کرکٹ کٹ کی رونمائی اور آفریدی کی سیلفی
پچھلے ہفتے مجھے پاکستانی کرکٹ کے شائق کی حیثیت سے اپنی ایک سادہ سے خواہش پوری کرنے کا موقع ملا۔ مجھے پاکستان کی ورلڈ کپ 2015 کے لیے آفیشل کِٹ کی تقریبِ رونمائی میں شرکت کی دعوت دی گئی۔
میزبان PepsiCricket# تھا، جبکہ انتظام JBnJaws# نے کیا تھا۔ یہ ایک دلچسپ اور کچھ حد تک زبردست تجربہ بھی تھا۔
کھلاڑیوں کی کِٹ، جو کہ تقریب کا خاصہ تھی، کے حوالے سے زیادہ تر سسپنس پہلے ہی ختم ہوچکا تھا، کیونکہ نیوز چینلز والوں نے فیکٹری تک رسائی حاصل کر کے یونیفارم کی تصاویر دنیا بھر میں نشر کردی تھیں۔
لیکن اس کے باوجود جب ہم ایونٹ میں پہنچے تو سب ہی پرجوش نظر آرہے تھے۔
وہاں پر صحافیوں کی پوری فوج موجود تھی جبکہ سوٹ میں ملبوس نوجوان بھی تھے جن کے آس پاس پیپسی کے بڑے بڑے ٹنوں میں نقلی درخت کھڑے کیے گئے تھے، جبکہ ایک ڈی جے بھی تھا جو پچھلے ورلڈ کپ کے ترانوں اور کرس اساک کے وِکِڈ گیمز جیسے گانے بار بار چلائے جارہا تھا۔ ٹیم اور اس کے پراسٹارز کے درمیان موجود رشتے کو دیکھا جائے، تو اس رات کے لیے یہی سب سے بہتر میوزک چوائس تھی۔
لاہوری شادیوں کے وقت پر شروع اور ختم ہونے والے کلچر سے متاثر یہ تقریب بھی اپنے مقررہ وقت کے مطابق رہی، کیونکہ کرکٹرز بالکل مقررہ وقت پر پہنچنا شروع ہوگئے تھے۔ بڑی اسکرین اور جیمز بانڈ کے داخلے والے لے آؤٹ والا اسٹیج بھی زبردست تھا، اور ڈیکوریشن اور لائٹس بھی بالکل موقع سے مناسبت رکھتی تھیں۔
| |
لیکن ایسا لگا کہ تقریب کے میزبان، مشہور موسیقار اور اداکار احمدعلی بٹ نے تیاری کے لیے زیادہ وقت نہیں لگایا تھا۔
ایسا لگ رہا تھا جیسے بٹ صاحب کا فی البدیہہ مذاق والا ہنر کہیں گم ہوگیا ہے۔ وہ سب کھلاڑیوں سے صرف ایک ہی سوال پوچھتے نظر آئے کہ آیا خواتین پرستار انہیں واٹس ایپ پر میسج کرتی ہیں یا نہیں۔ بار بار یہی سوال دہرایا جاتا رہا، اور حاضرین صرف اس لیے برداشت کرتے رہے کیونکہ زیادہ تر کھلاڑیوں کے پاس اس سوال کے مزاحیہ جوابات موجود تھے۔
عرفان نے اپنے قد کے بارے میں مذاق کیا، جبکہ جنید نے بٹ کے موٹاپے کا مذاق اڑایا۔ یہاں تک کہ جذبات سے عاری لگنے والے مصباح الحق نے بھی کچھ ذہین طنز کیے، اور لوگوں کو خاموشی سے یاد کروا دیا کہ انہیں صرف ان کی آواز اور ان کے فرنٹ فوٹ ڈیفنس کے حوالے سے ہی نہیں پرکھنا چاہیے۔
لیکن قابلِ مذمت بات یہ ہے کہ زیادہ تر لطائف جلد ہی پختونوں کے بارے میں ہم جنسی اور لسانی تبصروں میں تبدیل ہوگئے۔ یہ اس طرح کے لطیفے تھے جو اب لوگ ایس ایم ایس پر بھی بھیجنا چھوڑ چکے ہیں، لیکن میزبانوں نے بار بار یہی لطیفے دہرائے۔ ہر تبصرہ پچھلے تبصرے سے زیادہ قابلِ مذمت تھا، اور اس پوری صورتحال کو مزید بدمزہ کرنے کے لیے یہ حقیقت کافی تھی کہ ٹیم کا بڑا حصہ جو صرف کچھ فٹ دور ہی بیٹھا تھا، پختون کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہے۔
اچھے لطائف کا نہ ہونا ایک بات ہے، مگر زبردستی ایسے لطائف بنانا جو دوسروں کو ناگوار گزریں، یہ اور بات ہے۔
اور ہاں، ایک ساتھی میزبان نے تو فاسٹ بولروں کے ہاتھوں ایک آسٹریلوی بیٹس مین کے 'قتل' پر بھی لطیفہ بنا ڈالا۔ مجھے تو سمجھ ہی نہیں آیا کہ آخر جواب کس طرح دیا جائے۔
مایوس کن بات یہ تھی کہ ایونٹ کے لیے جمع ہوئے زیادہ تر اسٹارز، جن میں فواد خان، قرۃ العین بلوچ، جنید یونس، امانت علی خان، نبیل شوکت، انوشے خان اور دیگر شامل تھے، ایونٹ میں جوش اور توانائی بھر دینے میں ناکام رہے۔ شاید یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ پاکستان کی میوزک انڈسٹری کی حالت زار کیا ہے، جو سکڑ چکی ہے اور ایسے کوئی اسٹارز پیدا نہیں کر رہی جو لوگوں میں کھلاڑیوں ہی کی طرح مقبول ہوں۔
