Dawn News Television

اپ ڈیٹ 04 جولائ 2015 05:14pm

شیخ بھرکیو: 'یہ پیر صرف میرا ہے'

پچھلے سال میرا شیخ بھرکیو قصبے میں شیخ بھرکیو کے مزار پر جانا ہوا۔ یہ سندھ میں حیدرآباد سے 30 کلومیٹر دور ہے۔ اس مزار پر یہ میرا پانچواں چکر تھا جو میں نے اپنی کتاب Sufis, Saints and Shrines: A Journey into the Sufi landscape of Sindh کے لیے کیا۔

جب میں بزرگ کے مزار میں داخل ہوا، تو ایک بوڑھی عورت نے چلا کر مجھے پہلے اجازت لینے کے لیے کہا۔ انہوں نے مجھے تب تک رکنے کے لیے کہا جب تک وہ مزار کا فرش صاف نہیں کر لیتیں۔ پھر ایک پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگیں:

یہ پیر صرف میرا ہے۔ تمہیں میری اجازت لینی ہوگی۔

میں دروازے پر کھڑا ان کی اجازت کا انتظار کرتا رہا، اور وہ واپس فرش صاف کرنے میں جت گئیں۔ میں حیران تھا کہ وہ پہلے سے چمکدار فرش کیوں صاف کر رہی ہیں۔

جب وہ اپنا کام ختم کر چکیں اور مجھے اندر جانے کی اجازت ملی تو میں نے ان سے اس بارے میں دریافت کیا۔ "میں جانتی ہوں کہ یہ صاف ہے، لیکن میں جب بھی یہاں آتی ہوں، تو مجھے قبر اور فرش کو مور کے پروں سے صاف کر کے سکون ملتا ہے۔"

سندھ کے تقریباً ہر مزار پر آپ کو اس طرح کے عمر رسیدہ افراد ضرور ملیں گے، جو یا تو دیواروں سے ٹیک لگائے بیٹھے ہوتے ہیں، قرآن پڑھ رہے ہوتے ہیں، یا مزار کے فرش پر سو رہے ہوتے ہیں۔ یہ مزارات ان کے لیے ایک پناہ کی طرح ہوتے ہیں۔

ٹنڈو اللہ یار سے 25 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع شیخ بھرکیو کا مزار سندھ میں سہروردی سلسلے کا اہم مرکز ہے۔

میں ہمیشہ مزارات کے دہرے تشخص سے متاثر ہوا کرتا ہوں۔ اس مزار کے سجادہ نشین نے مجھے بتایا کہ شیخ بھرکیو کی تعظیم ہندو بھی کرتے ہیں، اور انہیں راجا ویر کہتے ہیں۔

تقسیمِ ہند سے قبل میلے کے دوران ہندو یہاں بڑی تعداد میں آتے۔ اب صرف چند گھرانے ہی مزار پر آتے ہیں، اور ان میں بھی اکثریت ہندوؤں کی نچلی ذات کی ہوتی ہے۔

دہرے تشخص والا یہ سندھ کا واحد مزار نہیں ہے۔ زیریں سندھ میں ایسے درجنوں مزارات ہیں۔ مثال کے طور پر شیخ طاہر کو ان کے ہندو عقیدت مند اُڈیرو لعل کہتے ہیں، پیر پَٹھو کو ان کے مسلمان عقیدت مند مخدوم نعمت اللہ کہتے ہیں، منگھو پیر ہندو ناتھ یوگیوں کے لیے لالہ جسراج تھے، تو سامارو (عمر کوٹ) میں رام جگو کو مخدوم شفیق الرحمان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

شیخ بھرکیو سہروردی سلسلے کے بزرگ تھے۔ وہ سولہویں صدی کے تھے، اور انہوں نے سندھ، پنجاب، کچھ، اور گجرات کے کئی علاقوں میں سفر کیا اور بڑی تعداد میں لوگوں کو مسلمان کیا۔

سندھ میں سہروردی مزارات کا ایک منفرد خاصہ وہاں موجود بڑی مساجد اور مقبرے ہیں، جنہیں سیرامک اور پینٹنگز سے سجایا جاتا ہے۔ شیخ بھرکیو میں بزرگ کے مقبرے کے علاوہ دو مساجد موجود ہیں۔

مزار ہالہ کی مشہور کاشی کی ٹائلز سے سجایا گیا ہے۔ مقبرے کے اندر اعلیٰ ذوق کی پینٹنگ کی گئی ہے، لیکن حال ہی میں وائٹ واش کر دیا گیا ہے جس سے پینٹنگز کی خوبصورتی ماند پڑ گئی ہے۔ اس کے علاوہ تین گنبد والی قریبی مسجد کا اندرونی حصہ بھی وائٹ واش کر دیا گیا ہے۔

مسجد کی محراب پر اللہ کے نام پینٹ کیے گئے ہیں۔

خوش قسمتی سے قریب کی ایک اور مسجد اپنی اصل خوبصورتی کے ساتھ برقرار ہے۔ مسجد کی دیوار پینٹ کی گئی ہے جبکہ چھت سیرامک سے سجائی گئی ہے۔ لکڑی کے ستون اور جالی کا کام نہایت دیدہ زیب اور منفرد ہے، اور سندھ کے تمام سہروردی صوفیاء کی مساجد اور مزارات پر پایا جاتا ہے۔

اس طرح کے دیگر سہروردی مزارات ضلع ٹنڈو اللہ یار میں بکیرا شریف اور کامارو شریف میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

میں جب بھی مزار پر گیا ہوں، تو ہندو اور مسلم مردوں اور عورتوں کو شیخ بھرکیو کے مزار پر اکٹھے دیکھا ہے، یہ سب ہی کے لیے پریشانیوں کی دھوپ میں راحت کے سائے جیسا ہے۔

میں جب مزار سے نکل رہا تھا، تو ایک ہندو عورت کو کہتے ہوئے سنا:

"یہ پیر صرف میرا ہے۔"

— تصاویر بشکریہ لکھاری

انگلش میں پڑھیں۔


ذوالفقار علی کلہوڑو اینتھروپولوجسٹ ہیں، اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس اسلام آباد میں ٹورازم، گلوبلائزیشن، اور ڈویلپمنٹ پڑھاتے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: Kalhorozulfiqar@

Read Comments