نقطہ نظر

ایک نظریاتی کشمکش

کبھی کبھی کوئی کتاب، فلم یا کوئی ڈرامہ آپ کو اتنا متاثر کرتا ہے کہ آپ اپنے نظریات پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں

کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی کتاب، فلم یا کوئی ڈرامہ آپ کو اتنا متاثر کرتا ہے کہ کہ آپ ثقافت، شناخت اور ایقان سے متعلق اپنے نظریات پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں-

مجھے حال ہی میں اس کا تجربہ "ڈسگریسڈ" (شرمناک) کو دیکھ کر ہوا- ایاد اخترکا لکھا ہوا یہ ڈرامہ جسے پلٹزز پرائزمل چکا ہے، میں نے لندن کے بش تھئیٹر میں دیکھا-

ایاد نیو یارک کے رہنے والے ہیں اور ان کے والدین پاکستانی ہیں- وہ ایک ناول "امریکن درویش" بھی لکھ چکے ہیں-

11 / 9 کے بعد کی دنیا میں مغرب میں بسنے والے مسلمان تارکین وطن خاص طور پر امریکہ میں مجبور کر دئے گئے ہیں کہ وہ خود پر اور اپنے اعتقادات پر نظر ثانی کریں- پہلے تو جب کہ حالات بہتر تھے ان باتوں کو غیر ضروری سمجھاجاتا تھا - لیکن اب یہ باتیں تارکین وطن کے تجربات کا مرکز بن چکی ہیں-

ڈرامہ کا آغاز نیویارک کے ایک اپارٹمنٹ میں امیر کپور کے گھرسے ہوتا ہے جو ایک کامیاب کارپوریٹ وکیل ہے- اسکی آرٹسٹ بیوی ایمیلی امیر کا ایک پورٹریٹ پینٹ کر رہی ہے-

درمیان میں دونوں بات چیت کر رہے ہوتے ہیں جسکا سلسلہ امیر کے ٹیلیفون کالوں سے ٹوٹ جاتا ہے- اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ امیر ایک اعلی درجے کی قانونی فرم میں کام کرنے والا ایک محنتی وکیل ہے-

امیر مسلمان ہے اس کا پتہ ہمیں اس وقت چلتا ہے جب اسکا بھتیجہ ایب کمرے میں داخل ہوتا ہے- ایب کا اصلی نام حسین ہے لیکن اب وہ خود کو ایب کہتا ہے- ایب اورایمیلی امیر سے کہتے ہیں کہ وہ ایک مقامی امام کی مدد کرے جس پرالزام ہے کہ وہ حماس کیلئے فنڈز جمع کررہا ہے-

گفتگو کے دوران امیراپنی بیوی اور بھتیجے سے کہتا ہے کہ اس کے پاس اس مذہب کیلئے وقت نہیں ہے جس میں وہ پیدا ہوا تھا- وہ ایمیلی کو بتاتا ہے کہ زیادہ ترمسلمان گوری عورتوں کے بارے کیا سوچتے ہیں-

''گوری عورتیں اپنی عزت کا احترام کرنا نہیں جانتیں- کوئی کیسے اپنی عزت کرسکتا ہے جب وہ یہ سوچتا ہو کہ وہ اپنے کپڑے اتاردے تاکہ لوگ اسے پسند کر سکیں؟ یہ لوگ -----"

اگلے منظر میں یہ دکھایا جاتا ہے کہ ایمیلی ایک اخبار پڑھ رہی ہے جو عدالت میں امام کے مقد مے کی سماعت کے بارے میں ہے- اس خبر میں یہ بتایا گیا ہے کہ امیر امام کی حمایت کر رہا ہے-

اس خبر کا رد عمل کیا ہوگا ، امیر اس پر پریشان ہوجاتا ہے- "میرا خیال ہے وہ اس نام کو دیکھیں گے اور اگر انہیں کچھ بھی پتہ ہے تو وہ یہ سمجھ جائیں گے کہ یہ نام کسی مسلمان کا نہیں ہے-"

