Dawn News Television

اپ ڈیٹ 27 مارچ 2016 03:28pm

لڑکی کاسائیکل چلانا خود کو ہراساں کرنےکی دعوت؟

گذشتہ 4 سالوں سے میرا یہ معمول رہا ہے کہ ہر اتوار کو میری صبح سائیکل چلانے سے شروع ہوتی ہے۔ وہ بھی اتوار کی ایسی ہی ایک عام سی صبح تھی۔

میں اپنی سائیکل پر سوار ہو کر حسبِ معمول پیڈل مارتے ہوئے اُسی جگہ پہنچی جہاں میرے سائیکلنگ گروپ 'کریٹیکل ماس لاہور' کے باقی ممبر ہر اتوار کی صبح جمع ہوتے ہیں اور شہر کے خوبصورت نظاروں کو دیکھنے نکل پڑتے ہیں۔

مجھے صبح سویرے سائیکل چلانا اس لیے بہت پسند ہے کیونکہ ایک تو سڑک پر ٹریفک نہیں ہوتی اور دوسرا تازہ ہوا میں سانس لینے کا موقع ملتا ہے۔

سفاری پارک لاہور میں سائیکلنگ۔ — تصویر بشکریہ لکھاری۔

میں صبح کی ٹھنڈی ہوا اور خالی سڑک کا بھرپور مزہ لے رہی تھی کہ میں نے محسوس کیا کہ کچھ لڑکے سفید کلٹس گاڑی میں میرا پیچھا کر رہے تھے۔

پہلے تو میں نے اسے سنجیدہ نہیں لیا کیونکہ ہمارے یہاں مرد عورتوں کو سائیکل چلاتے دیکھ کر اکثر جذباتی ہو جاتے ہیں۔

لیکن ان کے مستقل پیچھا کرنے سے مجھے گھبراہٹ ہونے لگی۔ آخرکار میں نے سب سے قریبی سروس لین میں یہ سوچ کر مڑنے کا فیصلہ کیا کہ شاید اس طرح وہ میرا پیچھا کرنا چھوڑ دیں گے۔

مگر انہوں نے وہاں بھی میرا پیچھا کرنا شروع کردیا۔

میں خود کو بہت خوفزدہ محسوس کر رہی تھی. میں نے مدد کے لیے ادھر اُدھر دیکھا مگر اس وقت پوری سڑک ویران تھی۔

مجھ پر گلا پھاڑ کر جملے کسنے اور مسلسل ہارن بجانے کے بعد جب انہوں نے محسوس کیا کہ وہ میری توجہ حاصل کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں تو انہوں نے میری سائیکل کو ٹکر مار دی اور وہاں سے فرار ہو گئے۔

منہ کے بل گرنے کے باعث میرے چہرے پر بھی زخم آئے۔ — تصویر بشکریہ لکھاری۔

یہ واقعہ میرے ساتھ صبح تقریباً 7 بجے نِروانا کے قریب ڈی ایچ اے لاہور میں پیش آیا۔

ٹکر اتنی زور دار تھی کہ میں آگے جا کر منہ کے بل گر پڑی۔ خوش قسمتی سے میں نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا جس نے مجھے سر کی شدید چوٹوں سے محفوظ رکھا، لیکن میرے جسم پر کچھ زخم اور خراشیں آئیں۔

گرنے کے بعد میرے حواس خطا ہو گئے تھے، پھر بھی میں نے اُن کی گاڑی کا نمبر یاد کرنے کی کوشش کی لیکن یاد نہیں آیا۔ پورا وقت ان کی گاڑی میرے پیچھے تھی۔ جب میں سڑک پر گری، صرف تب ہی انہوں نے گاڑی میرے آگے روکی اور پھر وہاں سے فرار ہوگئے۔

ہم ''کریٹیکل ماس لاہور'' کے تمام ممبران ایک گھرانے کی مانند ہیں، ہمیشہ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں اور ضرورت کے وقت ہمیشہ مدد کے لیے تیار رہتے ہیں۔ سائیکلنگ گروپ کے کچھ دوست جلد ہی میری مدد کے لیے آ پہنچے۔

وہ مجھے ہسپتال لے گئے اور تقریباً سارا دن میرے ساتھ ہی گزارا۔

سڑک پر ہراساں کرنے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا۔ اس طرح کے کئی واقعات میرے ساتھ ہو چکے ہیں مگر میں ان کے بارے میں بات کرنے سے کتراتی تھی، یہاں تک کہ اپنے قریبی دوستوں اور گھر والوں کو بھی نہیں بتاتی، کیونکہ میں ہر دفعہ سائیکل پر سفر کے دوران انہیں فکرمند نہیں رکھنا چاہتی تھی۔

ایکسیڈنٹ کے فوراً بعد اپنے سائیکلنگ گروپ کے دوستوں زائرہ اور ذیشان کے ساتھ۔ — تصویر بشکریہ لکھاری۔

