Dawn News Television

اپ ڈیٹ 17 نومبر 2014 07:33pm

نائنٹیز کا پاکستان - 9

یہ اس بلاگ کا نواں حصہ ہے۔ پہلے، دوسرے، تیسرے، چوتھے، پانچویں، چھٹے، ساتویں اور آٹھویں حصے کے لیے کلک کریں۔


دوسرا نواز دور 1997-99

تین فروری 1997ء کو منعقد کردہ قومی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نواز نے قومی اسمبلی میں دو تہائی اور پنجاب اسمبلی میں نوے فیصد برتری حاصل کی۔ ووٹر ٹرن آؤٹ تاریخی لحاظ سے کم ترین رہا اور صدر لغاری نے ٹی وی پر اعتراف کیا کہ شہری اور دیہاتی علاقوں میں صرف چھبیس سے ستائیس فیصد افراد نے ووٹ کا اختیار استعمال کیا۔

قومی اسمبلی میں مسلم لیگ نواز نے 202 نشستوں میں سے 134 جبکہ پیپلز پارٹی نے 19، متحدہ قومی موومنٹ نے 12 اور عوامی نیشنل پارٹی نے 9 پر کامیابی حاصل کی۔ صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ نواز نے حکومت قائم کی اور شہباز شریف کو وزیر اعلیٰ منتخب کیا گیا۔ صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخواہ) میں عوامی نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ نواز کی مخلوط حکومت قائم ہوئی اور سردار مہتاب عباسی کو وزیر اعلیٰ منتخب کیا گیا۔ صوبہ سندھ میں مسلم لیگ نوا ز اور متحدہ قومی موومنٹ نے مخلوط حکومت قائم کی جبکہ بلوچستان میں کسی جماعت کو واضح برتری حاصل نہ ہوئی اور اختر مینگل نے وزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا۔

دوسرے نواز دور میں قانون اور عدلیہ کی دھجیاں جس طرح اڑائی گئیں، اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں موجود نہیں ہے۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے ایک ماہ بعد ہی صحافت کی آزادی پر حملہ ایک آرڈیننس کے ذریعے کیا گیا۔ اپنے پہلے دور حکومت کے دوران بھی نواز شریف کے صحافیوں سے تعلقات مثالی نہیں تھے اور ایک طنزیہ نظم چھاپنے پر معروف انگریزی اخبار کی مدیر پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ آئین میں درج تمام اصولوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے صدر کے اختیارات کم کرنے والی تیرھویں ترمیم اور تین ماہ بعد چودھویں ترمیم راتوں رات منظور کروالی گئی۔

چودھویں ترمیم کے مطابق اسمبلی کے ممبران اپنی جماعت کے سربراہ کے فیصلے کے خلاف ووٹ نہیں ڈال سکتے تھے اور ایسا کرنے کی صورت میں ان کو نااہل قرار دیا جانا تھا، اور وہ اس عمل کے خلاف کسی عدالت میں اپیل نہیں کر سکتے تھے۔ اس کے بعد وزیر اعظم نے خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا حکم جاری کیا لیکن اس کو چیف جسٹس نے خلاف قانون قرار دے کر مسترد کر دیا، جس پر نواز شریف خوب سیخ پا ہوئے اور اسمبلی میں چیف جسٹس پر تنقید کی۔

اس دور کے وزیر خارجہ گوہر ایوب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف نے چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے نجات پانے کے لیے پہلے تو یہ منصوبہ بنایا کہ انہیں اسمبلی کی ایک کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کا حکم جاری کیا جائے اور جب انہیں یہ بتایا گیا کہ یہ ممکن نہیں تو انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ کسی طریقے سے جج صاحب کو صرف ایک رات کے لیے ہی حوالات کی سیر کرائی جائے۔
کشیدگی بڑھنے پر جنرل جہانگیر کرامت نے تصفیہ کرانے کی پیشکش کی تو وزیر اعظم نے مسئلہ حل کرنے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت طلب کی۔