تین مہینے بعد دکھایا جاتا ہے کہ دونوں میاں بیوی رات کے کھانے پرچند مہمانوں کا آنتظارکررہے ہیں- امیر، ایمیلی کو بتاتا ہے کہ اس کی فرم کے ایک پارٹنر نے اس پر الزام لگایا ہے کہ اس نے اپنے والدین کو ہندوستانی ظاہرکرکے اپنی شناخت چھپائی ہے-

نیزاس نے یہ بھی اپنی (یہودی) فرم کو نہیں بتایا ہے کہ اس کا اصلی نام عبداللہ ہے- امیر کو خیال آتا ہے کہ اس کے خاندان کے بارے میں معلومات حاصل ہونے کی وجہ عدالت میں اس کی پیشی ہے-

مہمانوں میں ایک سیاہ فام لڑکی جس کا نام جوری ہے، امیر کے ساتھ کام کرتی ہے- اس کا شوہر آئزک آرٹ کا نقاد ہے اورایمیلی کا دوست ہے-

کھانے کے دوران گفتگو کا رخ ایمیلی کے فن پر اسلامی اثرات کی طرف مڑ جاتا ہے- بس یہاں سے امیر کا اسلام سے تصادم ختم ہوجاتا ہے-

جب امیر یہ کہتا ہے کہ 11 / 9 کو ٹوئن ٹاور کے گرنے کی خبر سن کراسکو ایک فخرکا احساس ہوا تھا تو سب لوگ بھونچکا رہ جاتے ہیں- امیر اور جوری کسی کام سے تھوڑی دیر کیلئے باہر جاتے ہیں- آئزک ایمیلی کو بتاتا ہے کہ جوری کو فرم میں پارٹنر بنا دیا گیا ہے جس کے بارے میں امیر کو یقین تھا کہ یہ عھدہ اسے ملنے والا تھا-

ہمیں یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ جب ایمیلی اورآئزک لندن میں تھے تو ایک دوسرے کے کافی قریب آ گئے تھے-

یہ بات جوری کو یوں بھی پتہ چلتی ہے جب وہ واپسی پر دیکھتی ہے کہ آئزک ایمیلی کو پیار کررہا ہے-

اس مشتعل لمحے میں امیر جوری سے کہتا ہے کہ اس نے اسکی پیٹھ میں خنجر گھونپا ہے اوربات بڑھ جاتی ہے-

آئزک کے ساتھ امیر کی تلخ کلامی ہوتی ہے اورغصّے میں امیراپنے مہمان کے منہ پر تھوک دیتا ہے-

آئزک امیر سے کہتا ہے "لوگ تم لوگوں کو بلا وجہ جانور نہیں کہتے"

مہمانوں کے جانے کے بعد امیر ایمیلی کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے- اس سے جھگڑا کرنے لگتا ہے اور اسکو کئی تھپڑ مارتا ہے- بالکل اسی وقت ایب داخل ہوتا ہے اور ایمیلی کے لہولہان چہرے کو دیکھتا ہے-

آخری منظر، چھ ماہ بعد کا ہے جس میں امیر خاموشی سے اپنی کتابیں سمیٹ رہا ہے- ایسا لگتا ہے جیسے وہ زندگی سے ہار چکا ہے-

ایمیلی ایب کے ساتھ اندرداخل ہوتی ہے- ایب اپنے چچا سے کہتا ہے کہ وہ اپنے دوست کے ساتھ کافی پی رہا تھا اوراسکے دوست کی ویٹریس کے ساتھ بحث ہوگئی جس نے اس سے یہ کہا کہ امریکہ کے ساتھ "وہی کچھ ہوا جو ہونا چاہئے تھا"

