سانحہ کوٹ رادھا کشن اور موجودہ قانون
ہفتہ 2 نومبر کو ڈان اردو میں چھپنے والے میرے بلاگ کمبخت لاؤڈ اسپیکر میں مساجد میں استعمال ہونے والے لاؤڈ سپیکرز کے بارے میں پنجاب لاؤڈ سپیکرز اینڈ ایمپلیفائر ایکٹ 1965 پر روشنی ڈالی گئی تھی اور کچھ ایسے واقعات کا ذکر کیا گیا تھا جن میں چندے کے پیسوں سے خریدے گئے اس برقی ہتھیار کا استعمال اموات کا سبب بنتا رہا ہے۔
بد قسمتی سے گزشتہ دنوں ایک مرتبہ پھر اس ہتھیار کا استعمال لاہور کے قریب واقع ڈسٹرکٹ قصور کے علاقے کوٹ رادھا کشن میں ہوا۔ جب مسجد کے امام نے مسجد کے اونچے میناروں پر آویزاں اس ہتھیار کا استعمال کرتے ہوئے اہلِ علاقہ کو مطلع کیا کہ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک جوڑے نے مسلمانوں کی مقدس ترین کتاب قرآن پاک کی بے حُرمتی کی ہے اور تمام اہل علاقہ کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ فوری طور پر یوسف کے بھٹے پہنچے۔
یوسف کے بھٹے پر جو کچھ ہوا۔ اس کے بارے میں تو سب جان چکے ہیں اور اس جوڑے نے مبینہ طور پر قرآن کی بے حرمتی کی تھی یا نہیں، اس کا پتہ تو ہمیشہ کی طرح چلے گا نہیں۔
مگر اگر کچھ دیر کے لیے یہ مان بھی لیا جائے کہ اس جوڑے نے توہین قرآن کی تھی، تو کیا اِس جوڑے کا انجام یہی ہونا چاہیے تھا جو کوٹ رادھا کِشن کے غیور مسلمانوں نے کیا؟ یا انہیں مہذب معاشرے کی طرح قانون کے کٹہرے میں پیش کیا جانا چاہیے تھا؟ مگر افسوس کہ تہذیب تو مسلمانوں کے اِس معاشرے کے قریب سے بھی نہیں گزری، تب ہی تو ہر کوئی خود کو قانون، عدلیہ، اور انتظامیہ سب کچھ سمجھ بیٹھا ہے۔ ورنہ جو معاشرے واقعاً مہذب ہیں، اور ہمارے یہاں گمراہ کہلاتے ہیں، وہاں کسی کی کیا مجال کے قانون کا کام خود کرنے لگے؟
پنجاب لاؤڈ اسپیکر ایکٹ کے بارے میں جانیے
جہاں تک توہینِ رسالت کے قوانین کی بات ہے، جن میں تبدیلیاں کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے، تو مجھ جیسے جونیئر تجزیہ کار میں اتنا حوصلہ تو نہیں کہ میں اُس کے بارے میں کچھ بھی لکھوں کیونکہ مجھے اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی زندگیاں بہت عزیز ہیں۔
ویسے بھی مجھ ناچیز کے نزدیک تو مسئلہ موجودہ توہینِ رسالت قوانین میں ہے ہی نہیں کیونکہ قوانین کا اطلاق اُس وقت ہوتا ہے جب ایسے واقعات رونما ہونے پر مُلزم کو قانون کے سامنے پیش کیا جائے۔
اصل المیہ یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے معاشرے میں برداشت اور بُرد باری بالکل ختم ہوچکی ہے۔ ہم میں اتنا حوصلہ ہی نہیں کہ کوئی قدم اٹھانے سے پہلے ہم یہ کنفرم کر لیں کہ آیا جو قدم ہم اٹھانے جارہے ہیں، وہ قانون اور دین کے مطابق ہے بھی کہ نہیں۔
کہنے کو تو ہم طالبان کو انتہا پسند کہتے ہیں مگر درحقیقت ہمارا پورا معاشرہ ہی انتہا پسندی کی مُہلک بیماری میں مبتلا ہوچکا ہے۔ جس کی چند مثالیں کوٹ رادھا کشن، سمبڑیال، جوزف کالونی اور گوجرہ میں سامنے آئیں۔
