Dawn News Television

اپ ڈیٹ 09 جون 2015 08:52pm

حقائق جو نصاب میں نہیں

قومی ذہن کی تشکیل نصابِ تعلیم کے ذریعے سے کی جاتی ہے اور نصاب تعلیم کے ذریعے قوم پرستی اور وطن پرستی کا سبق بچپن سے ہی ذہن نشین کرایا جاتا ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد بالخصوص عالمی سطح پر قومیت کے تصور کو فروغ دیا گیا اور اسی تصور کے تحت ہر قوم نے اپنے اپنے وطن میں قومی ہیروز بنائے۔ اسی تصور کے تحت قومی پرچم بنایا گیا، قومی ترانہ لکھا گیا، قومی لباس، قومی پھول، قومی کھیل، قومی زبان، قومی ثقافت، غرضیکہ ہر چیز کے ساتھ قوم لگا کر انہیں مقدس بنا دیا گیا۔

مقدس ہونے کا یہ تصور پاکستان میں بھی کسی حد تک نصابِ تعلیم میں نظر آتا ہے۔ علمی زبان میں اسے نیشنل ازم کہتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں نیشنل ازم کے بھی بے شمار تصورات موجود ہیں۔ جیسے مذہب کے فرقے ہیں، ویسے ہی نیشنل ازم کی تعریف کی بنیاد پر قومیتوں کا وجود ہے۔

پڑھیے: پاکستان کا فرسودہ تعلیمی نصاب

پاکستان کے ہر صوبے میں نیشنل ازم کی اپنی اپنی تعریف ہے اور اس نیشنل ازم کے تصور نے لسانیت کو فروغ دیا ہے جب کہ تاریخ، معاشرتی علوم اور مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے، اس میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جارہا ہے۔ پاکستان کے اسکولوں اور کالجوں میں پڑھائی جانے والی نصابی کتب میں تاریخِ پاکستان کو مسلم لیگ سے ہی جوڑا جاتا ہے، اور اس کے ارد گرد جو کچھ ہوا وہ ہمارے بچوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا۔

نصاب میں پڑھایا جاتا ہے کہ تاریخِ پاکستان کا آغاز محمد بن قاسم سے ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعد درمیان کے ہزار سال نکال کر اس خطے کی تاریخ کا آغاز سر سید احمد خان سے شروع کر دیا جاتا ہے۔ اس ہزار سال کے دوران کیا ہوا کس نے حکومت کی اور پھر کس طرح سے مسلمان زوال پذیر ہوئے اس حقیقت کو چھپایا جاتا ہے۔ اس خطے میں جو جنگِ پلاسی ہوئی، جنگِ پانی پت ہوئی، جنگِ آزادی ہوئی، 1930ء کے قحط بنگال کے باعث لاکھوں افراد کے موت کی آغوش میں جانے کا ذمہ دار کون تھا، یہ حقائق نہیں پڑھائے جاتے۔

ہمارے طلباء کو یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ 1857ء میں لڑی جانے والی جنگِ آزادی میں دشمن کون تھا اور اس جنگ میں پچاس ہزار علماء کرام کو کیوں قتل کیا گیا تھا۔ تاریخ کی نصابی کتب میں میڑک تک جو کچھ پڑھایا جاتا ہے اس میں یا تو حقائق چھپائے گئے ہیں یا پھر حقائق کو سرکاری سطح پر اپنی مرضی کے مطابق ترتیب دیا جاتا ہے۔ تاجِ برطانیہ یا پھر انگریزوں کے خلاف چلائی جانے والی تحریکیں ہمیں پڑھائی نہیں جاتیں، یہ تضاد کیوں ہے؟

مزید پڑھیے: خفیہ نصاب

نوے سالہ انگریز حکومت کے دوران جو کچھ اس خطے کی معیشت کے ساتھ کیا گیا وہ کیوں نصابی کتابوں میں شامل نہیں؟ مسلمانوں پر سرکاری نوکریاں کس نے اور کیوں بند کی تھیں؟ نصابی کتب میں ہمیں کیوں نہیں بتایا جاتا کہ لاہور میں کس کی صدارت میں برصغیر پاک و ہند کا پہلا مشاعرہ ہوا تھا جس میں انگریزوں کو خراج تحسین پیش کر کے انہیں باعث رحمت قرار دیا گیا تھا۔