ویٹریس پولیس کو بلا لیتی ہے جو ان دونوں کو پکڑ کر ایف بی آئی کی تحقیقات کیلئے لے جاتی ہے- ایجنٹ، ایب سے کہتا ہے کہ اب اس کے امیگریشن کے کیس پر دوبارہ غور ہو گا- اسلئے اسے چاہئے کہ وہ ایف بی آئی سے تعاون کرے-

امیر کو ایب پر غصّہ آتا ہے اور وہ اس سے کہتا ہے "جب تم اپنے والدین کے گھر کو چھوڑتے ہو تو تمہیں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ باہر کی دنیا غیر جانبدار نہیں ہوتی، اب تو بالکل نہیں، خصوصا تمہارے لئے --- "

تکرار بڑھنے لگتی ہے- ایب جواباً کہتا ہے "یہ بالکل بکواس ہے اور میں آپ کے بارے میں ایک بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ ہمیشہ اپنے لوگوں کے خلاف جاتے ہیں- آپ سمجھتے ہیں کہ آپ ان لوگوں کو اپنے رویہ سے خوش کرتے ہیں- بالکل نہیں، بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ اپنے آپ سے نفرت کرتے ہیں-"

تکرار جاری رہتی ہے اور اسکو پتہ نہیں چلتا ہے کہ ایمیلی دوبارہ اندرآ گئی ہے-

"انہوں نے دنیا فتح کر لی ہے- ہم اسے واپس حاصل کر لینگے- یہی ہماری منزل ہے- قران شریف میں لکھا ہے ---- تین سو سال سے وہ ہماری زمینیں چھین رہے ہیں، نئی سرحدیں بنا رہے ہیں، ہمارے قوانین تبدیل کر رہے ہیں- وہ چاہتے ہیں کہ ہم انھیں پسند کریں- انہوں نے ہمیں ذلیل کیا ہے- اور پھر وہ یہ ظاہرکرتے ہیں کہ انھیں ہمارے غصّے کی وجہ سمجھ نہیں آتی"-

اس تکرار کے بعد ایب واپس چلا جاتا ہے- یہ واضح کرتے ہوئے کہ ایمیلی اب واپس نہیں آئیگی- ایمیلی بھی یہی کہتی ہے- پردہ گرنے سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ امیر اپنی اس تصویرکو دیکھ رہا ہے جو ایمیلی نے ڈرامہ کےآغازمیں بنائی تھی-

یہ مختصرسی تحریر ان سارے رنگوں کا صحیح تاثر، تیزی سے بدلتے ہوئے موڈ اور ڈرامے میں رونما ہونے والے تناؤ کا احاطہ نہیں کرسکتی اور نہ ہی لاجواب اداکاری کے جوہر کا- ہری ڈھلوں کی 'امیر' کے رول میں لاجواب اداکاری اور اتنی ہی متاثر کن سارہ پاول 'جوری' کے رول میں-

ڈینی اشوک کا انتہائی جذباتی لگن کے ساتھ ایب کا کردار، کرسٹی بشیل کی ایمیلی کے رول میں اس کی سیاسی ناپختگی کی بہترین اورکامیاب ادائیگی- نیجل وہٹمی نے آئزک کے رول (ایک سفید فام لبرل اور الجھے ہوئے ذہن کے کردارکی خام مذہبی اعتقادات کے حامل افراد سے ٹکراؤ کے وقت) کی بالکل صحیح عکاسی کی ہے-

ڈائریکٹر نادیہ فال نے تناؤ سے بھرپور، ایک موثر، سنجیدہ ڈرامے کو کامیابی کے ساتھ ایک چھوٹے سے اسٹیج پر پیش کر کے اس عظیم نظریاتی کشمکش کی طرف اشارہ کیا ہے جس سے مغرب میں رہنے والے بہت سے مسلمان آج گزررہے ہیں-


ترجمہ . سیدہ صالحہ .

عرفان حسین

لکھاری کا ای میل ایڈریس irfan.husain@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