نقطہ نظر

سیمیا گر کی بات

سلمان انصاری لفظ و معنی رمز و علامات اور استعارے کا جادوگر ہے اور سیمیا گر میں ان کا یہ جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

1- سلمان انصاری کی "سیمیا گر" اپنے عنوان سے ہی بازوق قارئین کو اپنی طرف متوجہ ہونے پر مجبور کر دیتی ہے۔ پھر اگر نام ایسا بھی ہو جس سے واضح طور پر یہ پتہ چل جائے کہ کتاب میں کس موضوع یا مضمون پر بات کی گئی ہے تو سونے پہ سہاگہ۔ سلمان انصاری کا پہلا شعری مجموعہ "سیمیا گر" ان دونوں شرائط پر پورا اترتا ہے۔ "سیمیا گر" میں ایک آہنگ ایک Rhythm ہے، یہ نام بالکل اچھوتا ہے۔

2- سیمیا گر کی ترکیب وہی ہے جو کیمیا گر کی ہے۔ اس طرح کے اور بھی مرکب نام فارسی میں استعمال ہوئے ہیں۔ جیسے زرگر، آہن گر، کوزہ گر وغیرہ۔ یہ نام کسی نہ کسی پیشے کو ظاہر کرتے ہیں۔

سیمیا کا لفظ علاوہ اور چیزوں کے جس میں روح کو ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل کرنے کا عمل بھی شامل ہے جادو کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ حضرت عیسٰی کے معجزے کا تعلق بھی ایک لحاظ سے سیمیا سے تھا کیونکہ وہ مردوں میں روح پھونکتے تھے۔


3- سیمیا کے تیسرے معنی شعر یا شاعری کے ہیں۔ اس لحاظ سے سیمیا گر شعر کا خالق یا شاعر ہوا۔ ایک ایسی شاعری جو فطری ہو اور جس کا سر چشمہ وجدان اور الہام ہو۔ ان معنوں میں "سیمیا گر" سے مراد اس شعری مجموعے کے خالق سلمان انصاری سے ہے۔

دوسرے لفظوں میں سلمان انصاری لفظ و معنی رمز و علامات اور استعارے کا جادوگر ہے اور سیمیا گر کے صفحات میں ان کا یہ جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔


  1. سیمیا کی سر زمین شعور و لاشعور، اندھیروں، اجالوں، حقیقت و خیال، 'ہستی و عدم' بیداری اور خواب، خلوت و جلوت، یقین و گمان، ظلمت و نور، کہی ان کہی، لا محدود و محدود کی سرحدوں کے اتصال کا منطقہ یا zone ہے۔

بڑی مدت سے خوابوں کے نگر میں

اندھیرا ہی اندھیرا ہے!

درودیوار سے لٹکے ہیں جالے

ہر ایک کھڑکی اٹی ہے گرد سے

یادوں کی سیلن سے

حیات مضمحل اب بھی کبھی انگلی پکڑ کر

مجھے اس شہر میں اکثر اکیلا چھوڑ جاتی ہے

اگر ممکن ہو اس بستی میں تھوڑی روشنی کر دو

زرا سی روشنی۔ اور بس!

(اندھیرا)


یہ دنیا بد نما ہے، اور ہر لمحہ نیا منظر

تباہی، ہولناکی، قحط، خونریزی سیاست

پر ایسے میں بھی ایک امید کا دامن میسر ہے

کہ "شاید" ایک دن کچھ رنگ بدلے اس جہاں کا

کہ "شاید" ایک دن کھل کر، کہیں آسماں برسے!

فقط ایک بوند "شاید" میرے حصے میں بھی آ جائے

مجھے سیراب کر دے، یا ڈبو دے!

