Dawn News Television

اپ ڈیٹ 20 اگست 2014 01:52pm

پیارے افضل' اچھوتی کہانی، بہترین پرفارمنس'

گزشتہ ہفتے اے آر وائی ڈیجیٹل سے پیش کی جانے والی ڈرامہ سیریل: 'پیارے افضل' اپنے المناک اور اچھوتے انجام کو پنہچی- تیس سے زائد اقساط پر مشتمل اس سیریل کو اپنی منفرد کہانی اور دلچسپ ڈائیلاگز کی بنا پر ناظرین کی ایک بڑی تعداد نے سراہا-

بلا شبہ، باصلاحیت فنکاروں سے سجا یہ سیریل پاکستانی ناظرین کے لئے تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند تھا جو آج کل کے روایتی، گھریلو سیاست پر مبنی ڈراموں سے بور ہو چکے ہیں- 'پیارے افضل' آج کل کے دیگر پاکستانی ڈراموں سے مختلف ایک رومانوی کہانی ہے-

اس ڈرامے نے مجھے اپنے اسکول کے دنوں کے پاکستانی سیریل 'دشت' کی یاد دلا دی، جو اس زمانے میں خاصا مشہور تھا- ڈرامے کے مرکزی کرداروں، بالاج اور شاہ تاج (نعمان اعجاز اور عتیقہ اوڈھو) کی پریم کہانی کے ساتھ ناظرین (خصوصاً لڑکیوں ) کی کچھ ایسی ہی جذباتی وابستگی تھی جیسی 'پیارے افضل' کے لئے دیکھنے میں آئی-

پیارے افضل کی اچھوتی کہانی اور غیر معمولی اداکاری نے مذکورہ سیریل کو راتوں رات ہٹ کر دیا، اور دیکھنے والوں کو پی ٹی وی کے سنہرے دور کی یاد دلا دی جب رات آٹھ سے نو بجے کے ڈرامے کے دوران شہر کی سڑکیں ویران ہو جایا کرتی تھیں-

مرکزی کردار افضل (حمزہ علی عبّاسی) کے علاوہ پاکستان ٹیلی ویژن کے کہنہ مشق اداکار فردوس جمال اور صبا حمید بھی اس سیریل کا حصّہ تھے، اس کے علاوہ نوجوان اداکاروں میں عائزہ خان، صوہائی علی ابڑو، انوشے عبّاسی اور ثنا جاوید نے بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے- ڈرامے کی کہانی اور ڈائریکشن کے علاوہ ایک اور مثبت پہلو اس میں شامل تمام اداکاروں کی با اعتماد پرفارمنس ہے، مرکزی کردار سے لے کر سپپورٹنگ کرداروں تک تمام اداکاروں نے ناصرف اپنے کردار سے انصاف کیا بلکہ دوسروں کو اپنے اوپر حاوی بھی نہیں ہونے دیا-

خصوصاً آفت کی پڑیا یاسمین نے- مجھے یہ اعتراف ہے کہ شروعات میں مجھے یاسمین کا کردار اس کی باتونی فطرت کی وجہ سے ایک غیر ضروری اضافہ محسوس ہوا لیکن جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی گئی یہ کردار ناصرف مضبوط ہوتا گیا بلکہ اس کی موجودگی سیریل کے لئے لازم و ملزوم ہوگئی یقیناً اس کا کریڈٹ صوہائی کی لاجواب اداکاری کو جاتا ہے، آخری قسط میں صوہائی کی پرفارمنس مختصر مگر شاندار تھی-

حمزہ علی عبّاسی نے ایک شرمیلے، خاموش طبع عاشق افضل کا کردار ادا کیا، مزے کی بات یہ کہ پوری سیریل میں ان کے ڈائیلاگ دوسرے کردار کی نسبت کم تھے، بقول فرح ابراہیم (عائزہ خان)، 'یا تو تم سے بات نہیں ہوتی یا پھر پوری بات نہیں ہوتی'- اپنی خوبصورت اداکاری کی وجہ سے حمزہ علی عبّاسی لاکھوں دلوں کی دھڑکن بن گئے ہیں، دیکھنے والے انہیں مزید ڈراموں میں دیکھنا چاہیں گے، یہ اور بات ہے کہ 'پیارے افضل' کے خطاب سے چھٹکارہ حاصل کرنے میں انہیں کافی وقت لگے گا-

ڈرامے میں فرح کی طرف سے افضل کے لئے مکمل لاتعلقی کے باوجود، دونوں کے درمیان کیمسٹری واضح طور پر نظر آئی- کئی جگہوں پر فرح، افضل کی ماں کی طرح اس کے لئے بے چین دکھائی دی جس سے ناظرین کو یہ اندازہ ہوا کہ وہ بھی افضل کے لئے دل میں نرم گوشہ رکھتی ہے لیکن اس کا اظہار کرنے سے ہچکچاتی ہے- فراح اور افضل کے درمیان اسی کشمکش نے دیکھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ رکھا-

جہاں تک فردوس جمال صاحب اور صبا حمید کا تعلق ہے ان کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے- ان دونوں ورسٹائل اداکاروں نے پہلے بھی ہمیں اپنی بہترین پرفارمنس دی ہے اور اس بار بھی لوگ مایوس نہیں ہوئے-

ایک اور قابل ذکر بات جو اس سیریل میں دیکھنے میں آئی وہ یہ کہ مقامی ڈراموں کی طرح اس کے نسوانی کردار نہ ہی لاچار اور مصیبت زدہ نظر آۓ نہ ہی کسی کے محتاج، ڈرامے میں اس خیال کی نفی کی گئی ہے کہ عورتیں حالات کی غلام، مجبور و لاچار ہیں-

آخری قسط میں رائیٹر خلیل الرحمٰن اور ڈائریکٹر ندیم بیگ نے ہمیں چونکا کر رکھ دیا اور پیارے افضل کے تمام دیکھنے والے یہی تمنا کرتے رہ گئے کہ کاش افضل اور فرح کی پریم کہانی کا انجام مختلف ہوتا- ہم میں سے کوئی بھی افضل کی اس طرح موت نہیں چاہتا تھا کم از کم فرح سے ملے بغیر ہرگز نہیں، لیکن کیا کیا جا سکتا ہے کہ ہر عظیم پریم کہانی کا انجام المناک ہی ہوتا ہے-

بہرحال، ڈرامے کے اس دردناک انجام نے دیکھنے والوں کے دلوں میں ایک خلش سی چھوڑ دی ہے اور ہم سب ہی افضل اور فرح کو ایک بار پھر کسی نئی کہانی میں ساتھ دیکھنا پسند کریں گے-


پچھلے چند ماہ سے ملک بھر میں دیکھے اور پسند کیے جانے والے ڈرامہ سیریل 'پیارے افضل' کو رواں سال کا اب تک کا بہترین کھیل قرار دیا گیا ہے-

Read Comments