نقطہ نظر

لنگڑی جمہوریت اور بناسپتی انقلاب

مسئلہ یہ نہیں کہ تحریک انصاف کا لانگ مارچ کامیاب ہوتا ہے یا نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ حکومت اس صورتحال کو کیسے سنبھالتی ہے۔

پاکستان میں بھی کیا بدقسمت جمہوریت ہے جس کو کبھی خطرہ ہوتا ہے فوجی ڈکٹیٹروں سے اور کبھی تبدیلی کا دعویٰ کرنے والے انقلابیوں سے۔

خوش قسمتی سے ملک میں پہلی مرتبہ جمہوری حکومت نے اپنا دورِ اقتدار ختم کرنے کے بعد اقتدار منتخب ہونے والی اگلی جماعت کو منتقل کیا مگر جمہوریت کی ریس میں پیچھے رہ جانے والوں کو یہ خوشگوار منتقلی ہضم نا ہوئی اور انھوں نے اس مظلوم جمہوریت کو ستانا شروع کردیا۔

کیسی شرم کی بات ہے کہ پاکستان میں جب بھی جمہوری طور پر منتخب شدە حکومت اقتدر سنبھالتی ہے تو حکومت جانے کی چہ مگوئیاں شروع ہوجاتی ہیں۔

پیپلز پارٹی کی حکومت کے پانچ سالہ دور میں بھی متعدد بار ایسی صورتحال پیدا ہوئی جب لگا کہ حکومت نہیں رہے گی۔ سلام ہے زرداری صاحب کی سیاسی بصیرت کو جنہوں نے انتہائ چلاکی اور ہوشیاری سے قادری جیسے موسمی انقلابیوں اور میموگیٹ جیسے سکینڈلز کو نبٹایا۔

ماضی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالتے ہی حکومت کے جانے کی باتیں شروع ہوگئیں اور اس کارِ خیر میں سب سے نمایاں کردار تحریک انصاف نے نبھایا۔

تحریک انصاف کی جانب سے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت مسلم لیگ نواز پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا گیا اور پنجاب کے چار حلقوں میں ووٹوں کی تصدیق کا مطالبہ کیا گیا۔

تحریک انصاف کے اس مطالبے پر حکومت کی جانب سے کوئی ایکشن نا لینے پر تحریک انصاف نے اپنا مطالبہ پہلے پینتیس حلقوں اور پھر پورے انتخابات کا ہی آڈٹ کا مطالبہ کردیا۔

مطالبے پورے نا ہونے پر لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ کا اعلان کردیا گیا۔ جس سے نبٹنے کے لئے نواز حکومت کی جانب سے اسلام آباد میں فوج نافذ کردی گئی ہے۔

حکومتی عہدیداروں کی جانب سے تو کہا جارہا ہے کہ حکومت کو تحریک انصاف کے لانگ مارچ سے کوئی سروکار نہیں اور اسلام آباد میں فوج کا نفاذ آپریشن ضرب عزب کے ری ایکشن کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا ہے۔

مگرحکومت تحریک انصاف کے لانگ مارچ سے اس طرح خوفزدہ دکھائی دے رہی ہے جیسے قربانی کا بکرہ قصائی کو دیکھ کر خوفزدہ ہوتا ہے۔

حکومت کے ان اقدامات سے نواز لیگ میں حوصلے اور برداشت کا فقدان دکھائ دے رہا ہے اور صرف تقریبا ایک سالە دور حکومت میں ہی اکثر ایسے حالات پیدا ہوۓ جب ملک بھر میں باتیں شروع ہوگئیں کہ حکومت اب گئی کہ اب۔

حکومت نا ہوئی بجلی ہو گئی جس کے جانے کا ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے۔ منہاج القران پر ہونے والے تجاوزات کیخلاف آپریشن، مولانا انقلابی کی اسلام آباد آمد اور پھر اب عمران خان کا یوم آزادی پرلانگ مارچ۔ تینوں ہی ایسے مواقع ہیں جب حکومت میں برداشت کی کمی نظر آرہی ہے۔

عمران خان کے لانگ مارچ نے تو لگتا ہے حکومت کو مکمل طور پر حواس باختہ کردیا ہے اور اس کا ثبوت اسلام آباد میں آرٹیکل 245 کا نفاذ ہے۔ جس کے تحت اسلام آباد کی سیکیورٹی فوج کے حوالے کر دی گئ ہے۔

اس کے علاوہ اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب حکومتی عہدیداروں کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں سے کہا جارہا ہے کہ وہ عمران خان کے ساتھ لانگ مارچ کو رکوانے کے لئے مزاکرات میں اپنا رول ادا کریں۔

