زمرد پاکستان کا مگر نام ہندوستان کا
سوات یوں تو اپنی خوبصورت وادیوں اور سرسبز میدانوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے، لیکن سوات کی ایک ایسی سبز چیز بھی ہے، جو نہایت خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ بے پناہ قیمتی بھی ہے۔ یہ سوات کے علاقے مینگورہ کی کانوں سے نکلنے والا زمرد (ایمیرالڈ) پتھر ہے، جس کی مانگ دنیا بھر میں ہے۔
زمرد کی یہ کان مینگورہ شہر میں دریائے سوات کے کنارے پہاڑوں میں لگ بھگ 182 ایکڑ رقبے پر پھیلی ہوئی ہے، مگر آج کل اس کے صرف بیس ایکڑ رقبہ پر کھدائی کا کام جاری ہے۔ اپنے انفرادی رنگ، روشنی، اور اندر نظر آنے والی پانی نما جھلک کی بدولت دنیا بھر میں مشہور سوات کی کانوں کا سبز رنگ کا قیمتی پتھر ’’زمرد‘‘ بدقسمتی سے حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے قیمتی پتھروں کی منڈی میں ’’ہندوستانی زمرد‘‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔
ملک میں کٹنگ سنٹر کے نہ ہونے کی وجہ سے ’’سبز سونا‘‘ کہلایا جانے والا قیمتی پتھر غیر ملکی منڈیوں میں اونے پونے داموں فروخت ہوتا ہے۔
کان کی دریافت کے حوالے سے عرصہء دراز سے معدنیات کا کاروبار کرنے والے انور حیات (چیف ایگزیکٹو سوات مائننگ کارپوریشن) کہتے ہیں کہ "58-1957 میں ایک ہندو نے یہاں زمرد کی کانوں کی نشاندہی کی تھی۔ پھر اس کی دریافت کے بعد والیء سوات باقاعدہ طور پر ہر سال اسے لیز پر دیا کرتے تھے۔ زمرد کی کان دراصل مینگورہ شہر کے شاملات کا حصہ تھی۔ اس لیے جیسے ہی منافع حاصل ہوتا، تو والیء سوات شاملات کے مالکان کو بلوا لیتے اور ان کے سامنے رائلٹی والی رقم رکھ کر کہتے کہ اس میں آپ لوگوں کا اتنا حصہ بنتا ہے، لیکن اس وقت ان عوام کی طرف سے یہ حصہ لینے سے انکار کیا گیا۔ والیء سوات وہ رقم باقاعدہ طور پر میونسپل کمیٹی کو دیا کرتے تھے۔ تاکہ مینگورہ کی ترقی، صفائی، اور آرائش و زیبائش پر یہ رقم خرچ ہو۔ پھر جیسے ہی 1971 میں ریاست سوات کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہوا، تو اس کان کو ایک وفاقی ادارے 'جیم اسٹون کارپوریشن' کے حوالے کیا گیا۔