کچھ ہی وقت پہلے کی بات ہے کہ پیپسی کے کرکٹ اور میوزک روسٹرز میں اسٹارز تقریباً ایک ہی جتنی شہرت رکھتے تھے، لیکن کرکٹ ٹیم اب بھی اپنے کتنے ہی اسٹار کھلاڑی کھو دینے کے باوجود ان دیگر ٹی وی و میوزک اسٹارز سے زیادہ مقبول رہی۔
تقریب کا اختتام علی عظمت کی پرفارمنس سے کرنا ہی شاید سب سے موزوں تھا، کیونکہ جب انہوں نے آخری بار مشہور ورلڈ کپ گانا ریلیز کیا تھا، تب شاہد آفریدی نے اپنا کریئر شروع بھی نہیں کیا تھا۔
لیکن شاہد آفریدی پھر بھی محفل لوٹ لینے میں کامیاب رہے۔ کرکٹر آفریدی اشتعال انگیز حد تک غیر مستقل مزاج کے مالک ہیں، لیکن یہاں پر انہوں نے کوئی بھی موقع نہیں چھوڑا، اور ایک بہترین سماجی پرفارمنس دی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ اپنی اچھی شکل و صورت کا استعمال فلم کریئر شروع کرنے میں استعمال کریں گے، تو ان کا جواب تھا 'میں صرف ایک اچھا مسلمان بننا چاہتا ہوں۔'
لیکن بوم بوم آفریدی نے اپنی اسٹار پاور کا مظاہرہ تب کیا جب انہوں نے ٹیم سیلفی لی۔
کٹس کا ڈیزائن بالکل اسی طرح تربوز جیسا تھا، جو ایک دن پہلے ہی سوشل میڈیا پر دکھایا گیا تھا۔
لیکن اس کے باوجود یہ اتنا برا بھی نہیں لگا۔
ایک بات تو یہ کہ The Final Countdown کے بجائے جانے کے دوران ٹیم کا مارچ کرتے ہوئے اپنی پوزیشنیں لینا واقعاً جوش بھر دینے والا تھا۔
آفریدی کو پھر ایک فون تھمایا گیا، اور جیسے ہی انہوں نے اسے بلند کیا، تو احمد شہزاد اور عمر اکمل ایسے ان کے گرد جمع ہوگئے جیسے انہیں معلوم تھا کہ کیا کرنا ہے۔ پھر باقی کی ٹیم بھی فوراً جمع ہوگئی اور نتیجے میں حاصل ہونے والی تصویر نے ٹیم کی کٹس سے لے کر خوش مزاجی تک ہر چیز کو حقیقت سے کئی گنا بہتر کر دکھایا۔
ہاں یہ ہے کہ صرف آفریدی ہی اکیلے اسٹار نہیں تھے، اپنی دلفریب مسکراہٹ اور موڈ کے ساتھ لگتا ہے کہ یاسر شاہ بھی لیجنڈ بننے والے ہیں۔ تقریباً سب ہی بولرز کے پاس کچھ زبردست جوابات تھے، جو ان کی صلاحیتوں کا اظہار ہے۔
محمد حفیظ اچھے لگ رہے تھے، لیکن انہوں نے اپنے معمول کے مطابق کچھ بھی یادگار نہیں کیا، ہاں ان کی اہلیہ نے میزبانوں کے سوالات کا بڑے دلچسپ انداز میں رخ موڑا۔
احمد شہزاد کافی پر اعتماد اور فخریہ نظر آئے، جبکہ یونس خان نے ایک بار پھر دکھا دیا کہ کس طرح وہی وہ شخصیت ہیں جس کی اس قوم کو ضرورت ہے۔
ایک پرستار کی حیثیت سے میں خود کو اسٹارز کے درمیان پا کر بہت خوش تھا، اتنا کہ میں نے تقریب کے بعد مفت کھانے کی افراتفری کو چھوڑ کر نکل جانا بہتر سمجھا کیونکہ اسٹارز کو دیکھ لینا بہت تھا۔ لیکن میں ضرور ان کارپوریٹ اسپانسرز کو کچھ تنقیدی مشورے دینا چاہتا ہوں جو اس طرح کے ایونٹس منعقد کرتے ہیں۔
سب سے پہلے تو انہیں تھوڑا سمجھدار ہونا پڑے گا۔ کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ کسی قومی اسٹار کو اسٹیج پر بلا کر کسی کولڈ ڈرنک کے بارے میں تفصیل سے رائے لی جائے۔ اس کے علاوہ مجھے لگتا ہے کہ دوسرے ممالک کے ٹیم کپتان کارپوریٹ شخصیت کو آفیشل شرٹ دیتے ہیں، جبکہ یہاں معاملہ الٹ تھا۔
اسی طرح میزبانوں کو ایونٹ میں دلچسپی لیتے ہوئے اس مذاق سے آگے بڑھنا ہوگا جو وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ شاید ان کا ایکٹ اسی طرح پلان ہونا چاہیے جس طرح اسٹیج اور لائٹنگ پلان کی جاتی ہے۔
لیکن سب سے اہم یہ کہ یہ سب کئی اداروں کے آپس میں رابطے کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اگلی بار کِٹ کی رونمائی ہونے سے پہلے ہی اس کا ڈیزائن لیک نہ ہوجائے۔