رونا کس بات کا؟
پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں تقریباً ہر کام ہی الٹے طریقے سے کیا جاتا ہے، اور تو اور خود اُلٹا کام کرنے والے دوسروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
اب تو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر کوئی شخص کوئی کام سیدھے طریقے سے کرنا بھی چاہے تو اسے حقارت سے دیکھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ "نوّاں آیا ایں سُونیاں؟"۔
مثال کے طور پر سرکاری نوکری حاصل کرنے کے لیے تو ڈگری لازمی ہوتی ہے مگر سرکار ڈگری نا رکھنے والے افراد بھی چلا سکتے ہیں۔
ایسی قوم کیسے اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی ہے جس کی عوام ٹریفک سگنلز پر تو کھڑی ہو نہیں سکتی، اور حکمران آئے روز تقریروں میں ملک کو خود کفیل بنانے کے دعوے کریں۔
اُس ملک میں جہاں انتخابات میں لوگ اپنے پسند کے امیدوار کو ووٹ دینے کے بجائے سب سے کم بُرے امیدوار کو ووٹ دینا پسند کریں۔
مذہب کے نام پر بننے والے اِس ملک میں جس کی عوام ہر دلیل کے ساتھ قرآن و حدیث کا حوالہ دے۔ چاہے دلیل دینے والا قرآن و حدیث کے پاس کبھی پھٹکا بھی نا ہو۔
ایسے معاشرے میں جہاں اجنبی سے بات کرنا تو نامناسب سمجھا جائے مگر ایک اجنبی سے شادی عین دین کے مطابق ہو۔
جہاں ہر شہری جلدی میں ہو اور پھر بھی کوئی مقررہ وقت پر نا پہنچے۔
جس ملک کی ہر ون وے سڑک کو کراس کرتے وقت دائیں بائیں آگے اور پیچھے دیکھنا پڑے، تاکہ کسی من موجی کے ساتھ ٹکر سے بچا جا سکے جو کہ اپنی ہی دھن میں مست چلا آرہا ہوگا۔
جدھر "پیشاب کرنا منع ہے" تحریر ہو، وہاں یہ کارنامہ اپنے اوپر فرض سمجھتے ہوئے صرف اس لیے سرانجام دیا جائے، کہ کسی کی کیا مجال جو مجھے منع کرے۔
جس ملک کے سیاستدان اڈیالہ جیل کو سیاست کی اعلیٰ ترین درسگاہ اور شریف کہلانے پر شرمندگی محسوس کریں۔
جدھر لوگ پائوں کی جوتیاں ایئر کنڈیشنڈز دوکانوں سے اور تازہ سبزیاں تھڑوں سے خریدیں۔
جس ملک کا ہر سیاستدان صادق اور امین ہو۔ بالکل ویسے ہی جیسے پھل بیچنے والے کے لئے ہر تربوز اندر سے لال ہوتا ہے۔
اُس ملک کے حکمران نواز شریف، آصف علی زرداری، عمران خان ، الطاف حسین، ڈاکٹر مولانا طاہرالقادری اور فضل الرحمن جیسے ہی ہونے چاہیں۔
اور چلتے چلتے پاکستانی مسلمانوں کی طرح اپنی اس تحریر کے حق میں قرآن کی ایک آیت بھی حاضر خدمت ہے کہ "جیسی قوم ہوتی ہے ان پر ویسے ہی حکمران مسلط کر دیے جاتے ہیں"۔
پھر رونا کس بات کا؟
بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@
nasim.naveed@gmail.com
