Dawn News Television

اپ ڈیٹ 07 ستمبر 2021 03:30pm

ہندوستان انتہاپسند ریاست بننے کے قریب؟

یوں تو اشوک کا نشان ہندوستان کی ریاست کا نشان ہے، اسی اشوک نے 2300 سال پہلے ہندوستان میں مذہبی رواداری کا درس دیا تھا اور کہا تھا کہ "وہ جو صرف اپنے مذہب کی تعظیم کرتا ہے جبکہ دوسرے مذاہب پر ملامت کرتا ہے، اصل میں اپنے ہی عقیدے کو نقصان پہنچا رہا ہوتا ہے"۔ مگر اب ہندوستان میں آئے دن مذہبی انتہا پسندی کے گھناؤنے واقعات پیش آ رہے ہیں۔

جبکہ اس سے بھی کئی سال پہلے مذاہب کی ہم آہنگی کا بیان ہندوؤں کی پاک کتاب رگوید میں بھی ملتا ہے جس میں لکھا ہے کہ "معقول لوگ ایک ہی سچ کو الگ طریقوں سے سمجھاتے ہیں۔"

اس کے علاوہ ہندوستان کی تاریخی بھگتی تحریک اور صوفیوں کا ایک بڑا مقصد مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنا تھا۔ ہندوستان میں آنے والے مسلمان صوفیوں نے بھی اپنے کلام کے ذریعے مسلمان اور دیگر مذاہب کے لوگوں تک امن، بھائی چارے کا درس دیا۔

لیکن ہندوستان میں کچھ ایسے حکمران بھی گزرے ہیں جنہوں نے مذہبی ہم آہنگی کو اپنے عزائم کے لیے مسخ کیا، خصوصاً جو بیرونی ریاستوں سے وہاں حملہ آور ہوئے، جبکہ دوسری طرف ایسے حکمران بھی آئے جنہوں نے مذہبی ہم آہنگی کی مثالیں قائم کی۔

پڑھیے: خوف پھر جیت گیا

لیکن آج اسی سرزمینِ ہندوستان سے ہمیں مذہبی رواداری دھندلی اور انتہاپسندی و عدم برداشت واضح ہوتی دکھائی دیتی ہے، جہاں کا آئین بھی سیکیولر ہے اور جس کے تحت تمام مذاہب کے لوگ اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کا پورا حق رکھتے ہیں۔

ہندوستان کی آزادی سے لے کر اب تک ہندو بنیاد پرستوں کی جانب سے فسادات، خوف اور عدم برداشت کے طویل باب تاریخ کی کتاب میں محفوظ ہیں، جن سے ہندوستان کی سیکیولر پہچان کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ کبھی اچھوتوں کی بستیوں کو جلانا ہو، یا کبھی سکھوں کی عبادت گاہوں پر مسلح آپریشن کرنا ہو، اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کے خلاف انسانیت سوز فسادات ہوں، یا کبھی موجودہ ہندوستانی وزیراعظم کی آبائی صوبے گجرات میں ہندو مسلم فسادات ہوں، بنیاد پرستوں کی پوری کوشش رہی ہے کہ ہندوستان میں ہندو مذہب کے ماننے والوں کے علاوہ ہر کسی پر عرصہء حیات تنگ کر دیا جائے۔

موہن داس گاندھی کے قتل کو بھی ایک طبقہ مذہبی بنیاد پرستی کا سبب سمجھتا ہے۔ کانگریس جماعت سیکیولر ازم کو اہمیت دیتی ہے، اور شاید اس لیے ہی اقلیتوں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ بی جے پی اس سے بلکل مختلف ہے، کیونکہ بی جے پی کی بنیاد ہی بنیاد پرستی نظریات پر ہے۔

میں یہاں ہندو بنیاد پرست قوم پرستی کا ذکر اس لیے کرنا ضروری سمجھوں گا کیونکہ ہندوستان میں ہندو مذہب اکثریت میں ہے، اس لیے ہندوستان میں ہندو بنیاد پرست قوم پرستی سے مذہبی رواداری کا توازن بگڑ سکتا ہے، جس سے نہ صرف ہندوستان کو نقصان ہوگا بلکہ یہ پورے خطے کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا کیونکہ جب پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں پر بھی کچھ انتہا پسند مذہب کا لبادہ اوڑھے انتہا پسندی کو فروغ دے رہے ہیں جن سے پاک افواج دلیری کے ساتھ لڑ رہی ہیں۔

