Dawn News Television

شائع 08 مارچ 2016 03:46pm

عام عورت، خاص عورت

میں ایک عام عورت ہوں، جیسی میرے دیس میں رہنے والی بیشتر عورتیں ہیں۔ ہمہ وقت مصروف، اپنی ذات، خاندان، رشتوں اور پہچان کی تگ و دو میں مگن اپنی زندگی سے کسی قدر مطمئن، لیکن نہ جانے کیوں جب جب مارچ کا مہینہ ''عورتوں کے عالمی دن'' کے حوالے سے میرے شعور کی کنڈی کھٹکھٹاتا ہے تو مجھے مضحمل کردیتا ہے۔

نہ جانے مجھے یہ احساس کیوں ہوتا ہے کہ یہ دن مجھ جیسی عام عورتوں کے لیے نہیں بلکہ ان خاص عورتوں کے لیے مخصوص ہے جنہوں نے اپنے اپنے شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔

میں زندگی میں کچھ ایسا خاص کر نہ سکی۔ بچپن میں جب میرے ہم عمر کزن لڑکے اچھل کود اور بھاگ دوڑ کے کھیل کھیلتے اور میں ان کے ساتھ شامل ہونا چاہتی تو اکثر سننے کو ملتا ''لڑکیوں والے کھیل کھیلو، آرام سے بیٹھ کر ایک طرف''۔ سو احتجاجاً میں اور میری ہم جولیاں گڑیوں کی شادیاں رچانے اور گڈوں کی گت بنانے کے منصوبے بننے لگتیں اور یوں جسمانی و ذہنی کسرت کے قیمتی لمحات، نفسیاتی الجھنوں اور تانوں بانوں کی نظر ہوجاتے۔

متوسط طبقے سے تعلق ہوتے ہوئے بھی ہمارے گھروں میں بچیوں اور لڑکیوں کے ساتھ کوئی ایسا امتیازی سلوک تو روا نہ تھا، سوائے اس کے کہ اونچا بولنے، جواب دینے اور جرح کرنے پر اکثر سرزنش ہوتی کہ ''ذرا ہولے، ابھی ماں باپ کے گھر یہ حال ہے تو دوسرے گھر جا کر تو اِن حرکتوں کی وجہ سے ناک کٹواؤ گی۔"

سو جہاں بھائی اور ابا کا تند مزاج اور ترش لہجہ مردانگی کی علامت اور عمر کا تقاضا سمجھ کر نظرانداز ہوتا وہاں ہمیں اکثر نرم خوئی، خوش مزاجی اور برداشت بڑھانے کے لیکچر سہنے پڑتے، لیکن اِس میں ایسا کچھ غلط بھی کیا تھا؟

بحیثیت عام عورت یہی اقدار میری بقاء کی ضمانت ٹھہرے اور آج یا کل میں اپنی بیٹی کو بھی شاید یہی گھٹّی پلاؤں گی۔

خیر میں تو ایک اوسط گھرانے کی عام لڑکی تھی سو جب ابّا نے بیٹی کے پڑھنے کے شوق کو دیکھتے ہوئے مجھے یونیورسٹی میں داخلہ دلایا تو سب سے زیادہ اعتراض گھر کی خواتین کو ہوا۔ دادی بولیں ''ارے! لڑکوں کے ساتھ پڑھائے گا۔'' امّی نے بھی خفگی کا اظہار کیا کہ کیا لڑکی کو نوکری کروانی ہے؟

تاہم اب تو وقت بدل گیا ہے عام وخاص سب لڑکیاں پروفیشنل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھ رہی ہیں، امتحانوں میں اوّل ہیں، اپنی زندگی، اپنے مستقبل کے حوالے سے با عزم اور پرامید نظر آتی ہیں لیکن ہیں وہ اب بھی عام سی لڑکیاں۔ سو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ موزوں بر آیا نہیں اور ترجیحات کے دھارے کا رخ بدلا نہیں۔

آج بھی ہمارے معاشرے میں ایک عام سی لڑکی کے عام سے والدین اور خاندان کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ بروقت اچھّے رشتے کا حصول ہے۔ سو تعلیم، ڈگری، کریئر، نوکری اور مستقبل کے تمام تر منصوبے ایک مناسب، برسرِروزگار بر کی آمد کے ساتھ تہہ و بالا ہو جاتے ہیں کیونکہ یہی دانشمندی اور زمانہ فہمی کا تقاضا ہے۔

میں ایک عام لڑکی تھی سو مجھے بھی یہی بتایا گیا کہ میرا مقصدِ حیات، ایک گھر بنانا اسے سنوارنا اور چلانا ہونا چاہیے نا کہ کائنات کی سروری۔ سو میں نے اپنی حد کو پہچانا۔ تعلیم حاصل کی تو تبّرکاً۔ نوکری کی تو وقت گزاری کے لیے شوقیہ یا بڑھتی مہنگائی میں آسودہ زندگی کے حصول کے لیے مجبوراً۔

ہر اچھی، باکردار عورت کی طرح میں نے اپنے والدین اپنے خاندان اور اپنے معاشرے کی عزّت و ناموس کا طوق بچپن سے اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھایا۔ اپنے پیروں میں رشتوں کی پازیبیں اور کلائیوں میں اعتبار کی چوڑیاں بڑے شوق سے سجائیں جو وقت کے ساتھ ساتھ ہاتھ کی زنجیریں اور پاؤں کی بیڑیاں بنتی گئیں۔

مجھے ہر قدم زمانے کا خوف غالب رہا اور ہر شوق، ہر جذبہ پر یہ کہہ کر قدغن لگائی گئی کہ جو کرنا اپنے گھر جا کے کرنا۔

آج میں اپنے گھربار کی ہوں سو ہر روز صبح سویرے بچوں کے لیے ناشتہ بناتے، اپنے کنبے کے سب افراد کو تیار کروا کے رخصت کرتے، بکھری بیڑی کی مانند گھر کو ہر روز نئے سرے سے سمیٹتے، رشتوں کو سنبھالتے، پکوان بناتے روٹھوں کو مناتے اور گھر، باہر، بینک، دفتر اور بازار کے ان گنت کام کرتے میں اکثر خود سے الجھ پڑتی ہوں تو کبھی کبھی مجھے گمان ہوتا ہے کہ کارخانہء روز و شب میرے ہی دم سے رواں دواں ہے۔

میرے ہی وجود سے رنگینیء کائنات اور بزمِ جہاں روشن ہے۔ میں عام نہیں بلکہ خاص ہوں، اور عورتوں کا عالمی دن مجھ جیسی ہی ان گنت بے نام و نشان عورتوں کا جشن ہے۔

Read Comments