ایک طرف حکومت تحریک انصاف کے لانگ مارچ سے پریشان نہیں اور دوسری طرف اس کو رکوانے کے لئے اپوزیشن جماعتوں سے رابطے کر رہی ہے۔

اس وقت مسئلہ یہ نہیں کہ تحریک انصاف کا لانگ مارچ کامیاب ہوتا ہے یا نہیں۔ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ حکومت اس لانگ مارچ کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال کو کیسے سنبھالتی ہے۔

کیونکہ خان صاحب کی جانب سے ابھی تک اپنے جیالوں کو یہ ہدایات دی گئی ہیں کہ سونے کا سامان ہمراہ لائیں۔ لیکن خان صاحب یہ بتانے سے قاصر ہیں کے دس لاک لوگوں کے ساتھ اسلام آباد دھرنا دینے کے بعد ان کا لائحہ عمل کیا ہوگا۔ کیونکہ خالی دھرنے سے تو حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہوسکتا۔

حکومت ہٹانے کے لئے آئین پاکستان میں تمام طریقے بتائیں گئے ہیں، مگر ایسا کوئی بھی طریقہ نہیں جس کے لئے دس لاکھ لوگوں کا دھرنہ درکار ہو۔

حکومت صرف خان صاحب کی جانب سے اعلان کردہ لانگ مارچ سے ہی پریشان نہیں بلکہ موسمی مولانا انقلابی کی جانب سے انقلاب مارچ کی دھمکی نے بھی حکومتی عہدیداروں کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔

حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ ابھی تک خان صاحب اور مولانا طاہرالقادری کے درمیان معاملات چوہدری برادران اور شیخ رشید کی کوششوں کے باوجود طے نہیں ہو پا رہے اور ابھی تک دوںوں انقلابی اپنا اپنا راگ الاپ رہے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ ایسے حالات میں سب سے اہم کردار جماعت اسلامی ادا کر رہی ہے جسے کوئی بھی پہلے گھاس نہیں ڈالتا تھا۔ اب اسے سارے ہاتھوں ہاتھ لے رہے ہیں اور اس کی وجہ جماعت اسلامی کا کے پی میں تحریک انصاف کے ساتھ حکومت میں الحاق ہے۔

اگر موجودہ حالات و واقعات کو دیکھا جائے تو بظاہر مشکل لگتا ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت عمران خان کو لانگ مارچ کرنے سے روک پائے گی۔

لیکن اگر خان صاحب کسی بھی جمہوری یا غیر جمہوری قوت کے کہنے پر لانگ مارچ ملتوی کرتے ہیں تو خان صاحب کی کیا سٹینڈنگ رہ جائیگی اور تحریک انصاف کے جیالے مستقبل میں خان صاحب کے کہنے پر کیوں سڑکوں پر آئیں گے؟ پہلے ہی انصافیے کے پی کی حکومت سے دلبرداشتہ نظر آرہے ہیں۔

یہ بھی ممکن ہے خان صاحب لانگ مارچ اسلام آباد لیجانے میں کامیاب ہوجائیں۔ مگر وہاں جاکر کریں گے کیا!؟ کب تک تپتی گرمی اور برسات میں ممی ڈیڈی انصافیوں کو لئے بیٹھے رہیں گے؟

اگر مولانا انقلابی کی طرح خان صاحب بھی حکومتی وفد کے ہاتھوں بیوقوف بن جاتے ہیں تو خان صاحب کا سیاسی مستقبل اگلے انتخابات تک شاید جماعت اسلامی سے مختلف نہیں ہوگا۔

تحریک انصاف کے لانگ مارچ سے جو حالات بنتے دکھائی دے رہے ہیں وہ بالکل 1977 جیسے ہی ہیں۔ جب پی این اے نے بھٹو کو ہٹانے کے لئے تحریک چلائی تھی۔ تحریک تو بھٹو کو ہٹانے کے لئے تھی مگر آ ضیا الحق گئے۔ جو گیارہ سال تک مسلط رہے۔

دونوں انقلابیوں کے لانگ مارچ کے پیچھے مقاصد کچھ بھی ہوں۔ ہمارا سروکار صرف اتنا ہے کہ کسی بھی قسم کے اجتجاج سے جمہوریت کو خطرہ لاحق نہیں ہونا چاہیے اوردونوں انقلابی لیڈران جو بھی اصلاحات چاہتے ہیں۔ ان کا حل پارلیمنٹ میں مل بیٹھ کر ہونا چاہیے۔

نوید نسیم

بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@

nasim.naveed@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