ہندو بنیاد پرستی کی بنیاد تقسیمِ ہند سے پہلے ہی تاریخ میں ملتی ہے۔ ہندوتوا نظریہ ایک مذہبی بنیاد پرست نظریہ ہے جس نے ہندو قوم پرستی کو تقویت بخشی۔ 1923 میں ویانک دامودر سورکار نے سب سے پہلے لفظ ہندوتوا اپنے ایک پمفلٹ "ہندوتوا: ایک ہندو کون ہے" میں کیا۔ بعد میں یہ نظریہ 1925 میں بننے والی راشٹریہ سوئیم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے اپنایا جس سے اس نظریہ کو سیاسی صورت ملی۔

ہندوستان میں آج بر سرِ اقتدار جماعت بی جے پی 1980 میں اٹل بہاری واجپائی اور لال کرشن آڈوانی کی قیادت میں وجود میں آئی تھی۔ اس جماعت کا قیام بھارتیہ جن سنگھ سے ہوا جو 1951 میں راشٹریہ سئیم سیوک کی سیاسی ونگ تھی۔

مزید پڑھیے: مودی کے ہندوستان میں خوش آمدید

بی جے پی نے ہندو بنیاد پرستوں کو اپنے قریب لانے کے لیے اپنے منشور میں ایسے نقطے شامل کیے تھے جو ہندوستان کے سیکیولر آئین کے منافی تھے جیسے ملک میں گائے ذبح کرنے پر پابندی ہوگی، تمام مذاہب کے لیے نجی خاندانی تنازعات کے لیے ان کے مذہبی عقائد سے جڑے قانونی کوڈ کے برعکس یکساں قوانین کا اطلاق ہوگا، وغیرہ۔

بی جے پی نے اپنے پہلے دورِ اقتدار میں ہندوتوا نظریے کو مضبوط کیا اور اقلیتوں کے امتزاج سے جڑی ثقافت کو ایک جگہ رکھ دیا گیا جس کا مظاہرہ ہندوستان کی موجودہ بی جے پی سرکار نے ایک بار پھر اپنے یوم جمہور کے دن کی پریڈ پر بھی کیا، جو ہندوستانی میڈیا کے نمائندگان نے بھی محسوس کیا۔

لیکن چونکہ ہندوستان اب ڈیجیٹل ہو رہا ہے اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار بھی ہے، اس لیے پورے خطے پر ایک اہمیت رکھتا ہے۔ مگر آج جس جماعت کو ہندوستانیوں نے موقع دیا ہے، اس کے تانے بانے ایک مخصوص طرز کی سوچ رکھنے والے طبقے سے ہیں، ایسا نہ ہو کہ سیکیولر ہندوستان سیفرون بھارت بن جائے۔

ہمیں اس بات پر بھی اتفاق کرنا ہوگا کہ ہندوستان سیکیولر اس لیے ہی ہے کیونکہ وہاں ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد ریاست کی مذہبی معاملات سے علیحدگی اور تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیے برابر حقوق کی حمایتی ہے۔ ہندوستانیوں نے گجرات کی صنعتی ترقی سے متاثر ہو کر مودی کو وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ دیا ہے، نہ کہ گجرات کے ہندو مسلم فسادات میں ان کے کارنامے دیکھ کر۔ مگر اب لگتا ہے کہ بی جے پی حکومت اس بڑی تعداد کو ایک طرف رکھ کر چھوٹی تعداد میں موجود ہندو انتہاپسندوں کو طاقتور بنا کر ہندوستان کو ایک انتہاپسند ریاست میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔

ہندوستان کے وزیرِ اعظم کو چاہیے کہ خطے میں امن کے لیے ہر قسم کی دہشت گردی کے ساتھ ہندوستان میں بڑھتی ہندو بنیاد پرستی کے لیے بھی ٹھوس اقدامات اٹھائیں اور سرحدوں پر بھی جنونیت سے گریز کرتے ہوئے سنجیدہ حکمت عملی سے کام لیں۔ ریاستی سطح پر انتہاپسندی کو فروغ دے کر وہ فی الوقت اپنی حکومت کو مضبوط تو کر لیں گے اور اپنے حمایتیوں اور مخالفین دونوں میں اپنی دھاک بھی بٹھا لیں گے، مگر آنے والے وقت میں ہندو انتہاپسندی کا یہ عفریت ہندوستانی معاشرے کی رگوں میں ایسا سرایت کرے گا کہ اس سے نمٹنا کسی کے بس کی بات نہیں رہے گی۔

Read Comments