بد قسمتی کی بات تو یہ ہے کہ ایسے واقعات میں فیصلہ علاقے کی مسجد کا مولوی کرتا ہے، جو کسی بھی ذرائع سے ملنے والی اطلاع کی روشنی میں لاؤڈ سپیکر سے اعلان کرتا ہے اور پھر اہل علاقہ کے مسلمانوں پر یہ فرض ہوجاتا ہے کہ وہ مسجد کے مولوی کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے توہین رسالت کرنے والے کو کیفرِ کردار تک پہنچائیں اور جنت میں اپنا گھر پکا کریں۔
ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم علاقے کی مسجد کے مولوی کو اتنا رُتبہ دیتے ہیں جس کا وہ مستحق نہیں ہوتا۔ ہم اُس سے نہ صرف نکاح خوانی، نماز جنازہ اور قرآن پڑھوانے اور مذہبی مشورہ لینے کے لیے رجوع کرتے ہیں، بلکہ بوقتِ ضرورت گھریلو مسائل کے حل بھی مولانا صاحب سے مشورے کے ذریعے کیے جاتے ہیں، جن کے سدّ باب کے لیے مولانا صاحب اپنی خدمات بھی پیش کر دیتے ہیں۔
ان تمام دینی خدمات کے بعد اگر محترم مولانا صاحب علاقے کے مکینوں کو یہ حکم دیں کہ کسی نے توہین رسالت کی ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اہلِ علاقہ مولانا صاحب کی دعوتِ ثواب کو رد کردیں؟ اُن کے نزدیک تو یہ اہلِ علاقہ کی خوش قسمتی ہوتی ہے کہ ایسا نادر موقع انھیں اپنے علاقے میں مُیسر آیا۔
پڑھیے: توہین رسالت کون کر رہا ہے؟
توہین رسالت کے قوانین پر بحث کرنے کی تو میرے نزدیک کوئی ضرورت ہی نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قانون کے مطابق سزا اس وقت دی جاتی ہے جب جُرم ثابت ہو جائے اور اس کے لیے ایک مقررہ ضابطے کے تحت کاروائی کی جاتی ہے۔ جس میں ملزم کو بھی اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ قوانین کے ساتھ کچھ مزید ایسے قوانین بنانے کی ضرورت ہے جن کے تحت یہ طے کیا جائے کہ اگر کوئی توہینِ رسالت کا واقعہ پیش آتا ہے تو اس سے کیسے نمٹا جائے اور فوری طور پر علاقے کے مکینوں پر قابو کیسے پایا جائے۔ اس کے علاوہ ایک ایسے قانون کی اشد ضرورت ہے جس کی روشنی میں اگر کسی علاقے کا مولوی بذریعہ لاؤڈ سپیکر کوئی ایسا اعلان کرتا ہے تو اس کے خلاف کیا کارروائی ہونی چاہیے۔
سانحہ کوٹ رادھا کشن میں اگر حکومت چاہے تو مذکورہ امام مسجد کے خلاف پنجاب لاؤڈ اسپیکر اینڈ ایمپلیفائر ایکٹ 1965 کے تحت کارروائی کرسکتی ہے، مگر اس کے لیے لازمی ہے کہ حکومت ایکشن لینے کی نیت کرے۔
اگر حکومتِ پنجاب موجودہ قانون کی موجودگی میں ہی مذکورہ امام کو تین ماہ قید، دو ہزار روپے جرمانہ، یا دونوں سزاؤں میں سے کوئی سزا دیتی ہے تو مستقبل میں کوئی بھی امام لاؤڈ سپیکر کا استعمال اپنے نظریہ ضرورت کے تحت استعمال نہیں کر سکے گا۔
آخر میں موجودہ حالات اور واقعات کو دیکھتے ہوئے ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری حکومت میں اتنی جرات نہیں کہ وہ موجودہ قوانین میں تبدیلی کریں۔ لہٰذا اگر حکومت قوانین کی موجودگی میں ہی کچھ مزید قانون سازی کر لے تو مسلمانوں کے عظیم ملک میں اقلیتیں مزید ظلم کا شکار بننے سے بچ سکتی ہیں۔
بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@
nasim.naveed@gmail.com