(شاید)


5- ترقی پسند شاعروں کے بر خلاف سلمان انصاری ماضی سے اپنا رشتہ توڑنا نہیں چاہتے بلکہ اس ورثے کی مثبت اقدار کو حال اور مستقبل کی نسلوں تک پہنچاتے ہیں۔

اردو اور فارسی کے کلاسیکی ادب سے سلمان نے اسی طرح استفادہ کیا ہے جس طرح ن۔م۔راشد اور فیض نے کیا تھا۔ فارسی اور اردو شاعری کو مالا مال اور خوبصورت بنانے والی اضافی ترکیبوں اور مرکب فقروں کا سلمان کی نظموں میں موزوں اور بر محل استعمال ہوا ہے۔ اس خصوصیت کی وجہ سے "سیمیا گر" کی نظموں میں تغزل اور آہنگ کا عنصر نمایاں ہے۔

کچھ پوچھ مجھ سے بابت افکار دو جہاں

احوال و اختیار و شکایات دوستاں

جو جی میں آئے پوچھ

مگر اتنا یاد رکھ

"ازما بجز حکایت مہر و وفا مپرس"

(رخش عمر)


اوڑھ لیتا تھا یہیں رات کی چادر سورج

اور یہیں چاندنی راتوں کو قرار آتا تھا

شادیانے کہیں بجتے تھے کہیں دور کے ڈھول

(ادھورا خواب)


6- قدیم اور جدید شاعری کا حسین امتزاج آپ کو اپنے زمانے سے بہت پیچھے لے جا کر خوبصورت انداز میں آپ کے زمانے میں لے آتا ہے۔ انداز بیاں شوخ تو نہیں لیکن سنجیدہ اور نفیس شاعری دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔

آزاد بحر کی نظموں کا ہر عنوان گویا نگینے کی طرح جڑ دیا ہے۔ سلمان انصاری نے سادگی، خوش اسلوبی اور آسان فہم زبان میں ہر زی نفس کے محسوسات کی سیمیا گری کی ہے۔

سناٹے کے اس شعور میں بھی

موہوم سی ایک امید کبھی

کروٹ کروٹ خود سے پوچھے

آواز ابھی جو گونجتی تھی

وہ بانگ جرس تھی

یا کوئی۔۔۔

پا زیب کہیں ٹکرائی ہے؟

(اضطراب)


7- لفظوں کے خزانے کے بادشاہ اتنے کمال انتخاب کے بعد بھی کسی اور لفظ کے متلاشی ہیں۔

کوئی لفظ سوچوں

جو خال و خد کو کمال کہہ دے

تمہیں سراپا جمال کہہ دے

جو لفظ جادو ہو، کیمیا ہو

جو لفظ افسوں ہو، سیمیا ہو

جو لفظ تجھ کو "بیان" کردے

وہ لفظ آخر کوئی تو ہوگا؟

وہ لفظ آخر کوئی تو ہو گا؟

(سیمیا)


"سیمیا گر" کی نظموں کے ذریعے جدید نظم کا ایک ابھرتا ہوا شاعر شمالی امریکہ کی اردو شاعری کے افق پر نمودار ہوا ہے۔ یہ نظمیں نہ صرف سلمان انصاری بلکہ اردو نظم کے مستقبل کے لیئے خوش آئیند ثابت ہوں گی۔

سیمیا گر کی تعریف کے لیئے الفاظ شاید کم پڑ جائیں اور تبصرہ اتنا طویل ہو جائے کہ مزید کتاب چھاپنے کی ضرورت پیش آ جائے تو یہیں اس کا اختتام کرتی ہوں۔ با زوق قارئین اس مجموعہ کمال کلام 'سیمیاگر' کو ضرور پڑھیں اور لطف اٹھائیں۔


کتاب کا نام: سیمیا گر

زبان: اردو

لکھاری: سلمان انصاری

صفحے: 192

پرنٹر: نیو گزاز پریس، کراچی

پبلشر: مکتبہ دانیال، کراچی

فرسٹ ایڈیشن: 2013

قیمت: تین سو پاکستانی روپۓ

ریحانہ سکندر
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