اس اثناء میں شہباز شریف، شریف الدین پیرزادہ اور سپریم کورٹ کے دو جج کوئٹہ پہنچے اور سپریم کورٹ کوئٹہ بنچ میں چیف جسٹس کی تقرری کو انہی کے قائم کردہ اصولوں (ججز کیس کے فیصلے میں جسٹس سجاد علی شاہ نے تقرری کے کچھ اصول مرتب کیے تھے) کی روشنی میں چیلنج کردیا۔ کوئٹہ بینچ نے چیف جسٹس کے خلاف فیصلہ سنایا اور انہیں اپنے فرائض انجام دینے سے روک دیا۔ چیف جسٹس نے اس حکم کو غیر آئینی قرار دیا۔

پشاور بنچ نے بھی اسی طرز کا حکم جاری کیا اور جسٹس سعیدالزماں صدیقی نے چیف جسٹس کی تقرری کو کالعدم قرار دیتے ہوئے خود ان کا منصب سنبھالنے کا فیصلہ سنایا۔ دونوں بنچوں نے چیف جسٹس کے خلاف درخواست صدر کو بھی بھجوا دی۔ اس نوعیت کا غیر آئینی قدم اس سے پہلے پاکستان اور شاید دنیا کی کسی عدالت میں نہیں اٹھایا گیا تھا۔

اس دھینگا مشتی کے دوران چیف جسٹس نے صدر کے اختیارات بحال کرتے ہوئے تیرھویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دیا۔ اس حکم کے چند منٹ بعد ہی سپریم کورٹ کے ایک اور بنچ نے اس حکم کے خلاف حکم امتناعی جاری کر دیا۔

28 نومبر کا دن پاکستان اور اس کی عدلیہ کے لیے تاریک ترین دن تھا۔ اس روز وزیراعظم نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے کی سماعت جاری تھی کہ عدالت پر مسلم لیگ نواز کے کارکنوں نے ہلا بول دیا۔ عدالت کی تقدیس کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے جوشیلے مسلم لیگیوں نے چیف جسٹس کے کمرہ عدالت کا دروازہ توڑ دیا اور مختلف املاک کو نقصان پہنچایا۔ اس دھکم پیل میں وفاقی وزیر مشاہد حسین سید، سینیٹر سیف الرحمان، پرویز رشید، سعد رفیق، خواجہ آصف، اختر رسول، طارق عزیز، نجمہ حامد اور دیگر شامل تھے۔ اس طوفان بد تمیزی سے دو روز قبل عدالت عظمی میں ایک گمنام وکیل نے رٹ دائر کی تھی کہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ پر بغاوت کا مقدمہ چلایا جائے۔

ارد شیر کاؤس جی نے لکھا کہ سجاد علی شاہ کے والد نے 1954 میں گورنر جنرل غلام محمد کی تمام تر کوششوں کے باوجود اسمبلی کی تحلیل کے خلاف مولوی تمیز الدین کی اپیل سماعت کے لیے منظور کی تھی لیکن سجاد علی شاہ کو ایوان اقتدار کی خواہش اور عدالت عظمیٰ کی بے حرمتی کے بعد گھٹنے ٹیکنے پڑے۔

اس بحران کے دوران صدر لغاری نے شریف حکومت کے اقدام کی حمایت نہیں کی اور نواز شریف سے مخالفت کی سزا بہرحال صدر لغاری کو بھگتنی پڑی اور انہیں اقتدار کی کُشتی میں مات کھانے کے باعث استعفی دینا پڑا۔ ذرائع ابلاغ پر مکمل اختیار ہونے کے باعث صدر کے استعفے کی خبر سرکاری چینل پر نہیں دکھائی گئی۔ قائم مقام صدر کا پہلا کام جسٹس سجاد علی شاہ کو برطرف کرنا تھا۔

اپریل 1998ء میں عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم نے ’غوری‘ نامی درمیانے فاصلے کے میزائل کا تجربہ کیا۔ ہندوستان نے کچھ ماہ قبل پرتھوی نامی میزائل کا تجربہ کیا تھا۔ پرتھوی، ہندی زبان میں زمین کو کہتے ہیں۔ تجربے کے وقت اس بات پر کسی نے غور نہیں کیا کہ وہ میزائل دراصل شمالی کوریا سے لیا گیا نوڈونگ میزائل تھا۔

