Dawn News Television

شائع 10 جون 2016 06:02pm

ہندوستان کے بڑھتے قدم: پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

8 جون کو ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر براک اباما سے ملاقات کی جس میں عالمی وحدت، جوہری عدم پھیلاؤ، دفاع اور توانائی سمیت دیگر معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اس ملاقات میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ امریکی صدر نے ہندوستانی وزیر اعظم سے نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) کی رکنیت حاصل کرنے میں بھرپور تعاون کا وعدہ کیا ہے۔

دوسری اہم بات اس دستاویز پر اتفاق ہونا ہے جس کے تحت دونوں ممالک ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے کے فوجی نظام کا استعمال کر سکیں گے۔ این ایس جی کی یہ ملاقات سِیول میں ہونی ہے۔

یہ تصور کیا جاتا ہے کہ ہندوستان کی رکنیت کی راہ میں چین سب سے بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ چین پاکستان کو بھی اس کی رکنیت دلوانے کے حق میں ہے۔ یہ افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ اگر ہندوستان کو اس کی رکنیت مل گئی تو اسے ویٹو کا حق مل جائے گا اور وہ پاکستان کو اس گروپ کی رکنیت کبھی حاصل کرنے نہیں دے گا۔

امریکا پہنچنے سے پہلے ہندوستانی وزیر اعظم نے قطر کا دورہ کیا جہاں قطر کے سربراہ شیخ تمیم بن حماد الدھانی اور ہم منصب عبدالله بن نصیر سمیت دیگر اہم شخصیات سے ملاقات کی۔

اس دورے کے دوران ہندوستان اور قطر کے درمیان کل قومی سرمایہ کاری اور بنیادی ڈھانچے، فنڈ میں سرمایہ کاری سمیت سات معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ دونوں ممالک میں سرمایہ کاری کے علاوہ صحت کے شعبے میں تعاون، سیاحت، اسکل ڈولپمنٹ، کسٹم ٹیکس، نوجوانوں اور کھیلوں کے معاملات میں باہمی تعاون کے معاہدے پر بھی دستخط کیے گئے۔

قطر میں کیے جانے والے معاہدوں سے قبل نریندر مودی نے افغانستان کے دورے کے دوران افغان صوبے ہرات میں سلمیٰ ڈیم کا افتتاح کیا۔ سلمیٰ ڈیم ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ ہے جو ایران کی سرحد سے متصل صوبہ ہرات میں چشت شریف کے مقام پر واقع ہے۔ 30 کروڑ ڈالر کے اس منصوبے سے 42 میگا واٹ بجلی پیدا ہو سکے گی جبکہ 75 ہزار ایکڑ ایراضی کو پانی کی سہولت دستیاب ہو پائے گی۔

اس ڈیم کا سنگ بنیاد 1975 میں صدر داؤد کی دور حکومت میں رکھا گیا تھا اور سعودی عرب نے اس ڈیم پر سرمایہ کاری کی حامی بھری تھی لیکن ملک میں خانہ جنگی اور عدم استحکام کی وجہ سے یہ منصوبہ کئی دہائیوں تک التوا کا شکار رہا۔ ہندوستان - افغانستان دوستی کا نام دیے گئے اس ڈیم کی تعمیر اور اس کے اخراجات برداشت کرنے کا اعلان ہندوستان نے 2005 میں کیا تھا.

23 مئی (گزشتہ ماہ) ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی، افغان صدر اشرف غنی اور ایرانی صدر حسن روحانی نے تہران میں ایران کی بندرگاہ چابہار کے راستے افغانستان "ٹرانزٹ ٹریڈ" کی سہولت مہیا کرنے کے لیے سہ فریقی معاہدہ کیا تھا۔ ہندوستان نے ایران کی اس بندرگاہ پر 50 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کے ارادے کے علاوہ ایران میں کئی مشترکہ منصوبوں پر سیکڑوں ملین ڈالرز خرچ کرنے کے 12 منصوبوں کے معاہدوں پر دستخط کیے۔

ہندوستان جہاں خطے میں تعلقات بہتر سے بہتر بنانے میں مصروف ہے وہیں وہ عرب ممالک سے بھی تعلقات بہتر کرنے کے لیے کوشاں دکھائی دے رہا ہے۔

