کیا پلان سی یہی تھا؟
مبارک ہو۔ 8 دسمبر بروز سوموار عمران خان کی دو ایسی خواہشات پوری ہوگئیں، جس کے لیے میانوالی سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے سربراہ 13 اگست سے سڑکوں کی خاک چھان رہے تھے اور شہر شہر جلسوں میں انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کا ڈِھنڈورا پیٹ رہے تھے۔
دسمبر کے دوسرے ہفتے کے پہلے دن ہی پہلے تو عمران خان کے اپنے ذاتی حلقے سے متعلق الیکشن ٹربیونل کا فیصلہ آیا۔ جس میں ٹربیونل نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 122 اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ 147 میں پڑنے والے ووٹوں کی جانچ پڑتال کا حُکم دیا۔
عمران خان کی دوسری خواہش تحریک انصاف کے دھرنوں یا جلسوں میں گولی کا چلنا تھا اور تحریک انصاف کے سربراہ کے پلان سی کے پہلے مرحلے میں ہی فیصل آباد میں گولی چل گئی، جو کہ مبینہ طور پر نواز لیگ کے جیالے نے چلائی اور جس کا شکارتحریک انصاف کا 22 سالہ نوجوان جیالا حق نواز ہوا۔ جاں بحق ہونے والا کارکن کرکٹ کا شیدائی ہونے کی وجہ سے کپتان کا بھی شیدائی تھا اور اس کی ماں اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کی دلہنیا کے لیے برّی کا سامان لینے پشاور گئی ہوئی تھی۔
ہلاک ہونے والا متوقع دولہا دل میں سہرا سجانے کا خواب لیے فیصل آباد میں تحریکِ انصاف کے پلان سی کی بھینٹ چڑھ گیا اور حق نواز کے خون سے عمران خان کی مرتی تحریک پھر سے زندہ ہوگئی۔ حق نواز کی ہلاکت کے بعد تحریک انصاف کے مظاہرے دیگر شہروں میں پھیل گئے اور نیوز چینلز پر دھڑا دھڑ مباحثے شروع ہوگئے۔
حق نواز کی ہلاکت کے بعد عمران خان رات گئے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گولی کا شکار بننے والے مظلوم کے گھر پہنچے۔ تحریک انصاف کا جلسہ حق نواز کی ہلاکت کا تڑکا لگنے کے بعد مزید جوشیلا ہوگیا، جس میں تحریک انصاف کے لیڈران نے حق نواز کی ہلاکت کو شہادت کا رُتبہ عنایت فرمایا اور یوں ایک اندھی گولی سے مرنے والا ہلاک نہیں بلکہ شہید قرار پایا۔ اب تحریک انصاف کے ہر جلسے اور دھرنے میں اس مظلوم ماں کے بیٹے کو سلام پیش کیا جائے گا۔
تحریک انصاف اور عمران خان گزشتہ کئی مہینوں سے ایک ایسے موقع کی تلاش میں تھے، جسے وہ کیش کروا سکیں۔ مہینوں کی جانے والی تقریروں اور دھرنوں کے باوجود حکومت نے تحریک انصاف کو ایسا موقع نہیں دیا کے گولی چلی ہو۔ مگر پیر کے روز مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والی فیصل آباد کی مقامی قیادت "گو نواز گو" کے نعروں کو برداشت نہ کرسکی اور یوں مہینوں سے جاری صبروتحمل کی حکومتی پالیسی آخر کار فیصل آباد میں منقطع ہوگئی۔
پی ٹی وی اور پارلیمنٹ ہاؤس پر ہونے والے حملوں کے نتیجے میں حکومتی طاقت کے استعمال کو بھی تحریک انصاف کیش نہ کروا سکی اور اس کی وجہ کسی بھی جانی نقصان کا نہ ہونا تھا۔ ملتان میں ہونے والی 8 ہلاکتیں بھی تحریک انصاف کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نا دلوا سکیں۔ پر جس واقعے کا انتظار تھا، وہ آخر کار فیصل آباد میں ہوگیا۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن سے شروع ہونے والے سیاسی احتجاجوں میں اب تک 28 ہلاکتیں ہو چکی ہیں، جن میں 14 ہلاکتیں صرف ماڈل ٹاؤن میں ہوئیں۔ اس واقعے کا فائدہ کچھ اطلاعات کے مطابق پاکستان عوامی تحریک کو مالی طور پر ہوا، جس کے بعد علامہ ڈاکٹر طاہر القادری علاج کی غرض سے امریکہ روانہ ہوگئے۔
مگر حق نواز نواز حکومت کے خلاف تحریکِ انصاف کو ایک مضبوط احتجاج کا جواز فراہم کرگیا۔ اب عمران خان کے پلان سی کے مطابق باقی شہروں میں بھی دھرنوں میں مزید ہلاکتوں کی امید کی جاسکتی ہے، جو کہ یقیناً تحریک انصاف کی تحریک کو مزید تقویت دے گی۔
اس سچ میں کوئی شک نہیں کہ تحریکِ انصاف کی مرتی ہوئی تحریک کو آخری وقت میں آکسیجن حکومت نے خود دی اور اس کا سارا سہرا حکومتی عہدیداروں کو جاتا ہے کیونکہ تحریک انصاف کا دھرنا اپنے تمام تر جھوٹے سچے دعووں اور وعدوں کے باوجود دم توڑ رہا تھا۔ مگر اب حکومت نے تحریک انصاف کی خطرناک ترین بالوں کو چھوڑتے چھوڑتے ایک باہر جاتی بال کو چھیڑ دیا ہے، جس کا خمیازہ یقیناً حکومت کو بھگتنا پڑے گا۔
حق نواز کا خون رنگ لائے یا نا لائے، ماڈل ٹاؤن میں ہلاکتوں کے ذمہ داران کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے یا چھوڑ دیا جائے، ملتان میں دم گھٹنے والوں کی اموات کی تحقیقات کے نتائج منظرِ عام پر لائے جائیں یا ہمیشہ کی طرح چھپا دیے جائیں، تحریک انصاف کو ان ہلاکتوں سے کوئی فائدہ ہونا ہو، مگر حکومتِ وقت کو ان ہلاکتوں کا حساب دینا پڑے گا۔
بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@
nasim.naveed@gmail.com
