نقطہ نظر

وِزیٹنگ انقلابی

جو بھی کہیں۔ حکومت کی جانب سے علامہ صاحب کے انقلابی دورے کو کسی ہنگامے کے بغیر بڑی خوش اسلوبی سے نمٹا گیا۔

پاکستانی معاشرہ جتنا بھی ماڈرن ہو جائے، جتنا بھی مادر پِدر آزاد ہوجائے، مگر آج بھی بیٹی کو الوداع قرآن پاک کے سائے تلے ہی کیا جاتا ہے اور اس کا مقصد اگلے گھر جانے والی دلہن کو قرآن تلے نیک دعائوں کے ساتھ الوداع کرنا ہوتا ہے۔

پیر کے روز جب شیخ السلام علامہ ڈاکٹر طاہر القادری لاہور ایئر پورٹ پر پانچ گھنٹے تک انقلابی دورے کا خمیازہ بھگتنے کے بعد ماڈل ٹاؤن میں واقع منہاج القرآن کے مرکزی سیکریٹریٹ گرجتے برستے موسم میں پہنچے تو مجھے ان کے سر پر بھی سیاہ رنگ کی کوئی چیز نظر آئی اور میرا کُند ذہن یہی سمجھتا رہا کے یہ قرآن پاک ہے۔ جس کے سائے تلے علامہ صاحب اِس گرم ترین ملک میں کینیڈا جیسے سرد ترین ملک سے انقلاب درآمد کر رہے ہیں۔

کچھ دیر بیوقوف بنا رہنے کے بعد مجھے میرے ساتھی نے بتایا کے یہ نا تو بارش سے بچنے کے لئے چتھری ہے اور نا ہی قرآن پاک۔ یہ گولی کو روکنے والی بلٹ پروف شِیٹ ہے۔ جو کے علامہ صاحب کا مُرید علامہ صاحب کی حفاظت کے پیش نظر تھامے کھڑا ہے۔

منہاج القرآن پہنچنے کے بعد علامہ صاحب کی جانب سے خطاب میں کہا گیا کے میں اپنا سب کچھ کینیڈا میں چھوڑ آیا ہوں اور جب تک پاکستان میں انقلاب نہیں آئیگا۔ میں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔

یہ سن کر مجھے تو بالکل ایسا ہی لگا جیسے کے بیٹی بیاہتے وقت والدین اپنی بیٹی سے یہ امید کرتے ہیں کے وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر اپنے خاوند کے گھر جائے اور امید کی جاتی ہے کہ مر کر ہی وہاں سے نکلے۔

علامہ صاحب کو کینیڈا سے بیاہ کے پاکستان لانے والا کون ہو سکتا ہے، یہ تو سمجھ نہیں آتا۔ ہاں یہ ضرور سمجھ آتا ہے کہ علامہ صاحب کس کی ایما پر اپنے دوسرے ملک یعنی پاکستان انقلابی دورے پر آئے ہیں۔

منہاج القرآن میں سفید رنگ میں ملبوس بھیگے ہوئے مریدوں سے خطاب کے دوران علامہ صاحب کا کہنا تھا کہ 'حکمران بھاگنے کی کوشش کریں گے لیکن میں ان لٹیروں کو بھاگنے نہیں دوں گا'۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ میں اچانک انقلاب کا اعلان کروں گا۔

دوران خطاب تکنیکی وجوہات کی وجہ سے کچھ دیر کے لئے علامہ صاحب کی آواز آنا بند ہوگئی۔ مگر یقنین مانیئے کہ علامہ صاحب کے جزباتی انداز تقریر کو دیکھ کر بغیر آواز کے ہی سب کچھ سمجھ آرہا تھا۔

بغیر آواز کے علامہ صاحب کا خطاب دیکھ کر مجھے غریبوں کی وہ فلمیں ذہن میں آرہی تھیں جن میں ہونے والے ایکشنز کو دیکھتے ہوئے کسی بھی آواز کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بالکل اسی طرح علامہ صاحب کے اندازِ خطاب کو بغیر کسی آواز کے ہی سمجھا جا سکتا تھا۔

خیر خُدا کا شکر ہے کہ علامہ صاحب با خیر و آفیت اسلام آباد کی ہوا کا مزا لیتے ہوئے لاہور کے علامہ اقبال ایئر پورٹ پہنچے۔ جہاں پانچ گھنٹے تک اپنی سیکیورٹی سے متعلق مطالبات پیش کرتے رہے۔

پہلے تو علامہ صاحب کی جانب سے ڈیمانڈ کی گئی کہ ان کی سیکیورٹی کے لئے فوج کو بلایا جائے۔ یہ ڈیمانڈ کرنے کے بعد علامہ صاحب نے اپنی کرشماتی شخصیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جہاز کے اندر سے ہی مختلف چینلز پر انٹرویوز دینا شروع کردیئے اور معجزانہ طور پر جہاز میں میڈیا والوں کے موبائل سگنلز بھی آرہے تھے اور تو اور ایک چینل پر علامہ صاحب سکائپ کے ذریعے براہ راست انٹرویو دے رہے تھے۔

