دریافت کرتا۔ چچا گوگل نے تیسری آپشن “طاہرالقادری ڈانس” کی دے دی ۔ جس کو دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں گیا اور فورا ہی میں نےاپنے فضول وقت کا ضیاع کئے بغیر اس پر کلک کردیا۔

تلاش شدہ ویب سائٹ نے بھی علامہ صاحب کے ڈانس کی ویڈیو ڈاؤن لوڈ کرنے میں خاصا وقت لگایا اور کچھ سیکینڈز کے نا ختم ہونے والے انتظار کے بعد جب ویڈیو چلی تو عربی میوزک پر سینکڑوں دھاڑیوں اور ٹوپیوں والوں کا پیننگ شاٹ دکھائی دیا۔ شاٹ دیکھ کر یوں لگا جیسے کیمرہ مریدین کو دکھاتے ہوئے محفل کی جان کی جانب بڑھ رہا ہے اور اتنے میں کٹ کے بعد علامہ صاحب اپنے سینکڑوں مریدوں کے درمیان بیٹھے دکھائی دیئے۔ میوزیک کی تیز ہوتی بیٹ پر علامہ صاحب اپنے ہاتھ پر ہاتھ مارتے بھی نطر آئے۔ جس کے بعد دو معمر شخص علامہ صاحب کے پاس گئے اور ان سے آشیر واد لیا۔ جن میں سے ایک شخص ڈانس کرتا ہوا پیچھے کی جانب آتا گیا اور پھر محفل میں موجود حاضرین کی رقص وسرور کی محفل عروج پر پہنچ گئی۔

خیر مجھے اس ویڈیو میں ذرا سی بھی صداقت نظر نہیں آتی اور میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کے علامہ صاحب کی ویڈیو پر کسی مُرتد نے عربی گانا لگا کر علامہ صاحب جیسے نیک عالم کی بے حرمتی کی ہے اور ہو نا ہو اس میں سابق وزیر قانون، پنجاب کا بھی ہاتھ ضرور ہوگا۔

ویڈیو دیکھنے کے بعد جب مزید آگے لکھنا چاہا تو میری آنکھوں کے آگے تو بس علامہ صاحب کا نورانی چہرہ ہی آتا جارہا تھا جو کے اس ویڈیو میں محفل کے درمیان میں بیٹھ کر مردانہ مجرے کے مہمان خصوصی ہونے کا فرض نبھا رہے تھے۔ بارحال اپنا دھیان اس ویڈیو سے ہٹانے کے لئے میں نے چچا گوگل کی جانب سے ڈھونڈی گئی باقی ویب سائٹس پر نظر دڑانا شروع کردی۔

ماہِ مئی میں علامہ صاحب کی جانب سے چوہدری برادران کی مابین لندن میں بیٹھ کر یہ اعلان کیا گیا تھا کے وہ پاکستان کے غریب عوام کی بھرپور فرمائش پر اگلے ماہ یعنی جون میں پاکستان واپس آرہے ہیں۔ اس اعلان کے بعد علامہ صاحب کی جانب سے ماہِ جون کے آخری ہفتے کا پہلا سوموار چنا گیا ۔ جس دن وہ دارلحکومت اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر صبح سویرے اتریں گے۔ جہاں ان کے لاکھوں مریدین ان کا والہانہ استقبال کرنے کے لئے پلکے بچھائیں شدید گرمی میں کھڑے ہونگے اور علامہ صاحب ان لاکھوں مریدین کی سربراہی کریں گے۔