ہندوستانی حکومت اس اقدام پر بوکھلا گئی اور اٹل بہاری واجپائی نے باضابطہ ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس سے قبل ہندوستان 1974ء میں پوکھران کے مقام پر ایٹمی دھماکا کر چکا تھا۔ 11 مئی 1998ء کو ہندوستان نے راجھستان میں ایٹمی تجربہ کیا۔ امریکا اور باقی دنیا اس اچانک اقدام پر بوکھلا گئے۔ امریکی صدر کلنٹن نے اپنے تجربہ کار سفارت کار اور جرنیل پاکستان کو ایسی ہی حرکت سے باز رکھنے کے لیے روانہ کیے۔ نواز شریف نے امریکیوں کو یہ تاثر دیا کہ وہ بہت دباؤ کا شکار ہیں اور ساتھ ہی ساتھ جنگی کابینہ کا خفیہ اجلاس بلایا تاکہ اس مسئلے کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا جائے۔

وزیرِ خزانہ سرتاج عزیز، نیوی کے سربراہ ایڈمرل فصیح بخاری اور چوہدری نثار علی خان کے علاوہ تمام وزراء اور مشیروں کی رائے تھی کہ دھماکہ کر دیا جائے۔ سرتاج عزیز نے حاضرین کو دھماکے کے بعد ممکنہ معاشی بحران کے خطرے سے آگاہ کیا اور یہ تسلی دی کہ پاکستان معاشی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے باوجود وزیر اعظم فیصلہ کرنے میں گومگو کا شکار تھے۔ ان کے قریبی کالم نگاروں مجیب الرحمان شامی اور الطاف حسین قریشی 26 مئی تک اپنے اخباری مضامین میں ’امتناع‘ (restraint) کا پیغام سنا رہے تھے۔ صدر کلنٹن نے نواز شریف کو پاکستان کے بہت سے بیرونی قرض معاف کروانے کا عندیہ دیا۔

اس دوران اسرائیلی طیاروں کی پاکستانی سرزمین پر حملے کی افواہ بھی اڑائی گئی لیکن آزادانہ تحقیق کے مطابق اسرائیل نے ایسی کسی کاروائی کا ارادہ بھی نہیں کیا تھا۔ ایٹمی تجربہ کرنے کا فیصلہ ہوا تو عبدالقدیر خان اور ثمر مبارک مند کے درمیان یہ چپقلش شروع ہوئی کہ اس کام کی ذمہ داری کون لے گا۔ ثمر مبارک مند اور ان کے ماتحت ادارے پاکستان ایٹمی انرجی کمیشن PAEC نے بلوچستان میں چاغی کے مقام پر ایٹمی تجربات کے لیے سرنگیں تیار کر رکھی تھیں لہٰذا یہ شرف انہیں حاصل ہوا۔ عبدالقدیر خان آج تک اپنے آپ کو بابائے بم کہلوانا پسند کرتے ہیں لیکن ثمر مبارک مند کے مطابق خان ریسرچ لیبارٹری اور عبدالقدیر خان کا بم بنانے کے پچیس مراحل میں سے صرف ایک مرحلہ پورا کرنے میں حصہ تھا۔ 28 مئی 1998ء کو دوپہر تین بج کے سولہ منٹ پر محمد ارشد نامی سائنس دان نے اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر دھماکے کے لیے بٹن دبایا اور پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بن گیا۔

دھماکوں کے بعد عالمی سطح پر پاکستان کو معاشی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکا نے جلد ہی پابندیوں میں کمی کر دی اور اسی سال جولائی کے مہینے میں زراعت کے شعبے میں امداد پاکستان کو مہیا کی گئی جبکہ فوجی اور تکنیکی امداد تین ماہ بعد ملی۔ آئی ایم ایف نے بھی اپنی شرائط میں نرمی دکھائی۔

(جاری ہے)

حوالہ جات:

Constitutional and Legal History of Pakistan. Hamid Khan

Vintage Cowasjee

Nuclear Deception by Adrian Levy and Catherine Scott-Clarke

Pakistan: A Political History by Lawrence Ziring.

Pakistan: Eye of the Storm. Owen Bennet-Jones

Read Comments