جس ادھوری تاریخ کے انجکشن ہمارے بچوں کو نصابی کتب کے ذریعے سے لگائے جارہے ہیں، اس سے نوجوان نسل کے ذہن بیمار ہورہے ہیں۔ جو نوجوان اس خطے کی تاریخ پر مبنی کتابیں پڑھتا ہے تو اس پر حقیقت کچھ اور عیاں ہوتی ہے، جبکہ اسے پڑھایا کچھ اور گیا ہوتا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد کی تاریخ کو بھی درست انداز میں نصابی کتب کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

ہمیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ لیاقت علی خان کے قتل کے پیچھے کون تھا؟ قائد اعظم محمد علی جناح کی گیارہ اگست کی پوری تقریر کو نصاب کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔ ہمیں یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ 1956ء تک آئین پاکستان بنانے میں کون رکاوٹ تھا، یا پھر یہ کہ مشرقی پاکستان الگ ہو کر بنگلہ دیش کیوں بنا؟ کون کون پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پیسوں کے عوض بِکتا رہا اور کون کون غداری کرتا رہا، یہ سب نصابی کتب سے کیوں چھپایا گیا ہے؟

حب الوطنی کا جذبہ نصابی کتب کے ذریعے سے پروان چڑھتا ہے لیکن نوجوان نسل میں اس جذبے کا عالم یہ ہے کہ وہ بہتر مستقبل کے لیے پاکستان سے فرار ہونا چاہتی ہے۔ نصابی کتب میں قیام پاکستان سے پہلے کی بھی ادھوری تاریخ پڑھائی جاتی ہے، جو جھوٹ پر مبنی ہے اور قیام پاکستان کے بعد بھی جھوٹ کا سہارا لیا گیا ہے۔ معروف مورخ ڈاکٹر مبارک علی نے 'نصاب اور تاریخ' جبکہ کے کے عزیز نے اپنی کتاب 'مرڈر آف ہسٹری' میں اس قسم کی جھوٹی تاریخ کے بے شمار حوالے درج کیے ہیں۔

مزید پڑھیے: پاکستانی تدریسی کتب میں شامل بڑے جھوٹ

عزت مآب جناب وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے نصابی کتب کو از سر نو لکھنے کا حکم دیا ہے اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو ہدایت کی ہے کہ تاریخ، مطالعہ پاکستان اور معاشرتی علوم کی کتابوں کو تبدیل کیا جائے۔ اب اس حکم کے پیچھے کون سی منطق ہے، اس پر فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ چنانچہ اس کے لیے ہمیں نئی چھپنے والی کتابوں کا انتظار کرنا ہوگا۔ ان کتابوں کو صوبے اپنے اپنے بورڈز کے ذریعے سے قانونی طور پر نافذ کرنے کے پابند ہیں یا نہیں، اس کی پیچیدگیاں بعد میں سامنے آئیں گی۔

نصاب تعلیم میں پہلے ہی بے شمار تضادات موجود ہیں اور اب نصاب تعلیم میں صوبائیت کا عنصر غالب آنے کا بھی خطرہ ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد اب ہر صوبے نے اپنا اپنا نصاب تعلیم مرتب کرنا ہے۔ کون چیک کرے گا کہ یہ نصاب تعلیم دیگر صوبوں سے متضاد نہیں؟

میرا خیال یہ ہے کہ ہر صوبے میں الگ نصابِ تعلیم کے بجائے ایک ہی نصاب بنایا جائے، تاکہ ملک کے تمام حصوں میں رہنے والے طلبا کی ذہنی نشونما اور معلومات ایک جیسی ہوں۔ اس سے اس بات کو یقینی بنایا جاسکے گا کہ ایک دور دراز علاقے کے بچے کو بھی وہی معلومات حاصل ہوں، جو کسی بڑے شہر میں رہنے والے بچے کو۔ اس کا لازمی فائدہ یہ ہوگا کہ دونوں بچے آپس میں مقابلہ کرسکیں گے جو کہ مختلف نصابوں کی وجہ سے ممکن نہیں۔ اعلیٰ تعلیمی حکام کو اس معاملے پر ضرور سوچنا چاہیے۔


Read Comments