Dawn News Television

شائع 12 جولائ 2014 10:45am

شادی کے سائیڈ ایفیکٹس

شادی کے سائیڈ ایفیکٹس کے بارے میں تو سب نے ہی سنا ہوگا اور تقریباََ سب ہی متاثرہ شادی شدہ خواتین وحضرات اِن سائیڈ ایفیکٹس سے اتفاق بھی کرتے ہونگے۔ مگر شادی کے کچھ سائیڈ ایفیکٹس ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس وقت لاحق ہوتے ہیں جب کسی کا لائف پارٹنر انتقال کرجائے یا اُس سے علیحدگی اختیار کرلے۔ اس کے علاوہ کنوارے (مُجرد) مرد حضرات کو بھی شادی نا کرنے کے سائیڈ ایفیکٹس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو شادی کرکے ہمسفر کھو دینے والوں اور شادی نا ہونے کے سبب ہمسفر کے بغیر زندگی بسر کرنے والوں دونوں ہی اقسام کے مرد حضرات کم و بیش ایک ہی طرح کے سائیڈ ایفیکٹس کا شکار ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ شادی کے سائیڈ ایفیکٹس کا شکار تو صرف میاں یا بیوی بنتے ہیں۔ مگر رنڈووں، مُطلقوں اور اب تک کنواروں (مُجردوں) پر ہونے والے سائیڈ ایفیکٹس کا خمیازہ بعض اوقات پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔

آج کل ہمیں پاکستان میں رہتے ہوئے شاید کچھ رنڈووں، مُطلقوں اور ایک صاحب کے مُجرد ہونے کی سزا ہی مل رہی ہے۔ ایک طرف کینیڈین رنڈوا فوری انقلاب کا ٹوکرا اُٹھائے ایک شیخی باز مُجرد کے ساتھ مل کر انقلاب درآمد کر رہا ہے۔ جبکہ دوسری جانب دو مُطلق آئے روز تپتی گرمی میں سڑکوں پر جیالوں کو خوار کرواتے رہتے ہیں۔

ہم بات کر رہے تھے ایک ایسے وزیٹنگ انقلابی رنڈوے کی جو کے ڈیڈھ سال بعد دوبارہ کینیڈا سے انقلاب برپا کرنے پاکستان آیا ہے اور جس کے آنے سے پہلے ہی بارہ لوگ اس انقلاب کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اِن علامہ صاحب میں کمبخت انقلاب اس قدر سرائیت کرچکا ہے کہ انھیں کینیڈا جیسے سرد ملک میں بھی آرام سے بیٹھنے نہیں دیتا اور یہی وجہ ہے کہ علامہ صاحب تقریبا ڈیڈھ سال کا عرصہ کینیڈا میں گزارنے کے بعد مزہبی ٹوپی اوڑھے پھر سے پاکستان میں انقلاب برپا کرنے آن پہنچے ہیں۔

پہلے تو اِن رنڈوے علامہ صاحب کی جانب سے پچھلے ماہ یہ اعلانِ عام کیا گیا کے وہ عوام کے حالات، مشکلات اور حکمرانوں کی عادات کو دیکھتے ہوئے جلدی پاکستان تشریف لارہے ہیں۔ علامہ صاحب کی جانب سے پاکستان واپسی کے لئے ماہِ جون کے آخر کا انتخاب شاید یہ سوچ کر کیا گیا کہ پاکستانی موسمِ برسات انقلابیوں پر برستا رہیگا اور اسطرح سے انقلابی سرگرمیاں زیادہ متاثر نہیں ہوں پائیں گی۔

منہاج القرآن سیکریٹریٹ میں بیٹھ کر علامہ صاحب اپوزیشن جماعتوں کو بھی آنے والے انقلاب کا حصّہ بننے کے لئے مدعو کر رہے ہیں اور آئے روز ان سے کسی نا کسی جماعت کے رہنما ملاقات کا شرف حاصل کرنے تشریف لاتے ہیں۔

