Dawn News Television

اپ ڈیٹ 29 اگست 2015 03:35pm

پہلی جنگلات پالیسی ایک مثبت قدم مگر...

ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں تیزی سے کم ہوتے جنگلات کے رقبے کو اس وقت تک نہیں بڑھایا جا سکتا جب تک اس سلسلے میں صوبائی حکومتوں کا تعاون حاصل نہیں کر لیا جاتا۔

اس سال جولائی میں پاکستان نے اپنی پہلی قومی جنگلات پالیسی کا اعلان کیا ہے جس کے تحت مزید درخت لگانے، اور موجودہ جنگلات میں غیر قانونی کٹائی کو روکنے کے ساتھ ساتھ جنگلات کو لکڑی مافیا سے محفوظ بنانے جیسے اقدامات اٹھانے کا عہد کیا گیا ہے۔

تاہم اس پالیسی کو صوبائی حکومتوں کے تعاون، پرائیویٹ سیکٹر اور مقامی لوگوں کی مشاورت کے بغیر ہی تشکیل دیا گیا ہے، جسکی وجہ سے ماہرین کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت اس پالیسی کو اس وقت تک عملی جامہ نہیں پہنا سکتی، جب تک تمام صوبائی حکومتیں اپنے اپنے سالانہ بجٹ میں جنگلات کے لئے فنڈز مختص نہیں کرتیں۔

آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد 2010 میں پاکستان کی وفاقی وزارت برائے ماحولیات صوبائی حکومتوں کو منتقل کر دی گئی جس کے مطابق محکمہ جنگلات بھی صوبائی حکومتوں کے ماتحت کر دیا گیا ہے اور صوبائی حکومتوں کے تعاون کے بغیر وفاقی حکومت اب اس پالیسی پر عمل درآمد کروانے کے لیے بے بس ہے۔

نئی جنگلات پالیسی ایک ایسا فریم ورک مہیا کرتی ہے جس کے تحت ملک بھر میں جنگلات کے تحفظ کے حوالے سے ہونے والی کوششوں کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کیا جا سکتا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں جنگلات کا رقبہ سب سے کم ہے، یعنی صرف 5 فیصد، اور جنگلات کے کٹاؤ کا تناسب تقریبا 27 ہزار ہیکٹر سالانہ ہے، اور اس کی سب سے بڑی وجہ آبادی میں تیزی کے ساتھ اضافہ، لکڑی کی بڑھتی ہوئی طلب، اور ٹمبر مافیا کو کنٹرول کرنے جیسی حکومتی ناکامیاں شامل ہیں۔

پڑھیے: چکلالہ کا جنگل اور مانکیالہ کی توپ

ملک کے شمال میں واقع گلگت بلتستان اور خیبر پختونخواہ صوبوں میں جنگلات پر دباؤ کافی زیادہ ہے اور ان ہی علاقوں میں حال ہی میں آنے والے سیلاب اور دوسری قدرتی آفات کی بڑی وجوہات میں سے ایک وجہ جنگلات کا تیزی سے کٹاؤ بھی بتایا جاتا ہے۔

نئی پالیسی کے مطابق پاکستان میں جنگلات کے رقبے کو اگلے 15 سالوں میں 5 فیصد سے 9 فیصد تک بڑھانا ہے۔ اس پالیسی کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس بات کی بھی پابند ہیں کہ وہ کوئی بھی نیا منصوبہ شروع کرنے سے پہلے ماحول پر اس کے ممکنہ منفی اثرات کی رپورٹ حاصل کریں گی۔

قدرت کے تحفظ کے بین الاقوامی ادارے 'آئی یو سی این' کے عالمی نائب صدر اور خیبر پختونخواہ کے پروگرام گرین گروتھ کے سربراہ ملک امین اسلم کا کہنا ہے کہ نئی پالیسی میں جنگلات کے تحفظ کے لیے ریڈ پلس جیسے نئے اقدامات بھی شامل کیے گئے ہیں۔ سرحد کے آس پاس ایکولوجیکل کوریڈورز کا قیام اور جنگلات کی کٹائی روکنے کے لیے مقامی لوگوں کو مراعات دینے جیسے اچھے اقدامات بھی اس پالیسی کا حصہ ہیں۔

اسلم کا کہنا ہے کہ ہمارے جنگلات میں موجود کاربن کی سائنسی بنیادوں پر پیمائش اور پھر اس کاربن کو نئے درخت اگا کر کم کرنے جیسے اقدامات بھی نئی پالیسی کا حصہ ہیں جنہیں سراہا جانا چاہیے اور انہیں عملی طور پر نافذ کرنے کے لیے بھی فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

