چند سالوں میں کتنا فرق آجاتا ہے- کل ہی کی بات ہے کہ طالبان کو دہشتگرد کہا جاتا تھا- آج وہی طالبان ایک ایسی قوت ہیں جنہیں امریکا عوامی سطح پر قبول کرنے کو تیار ہے-
ابھی 2005 کی بات ہے جب، اعلیٰ کینیڈین فوجی جنرل رک ہلئیر نے طالبان کو نفرت انگیز قاتل اور بدمعاش کہا تھا- صدر جارج ڈبلیو بش نے انہیں برائی کی جڑ کہا تھا- لیکن یہ سب ماضی کی باتیں ہیں-
طالبان پھر سے مقبول ہو گۓ ہیں- حد یہ کہ امریکن بھی یہ تسلیم کر رہے ہیں کے اب وہ جو کچھ چھپ کر، کر رہے تھے وہ لوگوں کے سامنے کریں گے یعنی طالبان سے بات چیت-
میونخ کے قریب ایک جرمن گاؤں میں جو کچھ تین سال پہلے شروع ہوا تھا وہ اب پوری طرح سے تیار ہو گیا ہے کہ اسے دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکے- دوحہ، قطر میں اسٹیج تیار کیا جا چکا ہے تا کہ طالبان اور امریکا کے درمیان گفتگو کا نیا دور شروع کیا جا سکے-
وہ جنہیں افغانستان کے ماضی اور حال سے واقفیت ہے، وہ کئی سالوں سے ان مذاکرات کی وکالت کر رہے تھے- اس لئے نہیں کہ طالبان گفت و شنید میں اچھے ہیں بلکہ انہیں افغانستان کے سب سے بڑے نسلی گروہ پشتوں کی حمایت حاصل ہے-
یہ بات چیت کئی سالوں پہلے شروع ہو گئی ہوتی اگر بیچ میں دانشور طبقہ، اشرافیہ، جیالے جنرل اور سیاسی ماہرین نظریات نہ آۓ ہوتے جنہوں نے مغرب کو اس مغالطے میں ڈال دیا کہ افغانیوں کو افغانستان میں شکست دی جا سکتی ہے-
نیٹو کا ممبر کینیڈا، ایسا ہی ایک ملک ہے جہاں عوام کو ان کی فوجی، سیاسی اور دانشور قیادت نے افغانستان میں جو کچھ ہو رہا تھا، اسکی غلط تصویر پیش کی- ان سب نے یک زبان ہو کر کینیڈین عوام کو یہ بتایا کہ افغانستان میں جنگ، برائی کے خلاف ہے اور یہ کہ ہم (نیٹو) وہاں جیت رہے ہیں-
ٹیکس دہندگان کے بلین ڈالر افغان جنگ میں جھونک دے گۓ جس کے نتیجے میں ہزاروں نیٹو فوجی مرے اور لاکھوں افغان، جبکہ کئی ملین کو بے گھر کر دیا گیا-
جولائی 2005 میں، انجینرنگ یونیورسٹی کے ایک ریسرچ اسائنمنٹ کی غرض سے جب میں پشاور پاکستان گیا تو میں نے کینیڈا کے سابقہ چیف آف سٹاف، جنرل رک ہلئیر ، کا طالبان کے بارے میں نفرت انگیز جملہ پڑھا جس میں اس نے طالبان کو بدمعاش کہا تھا-
کینیڈا کا قومی اخبار، دی گلوب اینڈ میل، قوم کے اعلیٰ جنرل کے منہ سے ایسے "جنگی الفاظ" سن کر جوش میں اچھل پڑا. گلوب کے اداریہ میں آیا تھا "یہ کہنے پر انہیں شاباشی ملنی چاہیے"-
مئی 2011 میں کینیڈین وزیر اعظم، سٹیفن ہارپر نے قندھار میں کینیڈین ٹروپس سے خطاب کچھ اس طرح سے کیا، "سرکش طالبان حکومت، جس نے اپنے ہی شہریوں کو برباد کر دیا لیکن ساتھ ہی بد ترین قاتلوں کے لئے دروازے کھول دیے"-
یہ بات انہوں نے اس دن کہی جب انکی ملاقات فقط ایک افغان شہری سے انتہائی مختصر وقت کے لئے ہوئی- کینیڈین چیف آف اسٹاف جنرل والٹر نتینکزیک نے وزیر اعظم ہارپر کے سامنے ایک نئی تعمیر شدہ سڑک کے گن گاۓ- جنرل نے وزیر اعظم ہارپر سے کہا کہ یہ سڑک طالبان کے قلب میں خنجر کی طرح لگے گی-