اسی ضمن میں اس نے رواں سال اپریل میں سعودی عرب کا دورہ کیا، اس دورے کے دوران ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کو سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے مملکت کے اعلٰی ترین سویلین ایوارڈ واسم الملک فیصل سے نوازا۔ جبکہ اس سے قبل متحدہ عرب امارت نے ہندوستان کو مندر کی تعمیر کے لیے ابوظہبی میں زمین بھی الاٹ کی۔

ہندوستانی وزیر اعظم ہندوستان کو معاشی اور دفاعی طور پر مضبوط بنانے کے لیے افغانستان، ایران، سعودی عرب اور قطر سمیت مختلف مسلمان ملکوں کے کامیاب دورے کر رہے ہیں مگر ہمارے ملک میں حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی تابڑ توڑ کوشش میں مصروف ہیں، جہاں حکومت اپنی فرائض سے غافل نظر آ رہی ہے وہیں اپوزیشن بھی ان کو فرائض یاد کروانے کے بجائے غیر اہم مسائل پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔

ایک لحاظ سے پاکستان اس وقت خطے میں اہم کھلاڑی کے بجائے تنہا کھڑا نظر آ رہا ہے جبکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کا اہم اتحادی امریکا بھی پاکستان سے پیچھا چھڑانے کے چکر میں کوشاں نظر آ رہا ہے۔ جس کی کھلی ڈھلی مثال ایف 16 طیاروں اور Coalition support Fund پر امریکا کی ٹال مٹول دی جا سکتی ہے۔

وہاں افغانستان بھی پاکستان سے علیحدہ کھڑا دکھائی دے رہا ہے اور متعدد بار افغانستان کے خلاف پاکستانی سرزمین کا استعمال ہونے کے الزامات لگا چکا ہے۔ افغانستان کے پاکستان سے اس رویے کے پیچھے ایک لمبی تاریخ ہے جس پر کسی اور موقع پر بحث کی جائے گی۔

اس وقت حکومت پاکستان کو پڑوسی ملکوں سے تجارتی اور سفارتی تعلقات پر توجہ دینی چاہیے مگر حکومت روایتی سیاست سے ملک کو مستقبل کے خطرات سے بچانے کے بجائے مزید مشکلات کی طرف دھکیل رہی ہے.

جبکہ حزب اختلاف کی جانب سے بھی ملک کی معاشی ترقی اور سفارتی تعلقات پر کوئی بحث نہیں کی جا رہی۔ حکومتی پالیسیوں پر نظر رکھنے اور انہیں درست کرنے میں اہم کردار ادا کرنے والا میڈیا بھی اپنی توجہ ملک کو درپیش مشکلات اور آئندہ کے ممکنہ خطرات پر بحث کرنے کے بجائے حکومت اور حزب اختلاف کے مابین پانامہ لیکس پر جاری نورا کشتی پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔

اس وقت ملک کی خارجہ پالیسی، جس کا ملک کے دیگر ممالک سے تعلقات میں اہم کردار ہوتا ہے، مکمل طور پر ناکام اور غیر متحرک نظر آ رہی ہے جبکہ حکومتی صفوں میں ایسی کوئی شخصیت بھی نظر نہیں آ رہی ہے جو اس معذور اور پولیو زدہ محکمہ خارجہ کا علاج تلاش کر کے اسے متحرک اور تندرست بنا سکے.

اس وقت حکومت اور اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر پانامہ لیکس کے معاملے کو حل کر کے ملک کے سفارتی تعلقات اور معاشی ترقی پر اپنی توجہ مرکوز کریں اور ان کے حل کے لیے کارآمد حکمت عملی اپنائے۔

جبکہ صرف بینظیر انکم سپورٹ کے تحت اچھی خاصی عوام کو بھکاری بنانے کی حکمت عملی تک محدود رہیں تا کہ اس کے ذریعے آئندہ ووٹ بٹور کر ملک کو ایک اور بیماری سے دو چار کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملکی میڈیا پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھی حکومت اور اپوزیشن دونوں کی توجہ خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی جانب مرکوز کروائے۔

Read Comments