Dawn News Television

شائع 22 اکتوبر 2014 12:36pm

متنازع زخم

جابر خراسان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے علم، تحقیق اور تجربات کا ایک زمانہ معترف تھا۔ مغربی سائنسدان اس کی کتابوں کا ترجمہ اپنی زبانوں میں کر رہے تھے۔ روم اور یونان کے فلسفی اور سائنسدان اسے دیوتا سمجھتے تھے۔ ان کے بس میں ہوتا تو وہ جابر کو سکوں اورہیرے جواہرات کے عوض خرید لیتے۔

خراسان میں اس وقت عباسی خاندان کی حکومت تھی۔ شاہِ خراسان اور جابر کے درمیان مسلکی اختلافات موجود تھے۔ حکومت کو جابر کی بڑھتی ہوئی شہرت اور مسلکی اختلافات کھٹکنے لگے۔ جابر کا خراسان میں رہنا مشکل ہو گیا۔ اس کی والدہ کو کوڑے مار مار کر شہید کر دیا گیا۔ جابر اپنی کتابوں اور لیبارٹری کا مختصر سامان سمیٹ کر عراق کے شہر بصرہ چلا گیا۔

بصرہ کے لوگ جابر کے علم کے گرویدہ ہو گئے۔ اہلِ عراق اور ان کے آبا و اجداد صرف تلوار، زرہ بکتر اور گھوڑے کو ایڑی لگانا جانتے تھے۔ جابر جیسی کیمیا گری اور علمی گفتگو انہوں نے اس سے قبل کبھی نہیں سنی تھی۔ وہ بصرہ سے کوفہ اور کوفہ سے خراسان تک کے پہاڑی راستوں کے علاوہ کچھ نہیں جانتے تھے لیکن جابر نے انہیں زمین سے آسمان اور زمین سے اس کی تہوں تک کا سفر کروا دیا۔

حاکم بصرہ کو بھی جابر سے مسلکی اختلاف تھا۔ حاکم کے درباری جابر کی بڑھتی ہوئی علمی شہرت اور مسلکی اختلاف کو حکومت کے لیے خطرہ سمجھنے لگے۔ ایک دن جابر کو الزامات کی زد میں لا کرقاضی بصرہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ قاضی نے حاکم کی ایما پر جابر کو سزائے موت سنا دی۔ اور یوں جس جابر بن حیان کو آج مغرب بابائے کیمیا ”Father of Chemistry“ کہتا ہے، اس کی کیمیا گری، علم اور سائنسی ایجادات کو اس کے اپنے ہم مذہبوں نے جادوگری، کذب اور کفر قرار دے دیا۔

ہم نے پاکستان کے واحد نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبداسلام کو دھتکار دیا۔ جبکہ ڈاکٹرسلام نے وصیت کی تھی کہ ان کے مرنے کے بعد ان کے نوبیل انعام کو پاکستان بھیج دیا جائے۔ جو آج بھی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کی لائبریری میں موجود ہے۔ ڈاکٹرسلام کواَسی کی دہائی میں ایک تنظیم نے پاکستان میں لیکچر کی دعوت دی لیکن مذہبی تنظیموں نے احتجاج شروع کر دیا۔ لہٰذا ان کا دورہ منسوخ ہو گیا اور بھارت کی تیرہ یونیورسٹیوں نے ڈاکٹر سلام کولیکچرز کی دعوت دے دی۔

ہم نے جناح کوبھی ان کے مسلک کی بحثیں چھیڑ کر متنازعہ بنانے کی کوشش کی۔ ہم جناح کے پاکستان کو تو سنبھال نہ سکے لیکن جناح کو اپنے اپنے مسلک میں شامل کرنے کی کوششوں میں لگے رہے۔ ہماری چودہ سو سالہ اسلامی اور 67 سالہ پاکستانی تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے اپنے ہیروز کو وہ قدر، احترام اور مقام نہیں دیا جس کے وہ مستحق تھے۔

ہم نے ملالہ پر ہونے والے قاتلانہ حملے کو بھی متنازع بنانا چاہا۔ نو اکتوبر 2012 کو اس پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے ٹی وی چینلز اس واقعے کی کوریج کرنے لگے۔ ہر طرف سے مذمتی اور ملامتی بیانات جاری ہونے لگے۔ لیکن ہمارے ہاں کچھ لوگ اس قاتلانہ حملے کو دہشت گردی کہنے سے کتراتے رہے۔ میں نے دس اکتوبر کو ایک نجی نیوز چینل پر کراچی کے ایک معروف عالمِ دین کی گفتگو سنی۔ ان سے سوال کیا گیا کہ آپ اس واقعے پرکیا ردِ عمل دیں گے۔

مولانا صاحب نے فنِ خطابت سے اس سارے معاملے کو الجھاتے ہوئے کہا، ”میڈیا اس بچی کو ہیرو بنا کر پیش کر رہا ہے۔ میڈیا، حکومت اور دنیا کو ڈرون حملوں میں ماری جانے والی بچیاں نظر کیوں نہیں آ رہی ہیں۔ لال مسجد کے شہدا کہاں گئے۔ یہ ایک سازش ہے۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ“ اور یوں انہوں نے ملالہ پر ہونے والے قاتلانہ حملے کو دیگر مسائل اور معاملات کے ساتھ نتھی کر دیا۔