لیکن دی گلوب اینڈ میل کے ایڈیٹرز اکیلے نہیں تھے جو منتخب عہدے داروں اور بڑ بولے جنرلوں کی باتوں میں آکر آگے نکل گۓ- کینیڈا کے کئی عظیم دانشور بھی، عہدیداروں کے بیانات کو سچ مان بیٹھے-
مارچ 2008 کے ایک ٹیلی ویژن مباحثے میں، ٹورنٹو یونیورسٹی کے اکنامنک اسکول آف گلوبل افیئر کی سربراہ، پروفیسر جینیس سٹین نے افغانستان میں کینیڈا کی موجودگی کا دفاع کیا اور افغانستان میں انسانی ترقی کے لئے نیٹو کی امداد کی ثنا خوانی کی-
میں نے فوراً ہی پروفیسر سٹین کو لائیو ٹیلی کاسٹ پر یہ کہا کہ افغانستان، بچوں کی سب سے زیادہ شرح اموات میں تیسرے نمبر پر ہے اور یہ کہ افغانستان، اقوام متحدہ کی انسانی ترقی کی فہرست میں 174 نمبر پر ہے-
پروفیسر سٹین نے، جواب میں کچھ اور اعداد و شمار پیش کیے جو نا ہی صحیح تھے اور نہ ہی انکا کوئی جواز بنتا تھا-
انکا کہنا تھا کہ افغانستان میں بچوں کی شرح اموات آسمان سے باتیں کر رہی تھی جو تقریباً 65 سے 70 فیصد تک تھا-
پچھلے چار سالوں میں یہ 50 فیصد سے نیچے چلی گئی ہے- کیوں؟ کیوں کہ لوگوں کے پاس اب صحت کی وہ خدمات موجود ہیں جو چار سال پہلے نہیں تھیں-
یہ بہت اچھی بات ہوتی اگر سچ ہوتی- سی آئی اے کی ورلڈ فیکٹ بک کے مطابق، 2008 میں، افغانستان میں بچوں کی شرح اموات 1000 پیدائش میں سے 154 تھی- یعنی چار سال پہلے کے مقابلے میں صرف 8 فیصد کمی آئی ہے، 50 فیصد نہیں جیسا کہ پروفیسر سٹین کا کہنا ہے-
اور یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ طالبان کے دور حکومت میں، 2000 کے اوائل میں یہ شرح کم تھی- اور آج بھی افغانستان میں بچوں کی شرح اموات دنیا بھر سے زیادہ ہے-
مک گل یونیورسٹی کے ایک اور سیاسی سائنٹسٹ، پروفیسر سٹیفن سیدمن نے، غلطی سے افغانستان میں خون خرابے کو، کینیڈا کے لئے دوسرے ممالک کا احترام حاصل کرنے کا صحیح راستہ سمجھ لیا- "کینیڈا کو خاصی اہمیت حاصل ہوئی ہے کیوں کہ یہ قندھار میں قیادت کرنے اور خون بہانے کو تیار ہے"، انہوں نے دی گلوب اینڈ میل کے اوپ-ایڈ میں لکھا-
کینیڈا کے سول اور ملٹری اشرافیہ کے دانت پیسنے کے باوجود، یہ حقیقت ہے کہ، کینیڈینز کو افغانستان کے بنیادی حقائق کی اولین سمجھ تک نہیں ہے-
افغانستان میں ان کا قیام، کینیڈا کے فوجیوں اور جنرلوں کے لئے سمجھداری نہیں ہے- 2009 میں اوٹاوا میں، شہادت کے دوران یہ تسلیم کیا گیا کہ "جی ہاں ہم نے کچھ عارضی کسانوں کو روکا کہ آیا وہ دن میں کسان تھے اور رات کو طالبان، جو کے اکثر ہوتے ہیں، لیکن اسکا پتا لگانا انتہائی مشکل ہوتا ہے"، جنرل نے کہا تھا-
افغانستان میں زیادہ دیر قیام نیٹو کو طالبان پر فتح نہیں دلاۓ گا- نا ہی وہ طالبان کو اتنا لبرل کر دے گا کہ وہ خواتین کی اعلیٰ تعلیم کے حق کو تسلیم کر لیں-
ہاں البتہ، بات چیت، لیکن محض طالبان سے نہیں، افغان، پشتون، اور دوسروں کو اپنے زخم بھرنے اور اپنی منتخبہ ریاست اور معاشرہ تشکیل دینے میں مدد کرے-
مرتضیٰ حیدر، پی ایچ ڈی، ریرسن یونیورسٹی، ٹورنٹو، میں ٹیڈ راجر اسکول آف مینجمنٹ کے ریسرچ اینڈ گریجویٹ پروگرامز کے ایسوسیٹ ڈین ہیں -
ترجمہ: ناہید اسرار