Dawn News Television

اپ ڈیٹ 04 جون 2016 11:33am

دیامر کے آثارِ قدیمہ کو بھاشا ڈیم سے خطرہ؟

صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع کوہستان سے تھوڑا سا آگے گلگت بلتستان کا ضلع دیامر واقع ہے۔ ضلع دیامر میں نانگا پربت نامی پہاڑ، جسے دنیائے کوہ پیمائی میں قاتل پہاڑ بھی کہا جاتا ہے, واقع ہے اور اپنے حسن، اپنی بلندی اور دشوار گزاری کی وجہ سے عالمی شہرت کا حامل ہے۔

نانگا پربت کے دامن میں ایک وادی ہے جس کی خوبصورتی لازوال ہے، اور جس کے عاشق لاکھوں ہیں۔ اس وادی کو کسی فرنگی نے فیری میڈوز، یعنی پریوں کی چراگاہ کا نام دیا، اور کیا خوب نام دیا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر کوئی پری وجود رکھتی اور اگر اُسے گھر بسانے کی حاجت ہوتی، تو وہ ضرور اسی علاقے کا رُخ کرتی۔

آپ کہیں گے کہ مبالغہ آرائی کی بھی حد ہوتی ہے۔ لیکن جناب، اگر یہ مبالغہ ہی ہوتا تو بھلا مجھے بتائیں کہ ایک فرانسیسی کوہ پیما 2013 میں اپنی وصیت میں کیوں کہتا کہ مرنے کے بعد میری میت نانگا پربت کے دامن میں دفنانا؟

اور جو میں نے لکھا اگر یہ مبالغہ ہی ہوتا، تو بھلا کوہ پیمائی میں دیو مالائی حیثیت کا حامل جرمن کوہ پیما رینہولڈ میسنر اس پہاڑ کے عشق میں کیوں مبتلا ہوتا؟

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ضلع دیامر خوبصورتی اور قدرتی وسائل سے مالامال علاقہ ہے۔ لیکن میرے خیال میں دیامر کی اصل اہمیت کی وجہ اس کے جنگلات اور پہاڑ نہیں، بلکہ اس علاقے میں بسنے والے لوگ، ان کی قدیم تاریخ، اور اس تاریخ کے جا بجا بکھرے آثار ہیں۔

پتھروں پر کندہ کی گئی تصاویر علاقے کی تاریخ بیان کرتی ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق یہاں 25 سے 30 ہزار ایسے پتھر موجود ہیں۔

چلاس نامی شہر دیامر کا موجودہ انتظامی مرکز ہے۔ چلاس سے گزرنے والے دریائے سندھ کے کنارے اور دور دراز کی وادیوں میں بعض اندازوں کے مطابق کم و بیش 25 سے 30 ہزار پتھروں پر کندہ قدیم عبارتیں، اشکال اور تصاویر اس خطے میں زمانہءِ قدیم میں زندگی گزارنے والوں، یہاں سے گزرنے والے افراد اور اقوام، ان کے مذاہب و عقائد اور رسوم و رواج کے بارے میں مفید معلومات فراہم کرتے ہیں۔

معروف مؤرخ پروفیسر احمد حسن دانی نے اپنی کتاب "دی ہیومن ریکارڈز آن قراقرم ہائے وے" میں ان دفینوں اور زمین کی سطح پر بکھرے خزانوں کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔

مرحوم پروفیسر دانی لکھتے ہیں کہ بعض نقشوں اور عبارتوں کا تعلق ہزاروں سال قبل مسیح سے ہے، اور ان میں اس وقت کے بادشاہوں کے نام اور ان کے احوال تصویری شکل میں بیان کیے گئے ہیں۔

بعض اونچی چٹانوں پر گوتم بدھ کی قدِ آدم تصویریں منقوش ہیں، جبکہ بدھ مت پر عمل کرنے والے افراد کی عبادت گاہوں (اسٹوپاز) کے نقشے بھی جا بجا نظر آتے ہیں۔ شکاریوں اور جنگجوؤں کی تصویریں بھی ہزاروں کی تعداد میں پتھروں پر نقش ہیں۔

'چلاس کلچرل لینڈ اسکیپ پراجیکٹ' نامی منصوبے کے تحت جون 2012 میں تیار کردہ ایک دستاویز میں لکھا گیا ہے کہ گچی نالے سے اس علاقے کے قدیم ترین نوادرات دریافت ہوئے ہیں، جن کی عمروں کا اندازہ 2 سے 6 ہزار سال قبلِ مسیح لگایا جاسکتا ہے۔

یہ نوادرات بھاشا ڈیم کی مجوزہ سائٹ پر ہونے کی وجہ سے خطرے سے دوچار ہیں۔

علاقے کے قدیم ترین نوادرات کی عمروں کا اندازہ 2 سے 6 ہزار سال قبلِ مسیح لگایا جاسکتا ہے۔

اس علاقے سے ملنے والی دیگر نوادرات میں 400 سال قبلِ مسیح کے اہلِ فارس کے آثار بھی ملتے ہیں، جبکہ حضرتِ عیسیٰ کی آمد سے ایک سے دو صدی قبل وجود رکھنے والے سکیتھین اور پارتھین دور کے نوادرات بھی ملے ہیں۔

