Dawn News Television

اپ ڈیٹ 01 مئ 2016 01:58pm

حکومتی اشتہار کے 'ادھورے سچ'

اخبارات کے لیے اشتہارات ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، اور اخبارات کو سرکاری اشتہارات کے اجراء کے طریقہء کار پر اکثر و بیشتر اعتراضات ہوتے رہتے ہیں. عوامی ٹیکسوں سے حکومت اپنی تشہیر کے لیے اشتہارات کا استعمال کر سکتی ہے یا نہیں، یہ الگ بحث ہے، مگر اس سے بھی زیادہ اہم بحث یہ ہے کہ آدھے ادھورے پراجیکٹس کو کامیابیوں کا نام دے کر گمراہ کن اشتہارات شائع کرنا کیا کسی اخلاقیات اور قانون کے معیار پر پورا اترتا ہے؟

چند روز قبل محکمہ اطلاعات و نشریات، حکومت پاکستان کی جانب سے پاکستان کے تمام بڑے اخبارات کو وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کی تصویر اور قومی پرچم کے ساتھ اشتہار جاری کیا گیا ہے۔

"ترقی و خوشحالی کی سیاست، ہمارا راستہ ہماری کامیابی" کی شہ سرخی تلے چھپنے والے اس اشتہار کے ذریعے حکومت، عوام یا قارئین تک اپنی کارکردگی پہنچا رہی ہے۔

کروڑوں روپے کی لاگت سے جاری اشتہار کی سرخی ہے ’’ہماری کامیابیاں‘‘ اور عبارت ہے "ہمیں اندھیروں میں ڈوبا ہوا پاکستان ورثے میں ملا۔ جہاں ان گنت مشکلات اور چیلنجز ہماری راہ میں حائل تھے لیکن مثالی عزم اور انتھک محنت سے ہم نے روشن پاکستان کے سفر کا آغاز کیا۔ الحمدللہ آج ہم اپنی منزل کے قریب پہنچ چکے ہیں۔"

یہ درست ہے کہ حکمرانوں کی عدم دلچسپی کے باعث پاکستان توانائی بحران میں مبتلا ہے۔ میاں نواز شریف نے وزیرِ خزانہ پنجاب کی حیثیت سے بقول ان کے عوامی خدمت کا سفر شروع کیا، تب سے آج تک تیسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ پر فائز ہونے اور عشروں تک اقتدار سے لطف اندوز ہونے کے باوجود ملک کو توانائی کے بحران سے نکالنے کے لیے ایک بھی بڑے منصوبے کی تکمیل ان کے نامہء اعمال میں درج نہیں۔ لہٰذا اندھیروں کو ورثہ بنانے میں میاں نواز شریف، پیپلز پارٹی سے کم ذمہ دار نہیں ہیں۔

ملک کے مختلف اخبارات میں شائع ہونے والے حکومتی اشتہار کا عکس.

اشتہار چونکہ رائے عامہ کو متاثر کرنے یا اپنے حق میں تبدیل کرنے کے لیے شائع کروایا گیا ہے، اس لیے اس میں ایسی بہت ساری باتیں لکھ دی گئی ہیں جن کا یا تو حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، یا پھر یہ اشتہار 10 سال بعد ان تمام منصوبوں کی تکمیل (اگر ہوئی تو) کے بعد ہی حقیقت قرار پائے گا۔

"الحمدللہ ہم اپنی منزل کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ تاپی گیس پروجیکٹ ترکمانستان سے سستی گیس کی درآمد اور سستی گیس سے ہزاروں نئی صنعتوں کا قیام": کیا یہ جھوٹ نہیں؟ ابھی گیس پائپ لائن بچھی نہیں اور ہزاروں صنعتیں لگ گئیں؟ یا شاید اشتہار میں اختصار کو مدِنظر رکھتے ہوئے ادھورے جملوں کا سہارا لیا گیا ہے، جن سے یہ واضح نہیں کہ صنعتوں کا قیام ہوگا یا ہوگیا، آپ جو سمجھیں وہ آپ کی مرضی۔

مہنگائی میں مسلسل کمی: ادارہ شماریات کے مطابق رواں برس میں سبزیوں اور اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ یہاں تک کہ اپریل کے مہینے میں ہی جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق پولٹری مصنوعات، دالوں، اجناس، چائے، دودھ اور گوشت کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ملک کے کس حصے میں پھل اور سبزیاں اوسطاً 20 روپے فی کلو تک سستی ہوئی ہیں، کوئی بتائے گا؟ پٹرول ضرورسستا ہوا جو ابھی بھی عالمی مارکیٹ سے مہنگا ہے، اور اس کے سستا ہونے میں بھی عالمی مارکیٹ میں گرتی ہوئی قیمتوں کا کردار ہے، نہ کہ حکومت کا۔

