Dawn News Television

اپ ڈیٹ 24 نومبر 2015 04:03pm

کراچی کا میئر میرا ہونا چاہیے۔ ۔ ۔

ایک بڑے سے بورڈ پر جملہ تحریر تھا 'میئر تو اپنا ہونا چاہیے' اور اس بورڈ کے فوری بعد ایک اور بورڈ لگا ہوا تھا جس پر جملہ تحریر تھا 'میئر تو دیانت دار ہونا چاہیے' لیکن ان دونوں بورڈز میں فرق یہ تھا کہ ایک پر ایک بابا جی کی تصویر لگی ہوئی تھی جبکہ دوسرے بورڈ پر کوئی تصویر نہیں تھی۔

کراچی والوں کے لیے یہ جاننا کوئی مسئلہ نہیں کہ کون سا بورڈ کس سیاسی جماعت کی نمائندگی کر رہا ہے، البتہ یہ حیرت انگیز ضرور ہے کہ ایک بورڈ پر تو تصویر ہے جبکہ دوسرے بورڈ پر کسی کی تصویر نہیں ہے۔

اس کی بنیادی وجہ زیادہ بڑی تو نہیں ہے لیکن اس کو معمولی بھی قرار نہیں دیا جا سکتا؛ پہلا بورڈ کراچی کی مرکزی شاہراہ شارع فیصل پر متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے لگایا گیا بورڈ تھا جبکہ دوسرا بورڈ جماعت اسلامی کی ترجمانی کر رہا تھا۔

گزشتہ 15 سال میں کراچی میں 2 میئر (سٹی ناظم) رہے ہیں. پہلے جماعت اسلامی نے 4 سال 2001 سے 2005 تک کراچی کی بلدیاتی حکومت سنبھالی جبکہ 2005 سے 2010 تک متحدہ قومی موومنٹ کی بلدیاتی حکومت رہی۔

جماعت اسلامی کے دور میں نعمت اللہ خان سٹی ناظم (میئر) رہے جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کے سٹی ناظم مصطفیٰ کمال تھے۔

کراچی میں ہونے والے 2015 کے بلدیاتی انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے سیاسی نعرہ لگایا جا رہا ہے کہ 'میئر تو اپنا ہونا چاہیے' اور شہر بھر میں اس حوالے سے بل بورڈ لگا دیے گئے ہیں. لیکن ان بل بورڈز پر کہیں بھی مصطفیٰ کمال نظر نہیں آ رہے، جبکہ دوسری جانب کراچی میں ایم کیو ایم کی سب سے بڑی حریف جماعت اسلامی اپنے سابقہ میئر نعمت اللہ خان کی تصاویر بھر پور انداز سے استعمال کر رہی ہے، جبکہ ساتھ ہی یہ نعرہ بھی لگا رہی ہے کہ 'میئر تو ایماندار ہونا چاہیے'۔

یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ فروری 2010 میں جب متحدہ قومی موومنٹ کی بلدیاتی حکومت ختم ہوئی تھی تو جماعت کے سربراہ الطاف حسین کی جانب سے مصطفیٰ کمال کو کراچی میں ایک گھر بطور انعام دیا گیا تھا اور پارٹی نے کہا تھا کہ یہ تحفہ ان کو بے مثال کارکردگی پر دیا گیا ہے، لیکن اب بھلے ہی سیاسی وجوہات کی بنا پر مصطفیٰ کمال کی بے مثال کارکردگی شہریوں کو یاد نہیں کروائی جا رہی، لیکن یہ سوال بہرحال اٹھایا جائے گا اور اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا سیاسی اختلاف کی وجہ سے بے مثال کارکردگی کو بھلا دیا جائے گا؟

کراچی میں 5 سال بعد بلدیاتی حکومت قائم ہونے جا رہی ہے، ایسے میں سیاسی جماعتیں سیاسی نعرے تو بھر پور انداز سے شہر کی شاہراہوں پر آویزاں کرنے میں مصروف ہیں لیکن کوئی بھی آئندہ 4 سالوں کا ترقیاتی پلان شہریوں کو یوں نہیں پہنچا رہا جیسے پہنچایا جانا چاہیے۔