تاہم ان ملاقاتیوں میں سے سب سے اہم چوہدری برادران اور شیخ رشید صاحب ہیں جنہوں نے پہلے کولمبو سے نازل ہونے والے جنرل صاحب کی بھی بیعت کی تھی۔ شاید ان تینوں نے یہ تہیہ کیا ہوا ہے کہ نواز حکومت جس کسی کے جہاز کا رُخ موڑنے کی کوشش کریگی، یہ اُس کا ساتھ دیں گے اور جیسا کے اس بار نواز حکومت کی جانب سے علامہ صاحب کے طیارے کا رُخ موڑا گیا۔ لہزٰا اُن پر یہ فرض تھا کہ وہ پرویز مشرف کی طرح علامہ صاحب کا بھی ساتھ دیں۔

علامہ صاحب کی طرح شیخ صاحب بھی کمال زبانِ بیاں رکھتے ہیں۔ جیسے علامہ صاحب سینکڑوں کے جمِ حقیر کو اپنے سحر میں مبتلا کر لیتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح شیخ صاحب کو بھی نیوز چینلز پر بیٹھ کر بھولی عوام کو شیشے میں اتارنا خوب آتا ہے۔

ان دونوں لیڈران کے مابین مماثلت کی وجہ میری عقلدانی میں موجود دماغ میں تو یہی آتی ہے کہ چونکہ دونوں ہی بیوی لیس (wife less) ہیں۔ لہزٰا ان دونوں میں بولنے کا اتنا سٹیمنا ہے کہ یہ دونوں بڑی آسانی سے بیوقوف عوام کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں۔ علامہ صاحب کی زوجہ پہلے ہی اللہ کو پیاری ہوچکی ہیں اور شیخ صاحب کو آج تک کوئی خاتون پیاری ہوئی ہی نہیں۔

علامہ صاحب کی تحریک انقلاب میں تحریک انصاف بھی کبھی کبھی شامل ہوتی دکھائی دیتی ہے اور گزشتہ دنوں تحریک انصاف کی اسلام آباد میں ہونے والی میٹنگ میں برطانوی طلاق یافتہ خان صاحب کی جانب سے یہ کہا گیا کہ وہ علامہ صاحب کے کچھ مطالبات سے ضرور اتفاق کرتے ہیں مگر ان کے الائنس میں شامل نہیں ہونگے۔

شکر ہے کہ تحریک انصاف کے برطانیہ سے طلاق شدہ چیئرمین نے انقلابی الائنس کا حصّہ بنے سے انکار کردیا اور شاید ایسا انہوں نے اس لئے بھی کیا کہ وہ پہلے ہی ایک صوبے میں انقلاب لا چکے ہیں اور باقی ملک میں انقلاب لانے کے لئے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا عندیہ دے رہے ہیں۔

مگر جو بھی کہیں۔ برطانوی طلاق یافتہ خان صاحب کی جانب سے بھی عوام کو آرام سے بیٹھنے نہیں دیا جاتا۔ کبھی خان صاحب تپتی گرمی میں نیٹو سپلائی روکنے کے لئے دھرنے کی اپیل کر دیتے ہیں اور کبھی شدید سردی میں مہنگائی کے خلاف ریلی نکالنے کے احکامات دے دیئے جاتے ہیں اور اب خان صاحب کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ اگر حکومت نے ایک ماہ میں ان کے مطالبات پورے نا کئے تو وہ دس لاکھ لوگوں کے ساتھ 14 اگست کو لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ کریں گے۔