میں یہ بات عوامی سطح پر اس لیے بھی نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ میں سائیکل چلانے جیسی سرگرمی میں حصہ لینے والی دیگر خواتین کے حوصلے پست نہیں کرنا چاہتی تھی۔

کافی سالوں بعد اب سائیکلنگ گروپ میں خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور میں چاہتی ہوں کہ یہ تعداد بڑھتی رہے۔

میں نے اس پر بہت سوچا اور فیصلہ کیا کہ چپ رہنا اس مسئلے کا حل نہیں۔ مجھے اب اس بارے میں بات کرنے کی ضرورت تھی۔

ہراساں ہونا ایک حقیقت ہے — پاکستان میں پیدا اور بڑی ہونے والی تقریباً تمام لڑکیاں ہر دن اس کا سامنا کرتی ہے اور یہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ آپ کو نارمل محسوس ہونے لگتا ہے، ایک ایسی چیز جس کا عادی بننا ضروری ہے۔ ہم اس بات کو زندگی کے ایک حصے کے طور پر اپنانا شروع کر دیتے ہیں۔

پڑھیے: ہراساں کیا جانا جرم تصور کیا جائے

ہمیں اسکولوں، بازاروں، دفاتر میں جنسی طور پر ہراساں کیا جانا عام ہے اور ان جگہوں پر جاتے وقت راستوں پر بھی ہراساں کیا جاتا ہے، چاہے ہم سائیکل پر سوار ہوں یا کسی اور طریقے سے وہاں جا رہی ہوں۔

لیکن اس حادثے کے بعد سائیکل چلانے کا میرا حوصلہ نہ کم ہوگا اور نہ ہی میں دوسری عورتوں کے حوصلے پست ہونے دوں گی۔ اس سوچ کے ساتھ میں نے اس حادثے کو اپنی فیس بک پروفائل پر پبلک پوسٹ کی صورت میں تحریر کردیا۔

مجھے معلوم نہیں تھا کہ میرے اس انکشاف کا رد عمل کیا ہوگا۔ میں کچھ منفی تبصروں کی توقع کر رہی تھی مگر مجھے دنیا بھر سے صرف حوصلہ افزا پیغامات اور تبصرے موصول ہوئے۔

کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ میں کسی مرد کے ہمراہ سائیکل چلاؤں کیونکہ لڑکیوں کے لیے اکیلے سائیکل چلانا محفوظ نہیں۔ میں ان کی رائے کا احترام کرتی ہوں۔

میں صرف یہ کہنا چاہتی ہوں کہ حالیہ دنوں میں لاہور میں اسٹریٹ کرائم میں اضافہ ہوا ہے، اب آپ سڑک پر پیدل چلتے، سائیکل چلاتے یا ڈرائیونگ کرتے وقت خود کو محفوظ نہیں سمجھتے۔ اگر ایسی صورتحال میں کسی مرد کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ پیش آئے، تو اسے بھی کسی کے ساتھ جانے کی تجویز دی جائے گی؟ یا پھر عام افراد اپنے ساتھ مسلح افراد لے کر گھوما کریں؟

نہیں! کسی کو ساتھ رکھنا اس اہم مسئلے کا حل نہیں، بلکہ آج اس معاملے پر بڑی حد تک ثقافتی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اگر میں صرف اکیلے سائیکل چلانا چاہوں تو پھر؟ اگر میں اپنے ہی شہر میں تحفظ کی خاطر کسی مرد کا ساتھ نہیں چاہتی تو پھر؟

ہمیں نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کے لیے بھی اپنے شہروں کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔

عوامی مقامات پر خواتین کو بااختیار بنانے کی مہمیں بھی جاری ہیں جیسے 'گلابی رکشہ اسکیم' اور 'ویمن آن ویلز'، لیکن ان میں سے کوئی بھی مہم اس وقت تک عورتوں کو بااختیار نہیں بنا سکتی جب تک کہ مسئلے کی جڑ کو ٹھیک نہیں کیا جاتا۔

اور اس کو حل کرنے کے لیے ہمیں اس پر بات کرنی پڑے گی۔

عورتوں کو ہراساں کرنے والے یہ حرکتیں ایسے معاشرے میں کرتے ہیں جہاں انہیں سزا کا خوف نہیں ہوتا۔ جب تک کہ ان کا مقابلہ نہیں کیا جاتا اور انہیں سزا نہیں دی جاتی، تب تک پاکستان کی گلیوں میں خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات میں بھی ذرہ برابر بھی کمی نظر نہیں آئی گی۔

اور اس لیے میں اپنی سائیکل پر دوبارہ سوار ہونے کے لیے بے تاب ہوں۔

لکھاری اپنی سائیکل کے ساتھ۔ — تصویر بشکریہ لکھاری۔

انگلش میں پڑھیں۔

Read Comments