مولانا صاحب کی جانب سے اپنے دوسرے وطن یعنی پاکستان آنے کے اعلان کے بعد پاکستان میں حکومت کرنے والی جماعت کی تو جیسے نیندیں ہی اڑ گئی ہیں اور شاید شریف برادران کو ہر روز خواب میں علامہ صاحب جاتی عمرہ، رائیونڈ میں ظہور پزیر ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔نواز حکومت جو کے پہلے ہی شمالی وزیرستان میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن شروع کرچکی ہے۔ اس کو اب ایک اور بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ علامہ صاحب کی آمد نواز حکومت کے لئے شاید اس لئے بھی پشیمانی کا باعث ہے کیونکہ اس میں دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی علامہ صاحب کا ساتھ دے رہی ہیں۔ جو کے پاکستان کی مسکین عوام کو ان حقوق دلوانے اپنا ٹھنڈا وطن کینیڈا چھوڑ کر پاکستان آرہے ہیں۔

علامہ صاحب آخری بار اپنے دوسرے وطن پاکستان 2013 کی سردیوں میں تشریف لائے تھے جب انہوں نے جنوری کے سرد ترین دنوں میں لاہور سے اسلام آباد تک حکومت کے خلاف لانگ مارچ کیا تھا ۔ علامہ صاحب کا مطالبہ تھا کے حکومت انتخابات سے قبل انتخابی اصلاحات کرے اور انتخابات کے انعقاد کے لئے ایک قائم مقام حکومت کا قیام کرے جس میں فوج اور عدلیہ کی مشاورت بھی شامل ہو۔

14 جنوری کو شروع ہونے والا لانگ مارچ جب اسلام آباد پہنچا تو علامہ صاحب کا لانگ مارچ اسلام آباد کی شدید سردی کے باعث دھرنے میں تبدیل ہوگیا اور علامہ صاحب کی جانب سے 15 جنوری تک اسمبلی توڑنے کی ڈیڈلائن دے دی گئی۔ اس کے علاوہ مولانا صاحب کی جانب سے مزید مطالبات بھی کئے گئے کے اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کو عہدے سے ہٹایا جائے ، صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کیا جائے اور الیکشن کمیشن کی بھی تشکیل نو کی جائے۔

لانگ مارچ سے دھرنے میں بدلنے والا علامہ صاحب کا اجتجاج دس رکنی حکومتی کمیٹی کی طرف سے دی گئی لولی پاپ کے باعث 17 جنوری کو اختتام پزیر ہوا۔ اختتامی تقریر میں علامہ صاحب نے یہ اعلان کیا کے حکومت قائم مقام وزیر اعظم کی تعیناتی پر اُن کی رائے بھی لے گی۔ امیدواروں کی جانچ پڑتال کے لئے ایک مہینہ مزید مختص کیا جائیگا۔ اس کے علاوہ بھی پیپلز پارٹی حکومت کی جانب سے علامہ صاحب کو ان کے مطالبات کی پداش میں مزید گولیاں بھی دی گئیں۔ جس کے بعد شدید سردی میں بیٹھے مظلوم مرید اپنے گھروں کو روانہ ہوئے۔

جو بھی کہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اس مسئلے کو اتنی آسانی سے نمٹنے پر داد کی مستحق تو ہے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے علامہ صاحب کو بنا کسی روک ٹوک کے لاہور سے اسلام آباد پہنچنے دیا گیا اور اسلام آباد میں بھی ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی نہیں کی گئی۔ دھرنے میں شامل لوگوں کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے حکومت کی جانب سے دس رکنی کمیٹی بنائی گئی جس نے نہائت ہوشیاری سے بلٹ پروف کیبن میں بند علامہ صاحب کو شیشے میں اتارلیا۔ اور یوں یہ دھرنا بغیر کسی توڑ پھوڑ کے ختم ہوا۔

اس مرتبہ حالات بالکل ہی مختلف ہیں اور شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت پیپلز پارٹی کی بجائے نواز لیگ کی ہے جس کے سربراہ آصف علی زرداری نہیں۔ بلکہ میاں نواز شریف ہیں۔ جن کے اندر سابق صدر آصف علی زرداری جتنا حوصلہ نہیں جو کے اپنے پانچ سالہ دور کے آغاز سے ہی میڈیا کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنتے رہے اور انہوں نے علامہ صاحب کے دھرنہ کا توڑ بھی انتہائی خوش اسلوبی سے نکالا۔