حیرت انگیز: دنیا کے 16 شاندار درخت

اسلم کا یہ بھی کہنا ہے کہ پالیسی میں کچھ نئے ادارے بنانے کی بھی بات کی گئی ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ نئے ادارے بنانے کے بجائے موجودہ اداروں کی فنڈنگ بڑھائی جائے اور انہیں مضبوط کیا جائے۔

لیڈ پاکستان کے چیف ایگزیکٹو افسر اور کلائمیٹ ڈویلپمنٹ نالج نیٹ ورک کے ایشیاء ڈائریکٹرعلی توقیر شیخ کا کہنا ہے کہ جنگلات کی نئی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وفاقی وزارت برائے ماحولیاتی تبدیلی کو چاہیے کہ وہ صوبائی حکومتوں، نجی شعبے، اور مقامی لوگوں کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کرے۔

ان کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت صوبوں کو اس بات پر راضی کرے کہ وہ اپنے سالانہ بجٹ میں جنگلات کی پالیسی پر عمل کرنے کے لیے مخصوص فنڈز مختص کریں گے، جبکہ اسلم کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کو اس بات کا بھی پابند بنائے کہ وہ ہر نیا منصوبہ شروع کرنے سے پہلے ماحول پر اس کے منفی اثرات کی رپورٹ حاصل کرے گی اور کاربن کی مقدار جاننے کے لیے پالیسی میں موجود نئی ہدایات پر بھی عمل کیا جائے گا۔

جنگلات کی اقتصادی قیمت جاننا بھی بے حد ضروری ہے اور جنگلات کے تحفظ اور اس کی کٹائی روکنے کے ساتھ اس کو براہ راست منسلک کردینا چاہیے۔

گلوبل فاریسٹ واچ کے مطابق پاکستان کے جنگلات میں کل 21 کروڑ 30 لاکھ میٹرک ٹن کاربن کے ذخائر موجود ہیں اور یہ ملک میں جنگلات اور زمین کا استعمال تبدیل ہونے سے پیدا ہونے والی گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کا کل 6.6 فیصد ہے، اور 2011 میں محکمہ جنگلات کا ملکی معیشت میں 1.3 ارب ڈالر کا حصہ ہے جو کہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا 0.6 فیصد بنتا ہے۔

جانیے: محکمہ جنگلات کی ذمہ داری درخت بچانا یا کاٹنا؟

ماہر ماحولیات ڈاکٹر قمرالزمان چودھری کا کہنا ہے کہ جنگلات کی کمی والے ملک ماحولیاتی تبدیلی سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں بڑے پیمانے پر شجرکاری کی جائے اور اسی طرح قومی جنگلات پالیسی کا نفاذ بھی ملک کی ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان جنگلات کی زمین کو زرعی زمین میں تبدیل ہونے سے بچانے کی کوشش کرتا ہے اور جنگلات سے اپنی روزی حاصل کرنے والی مقامی آبادیوں کی ضروریات کو متبادل ذرائع سے پورا کرتا ہے تو پھر یہ آسانی کے ساتھ بین الاقوامی طور پر موجود اقتصادی وسائل سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

پاکستان اقوام متحدہ کے پروگرام ریڈپلس اور اسی طرح کے دوسرے بین الاقوامی وسائل سے فوائد آسانی کے ساتھ اس لیے بھی اٹھا سکتا ہے کیونکہ اس طرح کے اقدامات کو اب باقاعدہ قومی جنگلات پالیسی کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ چودھری کا کہنا ہے کہ یہ اب صوبوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی سرمایہ کار دوست پالیسیاں بنائیں جس سے وہ ریڈپلس جیسے اقدامات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں۔

پڑھیے: پنجاب کے طلبا کی شجرکاری مہم

وزارت برائے ماحولیاتی تبدیلی کے سیکرٹری عارف احمد خان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ صوبائی حکومتیں وفاقی حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کررہی یہ جانتے ہوئے بھی کہ جنگلات کا بچاؤ ایک قومی مسئلہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی وزارت نے اس پالیسی پر صوبوں کی رائے حاصل کرنے کے لیے تمام صوبوں کے چیف سیکرٹریوں کو علیحدہ علیحدہ خطوط لکھے ہیں لیکن ابھی تک ان میں سے کسی ایک کی طرف سے بھی جواب نہیں ملا ہے۔

قومی جنگلات پالیسی پر اتفاق رائے حاصل کرنے کے لیے عارف احمد خان کی وزارت اس معاملہ کو مشترکہ مفادات کونسل میں لے جانے پر غور کر رہی ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل ایک آئینی ادارہ ہے جو وفاق اور صوبوں کے درمیان متنازع مسائل حل کرنے لیے ایک پلیٹ فارم کا کام کرتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ قومی جنگلات پالیسی کو نافذ کرنے کے لیے انہیں کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں ہے بلکہ جنگلات کے حوالے سے ہمیں بحیثیت قوم اپنا رویہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔

بشکریہ تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ.

Read Comments