بگ بیش کے فائنل کا ایک منظر۔ فوٹو اے ایف پی جب پاکستان اور نیوزی لینڈ مدمقابل تھے اور دنیائے کرکٹ کی دو بڑی ٹیمیں جنوبی افریقہ اور انگلستان خالی میدانوں میں ایک یادگار سیریز کھیل رہی تھیں، آسٹریلیا کے میدان تماشائیوں سے ابل رہے تھے۔ پاکستان میں اس مرتبہ یہ لیگ اتنی زیادہ مقبول نہیں ہوئی کیونکہ اس میں کوئی پاکستانی کھلاڑی شریک نہیں تھا لیکن اس بار بگ بیش نے میدان میں اور میدان سے باہر ٹیلی وژن اسکرینوں پر بھی ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور لگ بھگ اس مقام کو جا لیا ہے جہاں انڈین پریمیئر لیگ موجود ہے۔
ہر پہلو سے کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والی 'بی بی ایل' میں زبردست مقابلے، جاندار کارکردگی، جدتیں، بھرے ہوئے میدان، بھرپور ٹی وی ریٹنگز اور جی ہاں! تنازعات بھی خوب دیکھنے کو ملے اور یہی سب عناصر مل کر بگ بیش کو اب ایک بہت بڑا ایونٹ بنا چکے ہیں۔ انڈین پریمیئر لیگ کی چکاچوند کے مقابلے میں 2011ء میں محدود پیمانے، لیکن واضح اہداف، کے ساتھ شروع ہونے والی بگ بیش لیگ پاکستان کے لیے مشعل راہ بن سکتی ہے جو لیگز کی دنیا میں بس قدم رکھنے ہی والی ہے۔ اس کے لیے ہمیں بگ بیش کو اچھی طرح دیکھنا ہوگا کہ اس نے کیا کچھ کیا اور کیسے کیا؟ لیکن پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ پانچویں سیزن میں بگ بیش نے کیا کچھ حاصل کیا ہے؟
سڈنی تھنڈرز کی کامیابی کے ساتھ تکمیل کو پہنچنے کے بعد بگ بیش دنیا کی ان 10 لیگز میں شامل ہوگئی ہے جہاں فی مقابلہ سب سے زیادہ تماشائی میچ دیکھنے کے لیے میدان میں آتے ہیں۔ اس سیزن میں ہر مقابلہ اوسطاً 29 ہزار 443 افراد نے میدان میں بیٹھ کر دیکھا، جبکہ 2 جنوری کو ملبرن کی دونوں ٹیموں، یعنی رینیگیڈز اور اسٹارز، کا مقابلہ تاریخی ملبرن کرکٹ گراؤنڈ میں 80 ہزار 883 افراد نے ملاحظہ کیا۔
آسٹریلیا میں تو ویسے بھی لوگ میدان میں جاکر مقابلے دیکھنے کے بڑے شوقین ہیں لیکن تمام ممالک کی طرح کھیل زیادہ تر مردوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواتے ہیں لیکن بگ بیش کی توجہ ذرا مختلف ہے اور یہی اس کی کامیابی کا اصل سبب ہے۔ ان کا ہدف صرف بچے، خواتین اور خاندان کے دیگر افراد ہیں جو عموماً کرکٹ میں مردوں جتنی دلچسپی نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال بگ بیش اس وقت شروع کی جاتی ہے جب اسکولوں کے امتحانات ختم ہو جاتے ہیں اور وہ اسکول دوبارہ کھلنے سے پہلے چھٹیوں پر ہوتے ہیں۔ تعطیلات کے ان ایام میں والدین بچوں کی سیر و تفریح کے لیے کافی کچھ کرتے ہیں لیکن بگ بیش کے چند میچز کہیں یادگار اور زبردست تفریح بنتے ہیں وہ بھی بہت معمولی قیمت میں۔
