نقطہ نظر

کہ منزلوں کا تصور میرے سفر میں نہیں

کسی بھی جیت یا کامیابی کو کافی سمجھ لینے والے لوگ وہیں کے وہیں رہ جاتے ہیں۔

میدان کا ماحول سرد تھا، تمام تماشائیوں کو سانپ سونگھ گیا تھا، سب ایک دوسرے کو پریشانی کے عالم میں دیکھ رہے تھے، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ خاموش آنکھیں ایک دوسرے سے کچھ سوال کر رہی ہیں، وہ بھی سب کو دیکھ رہا تھا۔ اس نے ایک نظر میدان پر دوڑائی، اپنے دستانے سے ماتھے پر نمودار ہونے والی پسینے کی ننھی بوندوں کو صاف کیا، اور بلے کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیا۔ اس کی آنکھوں میں خوف تھا۔ وہ ٹیم کا آخری کھلاڑی تھا، اور بدقسمتی سے بارہواں کھلاڑی تھا جو کسی کھلاڑی کے ”ان فٹ“ ہونے پر آیا تھا۔

ٹیم کو جیتنے کے لیے 3 رنز کی ضرورت تھی اور 3 ہی گیندیں باقی رہ گئیں تھیں۔ اس نے ایک رن بنا کر سامنے والے کھلاڑی کو بیٹنگ کا موقع دینا تھا، تاکہ وہ ٹیم کو جیت دلوا سکے، مگر سب کو ڈر اس بات کا تھا کہ یہ بارہواں کھلاڑی ”رن“ کیسے بنائے گا؟ اس نے آج سے پہلے ایک رن بھی اسکور نہیں کیا تھا اور اس کا وزن بھی تقریباً 130 کلو تھا۔ کھلاڑی سمیت پورے اسٹیڈیم میں خوف کے آثار خاموشی بھرے منظر میں صاف دکھائی دے رہے تھے۔ کھلاڑی پر سارا پریشر تھا۔ اس نے بھی ٹھان لی کہ کسی بھی طرح یہ آج ایک رن تو لازمی بنائے گا۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور گہرا لمبا سانس لیا، اور خوف کا گھونٹ حلق سے نیچے اُتارا۔

امپائر نے گیم شروع کرنے کا اشارہ دیا۔ بالر نے بھی جیت اپنے نام کرنی تھی لہٰذا اس نے اپنی رفتار کو دوگنا کیا اور ایک خطرناک باؤنسر دے مارا۔ گیند گولی کی رفتار سے اس کے سر کے پاس سے گزری، اور اس کے کان میں سیٹی بجا گئی۔

اب 2 گیندیں رہ گئیں تھیں۔ حوصلے جو پہلے ہی پست تھے، اس باؤنسر کے بعد مزید ”ڈیڈ لیول“ کراس کرگئے۔ کھلاڑی نے اپنا بھاری بھرکم وزن سنبھالا اور ایک بار پھر ”کریز“ پر جم کر کھڑا ہوگیا۔ اس نے تماشائیوں کی جانب دیکھا تو تماشائی ایک ایک کر کے اسٹیڈیم سے جا رہے تھے۔ اس نے اپنا مکمل دھیان کھیل کی جانب کر دیا۔ اس نے کسی بھی قیمت پر ایک رن لازمی لینا تھا، ایک بار پھر بالر نے دوڑ لگائی اور خطرناک انداز میں بال کروائی۔ اس بار گیند کھلاڑی کے بلے پر چڑھ گئی۔ کھلاڑی نے پوری طاقت سے شاٹ کھیلا۔

گیند بلے کو چھوتے ہی اس نے دوڑ لگانا شروع کردی، پر اپنے وزن کی وجہ سے چاہ کر بھی تیز نہیں بھاگ پایا۔ اچانک وہ ایک جگہ لڑکھڑایا اور پھر خود کو سنبھالتا سنبھالتا کریز کی جانب دوڑنے لگا ہر راستے میں گر گیا۔ اس کا پاؤں بری طرح مڑ چکا تھا پر اس نے اس کی پرواہ نہ کی اور ایک بار پھر اٹھ کر دوڑنے لگا، لیکن پاؤں میں موچ کی وجہ سے یہ کریز کے بہت قریب گرا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے سفید لکیر تھی جسے اس نے ہر قیمت پر چھونا تھا۔ اس نے ساری طاقت جمع کی اور زمین سے رگڑتا ہوا آخر کار اس لکیر کو چھو ہی لیا۔

پورا اسٹیڈیم حیران تھا اور زمین پر پڑا کھلاڑی خوش۔ وہ درد بھری مسکان کے ساتھ اس بات پر مسکرا رہا تھا کہ اس نے آخر کار ایک رن بنا ہی لیا ہے۔ لیکن اچانک اس نے تماشائیوں کو اپنی طرف آتے دیکھا تو اس کی مسکان پریشانی میں تبدیل ہوگئی۔ جب اس نے میدان میں نظریں دوڑائیں تو اس کے دوست کھلاڑی بھی اس کی جانب بڑھ رہے تھے۔ اس کا بھاری بھرکم جسم تماشائیوں نے اپنے کاندھوں پر اٹھا لیا تھا۔ اس نے اسکور بورڈ پر اپنی نظر کی تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔ اس نے امید کی تھی کہ وہ ایک رن بنالے گا، جو کہ اس کے لیے کافی ہے، مگر اس نے ایک رن کے بجائے 6 بنا لیے تھے، اس نے چھکا لگا دیا تھا۔