وادی داریل، جو ضلع دیامر میں ہی واقع ایک تاریخی اور ثقافتی طور پر انتہائی اہم خطہ ہے، قدیم زمانوں میں علوم کا مرکز تھا۔ آج بھی اس علاقے میں دورِ بدھ مت سے تعلق رکھنے والے علم گاہوں، عبادت گاہوں اور انسانی آبادکاریوں کے آثار موجود ہیں۔ اس عظیم ورثے کو سمجھنے، اور مقامی لوگوں کو اس کی تاریخی افادیت اور مستقبل کے لیے اہمیت سمجھانے کی شدید ضرورت ہے۔

مقامی صحافی شہاب الدین غوری کہتے ہیں کہ پھوگچ (داریل) میں چھٹی صدی عیسوی میں ایک عظیم الشان یونیورسٹی قائم تھی جس کے آثار آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔

پڑھیے: عالمی ثقافتی ورثے میں شامل پاکستان کے چھ شاہکار

مگر یہ نوادرات دیامر بھاشا ڈیم کی مجوزہ سائٹ پر ہونے کی وجہ سے خطرے سے دوچار ہیں، کیونکہ چلاس شہر اور اس کے گرد و نواح میں واقع چھوٹے بڑے دیہات ڈیم کی تعمیر کے بعد زیرِ آب آ جائیں گے۔

واپڈا حکام نے دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر موجودہ ڈپٹی کمشنر ہاؤس اور چلاس شہر میں واقع انگریزوں کے دور میں تعمیر شدہ قلعے کے اندر ان پتھروں اور ان پر منقوش عبارات اور تصاویر پر مشتمل ایک عظیم الشان عجائب گھر قائم کرنے کی تجویز دی ہے، لیکن تاحال اس ضمن میں کوئی عملی کام شروع نہیں ہوا ہے۔

علاقے کے قدیم ترین نوادرات کی عمروں کا اندازہ 2 سے 6 ہزار سال قبلِ مسیح لگایا جاسکتا ہے۔

اس علاقے سے ملنے والے نوادرات میں 400 سال قبلِ مسیح کے اہلِ فارس کے آثار بھی ملتے ہیں.

شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم پر بھی ابھی فیصلہ کن انداز میں کام نہیں شروع ہوا ہے، لیکن پاکستان میں آثارِ قدیمہ کے ساتھ عام طور پر ہونے والے سلوک کو دیکھتے ہوئے اندیشہ ہے کہ کہیں ان پتھروں کو بھی ڈیم کی تعمیر میں استعمال نہ کر لیا جائے۔

ملکی معیشت اور سلامتی کے لیے دیامر بھاشا ڈیم کی اہمیت مسلم ہے، لیکن ڈیم کی تعمیر سے قبل ان تاریخی نوادرات اور آثار میں چھپے علم اور حکمت کو محفوظ نا بنانا علاقے کی ماضی اور اس کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کے مترادف ہوگا۔

یہ عذر پیش کرنا کہ ابھی ڈیم بنا کہاں ہے جو اس حوالے سے جلدی کی جائے، قابلِ قبول نہیں۔ ڈیم چاہے بنے یا نہ بنے، ان نوادرات کو ہر حال میں محفوظ بنانا چاہیے۔

مگر شاید اس ورثے کے تحفظ کے بارے میں امیدیں قائم کرنا عبث ہے۔

پڑھیے: ایک نغمہ لاہور کی یاد میں

کراچی کی قدیم عمارتوں سے لے کر اندرونِ سندھ کے پرانے قلعوں تک لاتعداد تاریخی مقامات کہاں محفوظ کیے گئے ہیں جو ان پتھروں کی طرف کسی کی توجہ ہوگی۔

لاہور میں میٹرو بس اور اورنج لائن کی وجہ سے تاریخی مقامات کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے، مگر اس ہزاروں سال پرانے ورثے کی طرف کسی کی بھی توجہ نہیں ہے۔

ویسے یہ بھی ایک المیہ ہے کہ انتظامیہ مقامی لوگوں، حتیٰ کہ سرکاری اہلکاروں تک میں ان پتھروں اور ان پر درج تاریخی ورثے کی اہمیت کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ شاید اسی فقدان کا نتیجہ ہے کہ بعض مقامات پر ان پتھروں پر چونے کی مدد سے سیاسی، مذہبی اور سماجی نوعیت کے پیغامات بھی لکھے گئے ہیں۔

دیامر کا لازوال قدرتی حسن، اس کے پرخلوص اور محنت کش عوام، قدرتی وسائل, پُرتحیر تاریخ اور ثقافتی دفینے اس علاقے کے ماضی کی عظمت کے آئینہ دار اور درخشان مستقبل کے ضامن ہیں۔ اس ورثے کا تحفظ صرف حکومتی اور ریاستی اداروں کی نہیں، بلکہ ہر ذی شعور شہری کی ذمہ داری ہے۔

شہری تو یہ ذمہ داری ادا کرنے کے لیے ہر دم تیار نظر آتے ہیں، مگر کیا ریاست بھی قدم بڑھانے کے لیے تیار ہے؟

— تصاویر: مجیب الرحمٰن، ذوالفقار علی خان، شہاب غوری

Read Comments