پھرجب فوج کی جانب سے کوئی رسپانس نہیں آیا تو علامہ صاحب کی طرف سے ڈیمانڈ کی گئی کہ گورنر پنجاب اگر ایئر پورٹ آئیں تو وہ اُن پر بھروسہ کرتے ہوئے ایئر پورٹ سے باہر آسکتے ہیں۔

اس ڈیمانڈ کے بعد گورنر پنجاب چوہدری سرور سابق وزیر اعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ کے ہمراہ جہاز میں گئے۔ جس کے بعد علامہ صاحب دو چوہدریوں کے ہمراہ ایئر پورٹ سے باہر آنے پر رضا مند ہوئے۔

جہاز سے باہر آنے پر علامہ صاحب کو گورنر صاحب کی گاڑی میں بیٹھنے کی دعوت دی گئی۔ مگر وہ گورنر صاحب کی دعوت ٹھکراتے ہوئے چوہدری پرویز الہٰی کی گاڑی میں بیٹھ کر جناح ہسپتال میں زیر علاج زخمیوں کی عیادت کے لئے روانہ ہو گئے۔

میڈیا پر آنے والی اطلاعات کے مطابق تو علامہ صاحب گورنر پنجاب کی مداخلت پر ہوائی جہاز سے نکلنے پر آمادہ ہوئے۔ مگر اطلاعات یہ بھی ہیں کے علامہ صاحب جہاز سے نکلنے پر اس لئے آمادہ ہوئے کیونکہ ایمریٹس ایئر لائنز کی انتظامیہ کی جانب سے علامہ صاحب کو کہا گیا تھا کے اگر آپ جہاز سے نا نکلے تو آپ کے خلاف ہائی جیکنگ کا مقدمہ درج کروادیں گے۔ جس کے بعد علامہ صاحب نے یہی مناسب سمجھا کے گورنر پنجاب کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی جائے اور اس سے پہلے کہ ہائی جیکنگ کا مقدمہ درج ہو، جہاز سے نکلا جائے۔

لاہور ایئر پورٹ سے نکلنے کے بعد علامہ صاحب جناح ہسپتال سے ہوتے ہوئے جب ماڈل ٹاؤن میں واقع منہاج القرآن کے مرکز پہنچے تو مریدین کا جم حقیر علامہ صاحب کے انتظار میں پلکیں بچھائے بیٹھا تھا۔

علامہ صاحب کا روحانی چہرہ دیکھتے ہی مریدین کی جانب سے 'انقلاب انقلاب' کے نعرے لگائے جانے لگے اور علامہ صاحب کی جانب سے ہاتھ سے وکٹری کا نشان بنا کر نعروں کا جواب دیا گیا۔

مزے کی بات یہ کہ مولانا صاحب کا کینیڈا سے پاکستان کا ہر دورہ انقلاب لانے کے لئے ہی ہوتا ہے اور اب تو علامہ صاحب --جن کو پچھلی مرتبہ پیپلز پارٹی کی حکومت کی جانب سے بہلا پھسلا کر دوبارہ کینیڈا روانہ کر دیا گیا تھا-- کو "وزیٹنگ انقلابی" کہنے میں کوئی برائی نہیں ہوگی۔

مگر جو بھی کہیں۔ حکومت کی جانب سے علامہ صاحب کے انقلابی دورے کو کسی ہنگامے کے بغیر بڑی خوش اسلوبی سے نمٹا گیا۔ کوئی بھی گولی نہیں چلی اور کسی گلو بٹ نے گاڑیوں پر ڈنڈے بھی نہیں برسائے۔ ہاں اسلام آباد میں پولیس کو لاہور پولیس کی غنڈہ گردی کی سزا بھگتنی پڑی اور درجنوں پولیس اہلکاروں کو ہسپتال میں داخلہ لینا پڑا۔

ماضی پر نظر ڈالی جائے تو نواز حکومت نے پرویز مشرف کے جہاز کو بھی کراچی ایئر پورٹ پر اترنے کی اجازت نہیں دی تھی اور مشرف کا طیارہ تب تک ہوا میں رہا تھا جب تک فوج کی جانب سے ٹیک اوور نہیں کرلیا گیا تھا۔ جس کے بعد مشرف پاکستان پر دس سالوں کے لئے مسلط ہوگئے۔

اس دفعہ شکر ہے کے ابھی تک حکومت کو علامہ صاحب کے جہاز کو اسلام آباد ایئر پورٹ پر ہوائی چکر لگوانے پر کوئی خمیازہ نہیں بگھتنا پڑا۔

جاتے جاتے ماضی کے جھروکوں سے یہ بھی شیئر کرتا جاؤں کہ 26 اکتوبر 1996 کو سابق امیر جماعت اسلامی مرحوم قاضی حسین احمد کرپشن کے خلاف اجتجاج کرتے 'ظالمو قاضی آرہا ہے!' کا نعرہ لگاتے ہوئے اسلام آباد پہنچے تھے۔ جس کے نتیجے میں 4 نومبر کو بینظیر حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔

بس اوپر والے سے یہی دعا ہے کہ تاریخ کا یہ ہولناک المیہ دوبارہ رونما نا ہو اور پاکستان میں جمہوریت کا سلسلہ ایک وزیٹینگ انقلابی کی وجہ سے ٹوٹنے نا پائے۔

نوید نسیم

بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@

nasim.naveed@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