کاش کہ خان صاحب کی برطانوی بیگم خان صاحب کو انقلابی دشت میں تنہا چھوڑ کر نا گئیں ہوتیں تو خان صاحب بھی بیوی بچوں کو ہمراہ لئے عید کے بعد چھٹیاں منانے یورپ کے کسی ملک میں عجائب گھر دیکھنے کا پروگرام بنا رہے ہوتے۔ اس طرح تحریک انصاف کے مسکین جیالے بھی 14 اگست کی چھٹی گھر میں آرام سے منا لیتے۔ اب جیالے بھگتیں سونامی کو۔

اب ذرا بات ہوجائے ایک اور پاکستانی نژاد برطانوی طلاق یافتہ بھائی کی۔ بھائی کے جوش خطابت سے کون واقف نہیں۔ بھائی جب بھی ٹیلی فون یا ویڈیو کے ذریعے لاکھوں میل دور بیٹھ کر خطاب کرتے ہیں تو پورے کراچی کی بیویاں اور مُطلقات سب کام کاج چھوڑ کر اپنے بھائیوں کے ساتھ بھائی کا خطاب سننے جلسہ گاہ پہنچ جاتی ہیں۔ بھائی اس دنیا میں وہ واحد مرد ہیں جن کی بات تمام عورتیں نا صرف سنتی ہیں بلکہ چوں چاں کئے بغیر ان پر من و عن عمل بھی کرتی ہیں۔

اِن کی جماعت کے رہنما بھی علامہ صاحب سے شرفِ ملاقات حاصل کرنے منہاج القرآن تشریف لائے تھے مگر علامہ صاحب اِن مُطلق بھائی کی جماعت کو بھی اپنی تحریکِ انقلاب میں شامل نا کرسکے۔ اور ایسا شاید اس وجہ سے بھی ہوا کیونکہ بھائی کی جماعت کے کچھ رہنما پچھلے سال جنوری میں علامہ صاحب کو سمجھانے حکومتی وفد کے ساتھ گئے تھے جب علامہ صاحب تین دن کے انقلابی چِلّے کے بعد حکومتی لالی پوپ لیکر اپنے پہلے وطن کینیڈا روانہ ہوگئے تھے۔

اُس وقت حکومت کی جانب سے علامہ صاحب کو لالی پوپ شاید اس لئے بھی با آسانی دیدیا گیا تھا کیونکہ اس حکومت کے سربراہ بھی ایک رنڈوے ہی تھے اور جیسا کہ کہتے ہیں 'لوہے کو لوہا ہی کاٹتا ہے' تو ایک رنڈوے سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ ایک اور رنڈوے کو شیشے میں کیسے اتار کر کینیڈا چلتا کرنا ہے۔

بحرحال جو بھی کہیں پیپلز پارٹی حکومت کے رنڈوے صدر نے کیا خوب جھانسہ دیا تھا علامہ انقلابی کو۔ علامہ صاحب شکست کے باوجود بھی جیت کی خوشی میں دھمال ڈالتے کینیڈا پہنچے تھے۔

پانچ سال ایوان صدر میں گزارنے کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری اب بلاول ہاؤس میں بیٹھ کر آئے روز آنے والے انقلاب کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ وہ یقیناً اس بات پر بھی فخر محسوس کر رہے ہونگے کہ میں نے تو علامہ انقلابی کو بڑے آرام سے بہلا پھسلا کر واپس روانہ کردیا تھا۔ مگر شریف برادران کے گلے میں تو علامہ انقلابی نوک والی ہڈی کی مانند پھنس ہی گئے ہیں اور نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔

شاید اِن رنڈووں، مطلقوں اور مُجردوں کا ماننا یہ ہے کہ چونکہ ہماری زندگیوں میں سکون نام کی کوئی چیز نہیں تو ہم ملک میں سکون کیوں رہنے دیں۔ ٹھیک ہے اب ہمارے پاس ہماری سننے والیاں نہیں۔ مگر ہماری قوم کی بیوقوف عوام تو ہے جس کو انقلاب کا جھانسہ دے کر کسی بھی وقت بیوقوف بنایا جا سکتا ہے۔

Read Comments