بگ بیش کے میچز کے لیے بڑوں کا ٹکٹ صرف 20 ڈالرز کا جبکہ بچوں کے لیے محض 5 ڈالرز کا ہے۔ لیکن اگر چار افراد کا خاندان ہے تو صرف 42 ڈالرز میں پورا خاندان چند گھنٹوں کی بہترین تفریح حاصل کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال تماشائیوں کی تعداد میں اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے جیسا کہ رواں سال 22 فیصد زیادہ افراد نے میدان میں میچز دیکھے اور 8 میں سے 7 ٹیموں نے اپنے مقابلوں میں تماشائیوں کی موجودگی کا نیا ریکارڈ بنایا۔ 17 فیصد تماشائی ایسے تھے جنہوں نے زندگی میں پہلی بار کوئی کرکٹ میچ میدان میں دیکھا۔
کرکٹ پورے خاندان کے لیے، اس منزل کو حاصل کرنے کے لیے کرکٹ آسٹریلیا نے اس سیزن میں ایک اور قدم اٹھاتے ہوئے خواتین کی بگ بیش لیگ شروع کی جس نے خوب کامیابی سمیٹی۔ ملبرن رینیگیڈز اور اسٹارز کے مقابلے کو 12 ہزار تماشائیوں نے دیکھا جبکہ ٹی وی ناظرین کی تعداد بھی 6 لاکھ 31 ہزار افراد تک پہنچی۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں، یا پھر متحدہ عرب امارات، میں اسٹیڈیم میں جاکر میچز دیکھنے کی 'دیوانگی' شاید اتنی زیادہ نہ ہو اور بورڈ کا زیادہ زور ٹیلی وژن نشریات پر ہوتا ہے۔ بگ بیش نے آسٹریلیا میں ٹی وی ریٹنگز میں بھی زبردست نتائج دیے، ہر مقابلے کو اوسطاً 10 لاکھ افراد نے دیکھا۔ لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ پاکستان کی آبادی آسٹریلیا سے تقریباً 10 گنا زیادہ ہے یعنی اگر پاکستان آسٹریلیا سے کہیں کم کوشش بھی کرے تو لیگ کی کامیابی کے امکانات بنتے ہیں۔
پاکستان کی آبادی 20 کروڑ ہے، جبکہ آسٹریلیا سوا 2 کروڑ بھی آبادی نہیں رکھتا۔ اس لیے اگر پاکستان کرکٹ بورڈ کی انتظامیہ نے بنگلہ دیش اور سری لنکا پریمیئر لیگ والی غلطیاں نہیں کیں اور عمدگی کے ساتھ ایک دو سیزن گزار دیے تو سپر لیگ کو کوئی کامیاب ہونے سے نہیں روک پائے گا۔ لیکن اس کے لیے بہت سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے ہوں گے۔ کرکٹ آسٹریلیا کے آپریشنز منیجر مائیک میک کینا کہتے ہیں کہ ہماری نظریں امریکی لیگز پر رہی ہیں کہ وہ کس طرح کام کرتی ہیں اور اتنے شائقین کو کیسے میدان میں لاتی ہیں۔
پاکستان میں، یا جہاں بھی پاکستان سپر لیگ اپنے مقابلوں کی میزبان کرتی ہے جیسا کہ متحدہ عرب امارات، میں میدان میں میچز دیکھنے کا رحجان کافی کم ہے اور ہمارے ہاں زیادہ تر شائقین کرکٹ ٹیلی وژن کے ذریعے میچز دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس پر طرّہ یہ کہ گزشتہ پانچ، چھ سالوں سے پاکستان میں کرکٹ ہو ہی نہیں رہی۔ اس لیے اگر ملک میں کرکٹ واپس آتی ہے تو یقین ہے کہ جس طرح گزشتہ سال پاک-زمبابوے سیریز میں میدان تماشائیوں سے بھرے پڑے تھے، ویسے ہی مناظر دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔
بگ بیش کی کامیابی کی دوسری اہم بات اس کی نت نئی جدتیں ہیں، ڈرون کیمروں سے لے کر دمکتی ہوئی اسٹمپس تک، کرکٹ میں گزشتہ پانچ سالوں میں جتنے بھی نئے 'ششکے' آئے ہیں ان کا جنم بگ بیش لیگ میں ہوا۔ اس سال تو ایک مقابلہ ایسا بھی کھیلا گیا جہاں ایک ٹیم نے "سپر مین" اور دوسری نے "بیٹ مین" کے لباس پہنے اور ایک شاندار مقابلہ کھیلا۔