بظاہر معمولی نظر آنے والے اس واقعے میں کامیابی کا قیمتی راز پوشیدہ ہے۔ کھلاڑی کی ساری امیدیں اس ایک رن سے ہی وابستہ تھیں۔ اس نے یہ سوچ لیا تھا کہ اس کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ ایک رن بنا لے، مگر اکثر اوقات ہم کچھ اتنا بڑا کر جاتے ہیں کہ ہمیں معلوم تک نہیں ہوتا کہ ہم نے کیا کر دیا ہے۔ ہم اس چھوٹی سی کامیابی کو ہی سب کچھ سمجھ کر بیٹھے رہتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہم نے بہت بڑا کارنامہ انجام دے دیا ہے۔

لیکن ہم ایک کامیابی کو سب کچھ نہیں سمجھ سکتے۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو ہم جمود کا شکار ہوجائیں گے، ہمیشہ انسان میں آگے بڑھنے کی جستجو اور لگن رہی ہے۔ اگر ہم یہ سوچ لیں کہ جتنا کامیاب ہونا تھا ہو لیے، اور اب سات پشتیں بیٹھ کر کھا سکتی ہیں، تو آپ کی یہ سوچ بہت سی کامیابیوں کو روک سکتی ہے۔ اگر ہم اس بات کو مان لیں کہ کامیابی کی کوئی حد ہوتی ہے تو یقین مانیں آج دنیا پتھر کے دور سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔

ہم بل گیٹس کی زندگی کو سامنے رکھتے ہیں، اگر بل گیٹس بھی اس بات پر خوش ہوجاتا کہ اس نے کامیابی حاصل کرلی ہے اور اب اسے مزید کسی کامیابی کی ضرورت نہیں، تو آج ہم ایک عظیم ٹیکنالوجی سے محروم رہتے۔ بل گیٹس کی ضروریات 1984ء میں ہی پوری ہوگئیں تھیں، پھر اسے مائیکرو سافٹ بنانے اور 14 برس تک دنیا کا امیر ترین شخص رہنے کی کیا ضرورت تھی؟

لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر بل گیٹس 1984ء میں ہی اپنی کامیابی کو سب کچھ سمجھ لیتا اور اسی کا جشن مناتا رہتا، تو سافٹ ویئر کا بزنس شروع ہی نہ ہوتا، دنیا میں 5 ٹریلین ڈالر کی نئی انڈسٹری جنم نہ لیتی اور پچاس کروڑ لوگوں کی روزی روٹی کا بندوبست نہ ہوتا۔ بل گیٹس اس حقیقت سے واقف تھا کہ کامیابی کی کوئی حد نہیں، یہ ایک مستقل سفر ہے، چنانچہ اس نے اپنے ساتھ 245 ممالک کے نوجوانوں کے لیے کام اور رزق کا سلسلہ کھول دیا۔

آپ اپنی زندگی میں ایک فارمولا شامل کر لیں، آپ اس کے بہت مثبت نتائج اپنی زندگی میں دیکھ سکتے ہیں۔ ایک کاغذ لیں اوراس پر ایک چھوٹا دائرہ بنائیں، اس کے ساتھ ہی ایک بڑا دائرہ بنائیں، اب یہ چھوٹا دائرہ آپ کی کامیابی ہے، اوریہ بڑا دائرہ دنیا کے کامیاب لوگوں کی کامیابی ہے، اب ان دونوں دائروں کے اطراف ایک اور بڑا دائرہ بنائیں، یہ وہ کامیابی ہے جو نہ ہی آپ نے حاصل کی ہے اور نہ ہی دنیا والوں نے۔ آپ اس کی دوڑ میں لگ جائیں، آپ دیکھیں گے کہ آپ کامیابی کی سیڑھی پر ایک کے بعد ایک قدم رکھتے چلے جائیں گے، یاد رہے دائرے کا کوئی کنارہ نہیں ہوتا، یہ بس پھیلتا چلا جاتا ہے۔

کیا پتا آپ اس دوڑ میں چھ رن اسکور کر لیں۔۔۔ واصف علی واصف نے بھی کیا خوب کہا ہے

چلے ہو ساتھ تو ہمت نہ ہارنا واصف

کہ منزلوں کا تصور میرے سفر میں نہیں


مذکورہ بالہ واقعہ سن 2002ء میں Jeremy Brown نامی امریکی ”بیس بال“ کھلاڑی کے ساتھ پیش آیا۔ اس میچ میں Jeremy Brown امریکی بیس بال ٹیم Visalia Oaks کی جانب سے کھیل رہے تھے۔ پڑھنے والوں کی آسانی کے لیے واقعے کو کرکٹ سے تبدیل کردیا گیا ہے۔

علی جبران

علی جبران فری لانس کالم نگار ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ @alijibran14

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