قطر سے ایل این جی کی درآمد پر متعدد سوالیہ نشان ہیں۔ سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے پلاننگ ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارمز کو جمعرات کے دن وزارت پانی و بجلی کے سینیئر افسر نے کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی کی زیرِ صدارت ہونے والے اجلاس کو بتایا کہ ایل این جی سے 1200 میگا واٹ بجلی 2017 کے آخرتک نیشنل گرڈ کو مل سکے گی، مگر اشتہار میں 4 ہزار میگاواٹ سستی بجلی کی پیداوار ہو رہی ہے، یہ جھوٹ نہیں تو کیا ہے؟ یا تو پھر وہی بات کہ پیداوار متوقع ہے، لیکن اسے صرف 'پیداوار میں معاون' تک لکھنے پر ہی اکتفاء کیا گیا ہے۔ یہی حال ملک میں گیس کے بحران کے حوالے سے کیے گئے دعوے کا بھی ہے۔

تقریباً 3000 میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل: چیئرمین واپڈا ظفر محمود تو کہتے ہیں کہ 2017 کے آخر تک نیشنل گرڈ میں 3000 میگاواٹ بجلی شامل ہو سکتی ہے۔ اشتہار میں ہو چکی ہے۔ اتنی بڑی مقدار میں بجلی کس منصوبے سے لی گئی ہے؟ عوام تو درکنار ماہرین بھی لاعلم ہیں کہ اتنا بڑا منصوبہ کہاں لگا کب مکمل ہوا؟

قائداعظم سولر پارک اور نیلم جہلم سے پیداوار کا آغاز: مختلف ذرائع کے مطابق اس پراجیکٹ سے 100 میگاواٹ کے بجائے صرف 18 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے، جبکہ بہاولپور کا موسم دھوپ سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کے لیے موزوں نہیں ہے۔ اس سے بڑا جھوٹ اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ 969 میگاواٹ کا نیلم جہلم پاور پراجیکٹ، جس پر ابھی بھی کام چل رہا ہے، اور 2017 تک پہلا پیداواری یونٹ مکمل ہونے کی توقع ہے، وہاں سے بھی اشتہار کے مطابق پیداوار کا آغاز ہو چکا ہے۔

دہشت گردی کا مسلسل خاتمہ بھی حکومت نے اپنی کامیابی قرار دیا ہے۔ خصوصی عدالتوں کا قیام اس لیے عمل میں لایا گیا تھا تاکہ اس دوران ملک کے سول عدالتی نظام میں اصلاحات لا کر اسے اس قابل بنایا جائے کہ وہ از خود دہشتگردی کے مقدمات نمٹا سکیں، کیا اس اصلاحاتی عمل کی جانب کوئی پیش رفت ہوئی ہے؟ کیونکہ مضبوط عدلیہ کے بغیر دہشتگردی کا صفایا ناممکن ہے۔ دو سال کے لیے قائم کردہ خصوصی عدالتوں کی مدت کا اختتام ہونے والا ہے مگر ایسا لگتا نہیں کہ سول عدالتی نظام میں اصلاحات حکومتی ترجیحات میں شامل ہیں۔

شمالی وزیرستان کے ہزاروں افراد دربدر ہیں اور میاں نواز شریف بحالی کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ پراجیکٹ زیرِ تعمیر ہیں اور حکومتی اشتہارات تکمیل اور یہاں تک کہ پیداوار کے آغاز کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ عوام دالیں تک خریدنے سے محروم ہوتے جا رہے ہیں اور حکومت اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں کمی کی خوش خبری سنا رہی ہے.

سمجھ سے باہر ہے کہ یہ ساری چیزیں اگر حاصل کر لی گئی ہیں تو صرف اشتہارات تک محدود کیوں ہیں؟ اور اگر حاصل نہیں کی گئی ہیں تو ذومعنی جملوں پر مبنی کروڑوں روپے کے اشتہارات جاری کرنے کا مقصد؟

کیا پاکستان کا کوئی ادارہ گمراہ کن اشتہارات جاری کرنے پر میاں نواز شریف یا وزارت اطلاعات و نشریات سے سوال کر سکتا ہے؟

Read Comments