2 کروڑ کی آبادی کے اس شہر میں پانی دستیاب نہیں نہ ہی جلدی ایسی کوئی امید نظر آ رہی ہے کہ شہر کے ہر علاقے کو پانی مل سکے. گاڑیوں کا ایک اژدھام ہے جو سڑکوں پر نظر آ رہا ہے اور سڑکوں کی کشادگی اس کے لیے اب کافی نہیں، شارع فیصل جیسی عام شاہراہ پر بھی صبح اور شام کے اوقات میں ٹریفک جام سے 20 منٹ کا راستہ ایک گھنٹے میں طے ہوتا ہے، سیوریج کا پانی عام گلیوں میں تو ابل ابل کر شہریوں کو پریشان کرتا ہی ہے، بابائے قوم قائد اعظم کے مزار کے سامنے گندا پانی سڑک پر جمع ہو جانا بھی اب معمول کی بات معلوم ہوتا ہے، باقی کے-الیکٹرک پر انگلی اٹھانا جرم ہے کیونکہ اس کی نجکاری ہو چکی ہے لہٰذا اس کو پورا حق ہے کہ شہریوں کو اذیت میں مبتلا رکھے۔

انجینئر نعیم الرحمٰن، جماعت اسلامی
سید علی زیدی، تحریک انصاف
وسیم اختر، متحدہ قومی موومنٹ
نجمی عالم، پیپلز پارٹی

کاش کہ کراچی کی سیاسی جماعتیں عوام کو باشعور سمجھتے ہوئے اپنے اپنے مستقبل کے پلان ان بل بورڈز پر آویزاں کریں، تو شہریوں کو مزید آسانی ہو کہ کس کو ووٹ دینا ہے اور کس کو نہیں دینا۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ابھی تک کسی جماعت کو یہ امید ہی نہیں کہ وہ اس حد تک اکثریت حاصل کر سکے گی کہ شہر کا اگلا میئر اسی جماعت سے ہو گا اسی لیے کسی بھی جماعت نے ابھی تک یہ اعلان ہی نہیں کیا کہ اس کی جانب سے میئر کا امیدوار کون ہو گا۔

کراچی میں بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے اتحاد کیا ہے لیکن دونوں جماعتوں کے اندر یہ بات موجود ہے کہ واضح کامیابی کی صورت میں ان کی جماعت سے میئر سامنے آئے گا، جبکہ قیاس یہ کیا جا رہا ہے کہ جماعت اسلامی کی جانب سے ان کے کراچی کے امیر انجینئر نعیم الرحمٰن میئر کے امید وار ہو سکتے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے کراچی کے آرگنائزر علی زیدی مضبوط امیدوار گردانے جا رہے ہیں، لیکن ان کا ایک مخالف تحریک انصاف کا گروہ موجود ہے جو جماعت اسلامی سے ان کے اتحاد کو درست قرار نہیں دے رہا۔

امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ایم کیو ایم کی جانب سے سندھ کے سابق مشیر داخلہ وسیم اختر میئر کے امیدوار ہوں گے لیکن انہیں تنقید کا سامنا اس لیے کرنا پڑے گا کیونکہ وہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد کی معزولی کے دوران کراچی آمد پر 12 مئی 2007 کو ہونے والی بڑی قتل و غارت پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام رہے تھے اور خود ان کی اپنی پارٹی کے کارکنوں سمیت عوامی نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے 35 ورکر قتل ہوئے تھے۔

اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے میئر کے امیدوار نجمی عالم ہو سکتے ہیں لیکن کراچی میں پیپلز پارٹی کو اس قدر بڑے پیمانے پر کامیابی ملنے کا امکان نہیں کہ وہ میئر لاسکے اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ وہ انتخابات کے بعد کسی جماعت سے اتحاد کرلے۔

مہاجر قومی موومنٹ بھی اس بار انتخابات میں سرگرمیاں دکھانے کی کوشش میں مصروف ہے لیکن اس کو بھی مخصوص علاقوں میں افرادی قوت میسر ہونے کی وجہ سے انہی علاقوں میں ووٹ مل سکیں گے، لیکن یہ بھی اس پوزیشن میں نہیں ہو گی کہ میئر لا سکے، اس لیے مہاجر قومی موومنٹ کی جانب سے بھی کسی شخص کو میئر کا امیدوار نہیں بنایا گیا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن)، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن گروپ)، مسلم لیگ (ق) سمیت کئی دیگر جماعتیں بھی مختلف علاقوں میں میدان میں موجود ہیں۔

کراچی میں انتظامی طور پر 6 اضلاع کراچی شرقی، کراچی غربی، کراچی جنوبی، کراچی وسطی، ضلع ملیر اور ضلع کورنگی ہیں ، الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ان 6 اضلاع میں 5 ہزار 548 امیدوار ہیں، 5 دسمبر کو ان امیدواروں میں مقابلے کے بعد صورتحال واضح ہو جائے گی کہ عوام کس جماعت کے میئر کو شہر میں دیکھنا چاہتی ہے۔

Read Comments