نواز لیگ کے حوصلے کا اندازہ تو 17 جون کو لاہور میں منہاج القران پر کئے جانے والے آپریشن سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔ جب پولیس کی بھاری نفری رات کے ڈیڈھ بجے سڑک پر لگے سیکیورٹی بیریئرز کو ہٹانے پہنچ گئی۔ جس کے نتیجے میں علامہ صاحب کے مریدوں اور پنجاب پولیس اہلکاروں کے مابین حالات قابو سے باہر ہوگئے اور دس افراد اپنی جان گنوا بیٹھے۔ نواز لیگ کی جانب سے اس واقع کی فوری مزمت بھی کی گئی اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے واقع کی تحقیقات کے لئے عدالتی کمیشن بھی تشکیل دیا گیا۔ جس کو علامہ صاحب کی جانب سے رد کردیا گیا۔

سونے پہ سوہاگا تو تب ہوا جب پولیس کی مدعیت میں فیصل ٹاؤن تھانے میں ایف آئی آر درج کروائی گئی جس میں علامہ صاحب کے صاحبزادے کا نام بھی ملزمان میں شامل کردیا گیا۔ گو کے کسی سمجھدار کے مشورے کے بعد علامہ صاحب کے صاحبزادے کا نام ایف آئی آر سے خارج کروا دیا گیا۔

واقع کے بعد پنجاب حکومت کی جانب سے وزیر قانون، پرنسپل سیکریٹری، آئی جی پنجاب اور سی سی پی او کو بھی عہدوں سے ہٹا دیا گیا اور حکومت کی جانب سے دعوی کیا گیا کے حکومت ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچا کر ہی دم لے گی۔

علامہ صاحب جو کے پہلے ہی عوام کے بھر پور اسرار پر اپنے دوسرے وطن تشریف لارہے تھے ۔ اس واقع کے بعد تو ان کا وطن آنا لازم ہوگیا۔ ماڈل ٹاؤن واقع میں ہلاکتوں کے بعد علامہ صاحب کا کہنا ہے کے پاکستان میں انقلاب کا آغاز ان شہید ہونے والے دس افراد کے خون سے ہوچکا ہے۔

اب جب کے سوموار کی صبح علامہ صاحب اسلام آباد آرہے ہیں اور حکومت کی جانب سے اسلام آباد کی حدود میں جلسہ کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ ڈی سی او راولپنڈی کی جانب سے شہر میں دفعہ 144 بھی نافذ کر دی گئی ہے۔ امید کی جارہی ہے کے حکومت علامہ صاحب کی آمد پر کچھ مزید ایسے اقدامات بھی کر سکتی ہے جس کی وجہ سے حالات مزید کشیدہ ہوجائیں اور غیر جمہوری قوتیں اپنا کام دکھا جائیں۔

میرا تو آخر میں حکومت کو بس اتنا سا مشورہ ہے کے وہ وقت کی نزاکت کو سمجھیں ۔ بے شک مولانا صاحب نے اپنے دوسرے وطن آنے کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے جبکہ پاکستانی افواج شمالی وزیرستان میں بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور ایسے کٹھن وقت میں علامہ صاحب اپنے دوسرے وطن واپس آکر حکومت کے لئے مزید مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کے وہ حوصلہ رکھے اور علامہ صاحب کے ساتھ بالکل ویسے ہی نبٹے جیسے کے پیپلز پارٹی کی حکومت نے نبٹا تھا۔ ایسی صورتحال میں وزیر اعظم کو بھی چاہیے کے وہ سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ مشاورت کریں تا کے علامہ صاحب کو پھر سے ایک دفعہ لولی پاپ دے کر ان کے اپنے پہلے وطن کینیڈا روانہ کیا جاسکے۔

نوید نسیم

بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@

nasim.naveed@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