مختلف چینلزپر ہونے والے تبصروں۔ مذہبی اسکالرز اور موبائل پر موصول ہونے والے بے شمار میسجز (SMS) میں یہ پھیلایا گیا کہ ملالہ پر حملہ پلانٹڈ (planted) ہے۔ ایک سازش ہے۔ ہماری قوم اور امتِ مسلمہ کو الجھانے کی باقاعدہ منصوبہ بندی ہے۔ شمالی وزیرستان پر حملے کی پہلی سیڑھی ہے۔ ایجنسیز کی نئی چال ہے اور بہت کچھ مزیدایسا کہا گیا جس سے اس قاتلانہ حملے اور قاتلوں کے خلاف پیدا ہونے والی نفرت کو کم کیا جا سکے۔

اس حملے کا پس ِمنظر، محرکات یا مقاصد جو بھی ہیں ہم انہیں بعد میں بھی زیر بحث لا سکتے تھے، لیکن اس وقت ایسے سوالات کو اٹھانا دہشتگردی کی اس گھناؤنی واردات کو کنفیوژ (confuse) کر رہا تھا جس کا فائدہ دشمن نے اٹھانا تھا۔

ملالہ نے مینگورہ میں اس دور میں آواز اٹھائی جب وہاں کی فضا سے بارود کی بو آتی تھی۔ گلیوں سے گولیوں کے خول ملتے تھے اور دیواروں کے سائے سے بھی خوف آتا تھا۔ حبس کے اس عالم میں ملالہ امن کی فاختہ بن گئی۔ دنیا کو ٹی وی اسکرین پرتو ملالہ دکھائی دیتی لیکن یہ ملالہ نہیں بلکہ سوات اور مینگورہ کے سات لاکھ سے زائد بچے تھے۔ زبان ملالہ کی ہلتی لیکن آواز سوات کے بچوں کی تھی۔ الفاظ ملالہ کے تھے لیکن لہجہ سوات کے بچوں کا تھا۔ امن کی فریاد ملالہ کی تھی لیکن خواہش اٹھارہ کروڑ لوگوں کی تھی۔ بظاہر یہ چودہ سالہ لڑکی تھی لیکن یہ صرف ایک لڑکی نہیں بلکہ سوات کی بیس لاکھ سے زائد آبادی میں بسنے والی اڑتالیس فیصد خواتین تھیں۔

وہ مینگورہ کے ایک سکول کی سراپا احتجاج طالبہ نہیں بلکہ طالبان اور پاک فوج کے آپریشن کے دوران کھنڈر بن جانے والے چار سو سے زائد اسکولوں کے خس و خاشاک سے اٹھتی ہوئی دھول تھی۔ ملالہ اس دن سے میری آئیڈیل بن گئی۔ اس دن سے مجھے ملالہ کی صورت میں اعتدال پسند، تعلیم یافتہ اور نوجوانوں کا ترقی یافتہ پاکستان دکھائی دینے لگا ۔وہ پہلی پاکستانی ہے جسے عالمی امن ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا۔ کڈز رائٹس فاونڈیشن کی جانب سے انٹرنیشنل چلڈرنز پیس ایوارڈ کے لیے منتخب ہونے والی پہلی پاکستانی لڑکی بھی ملالہ ہی ہے۔

ملالہ جس نوبل امن ایوارڈ سے تمہیں نوازا گیا۔ 9 اکتوبر2012 کے بعد سے وہ ایوارڈ اب صرف تمہارا نہیں۔ وہ امن ایوارڈ ہر علم دوست اور امن پسند نے تمہارے نام سے اپنے سینے پر آویزاں کر لیا ہے۔ ملالہ زخم صرف تمہیں نہیں لگے، ہمارا ریشہ ریشہ بھی زخم خوردہ ہے۔ ملالہ تمہارے والد ضیاالدین یوسفزئی سوات قومی جرگے کے مرکزی ترجمان تھے لیکن اب پاکستان کا ہر باپ تمہارے پیغام کا ترجمان بن گیا ہے۔ دنیا کی نظروں میں تو تم سٹریچر پر خون میں لت پت پڑی تھی لیکن تمہارے لہو سے امن کے ایسے چراغ روشن ہونے لگے ہیں جنہیں بجھانا آندھیوں کے بس میں نہیں ہو گا۔

ہماری روش بن چکی ہے کہ ہم ہر چیز کو متنازع بنا دیتے ہیں جبکہ زخموں سے اٹھنے والی ٹیسیں ایک جیسی ہوا کرتی ہیں۔ زخم زخم ہوتا ہے چاہے ملالہ یوسفزئی کو لگنے والی گولی کا ہی کیوں نہ ہو۔ اور ملالہ ہم تمہارے زخموں کو متنازع نہیں بننے دیں گے۔

Read Comments