Dawn News Television

شائع 16 جون 2016 03:46pm

تعلیم یافتہ پاکستان: جہاں مالی اور چوکیدار بھی ماسٹرز

چکوال میں حالیہ دنوں ہزاروں افراد نے ماسٹرز ڈگری کے ہمراہ محکمہ تعلیم میں چوکیدار اور مالی کی ملازمتوں کے لیے درخواستیں جمع کروائیں۔ پورے ملک میں کالجز اور یونیورسٹیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے نوجوان گریجوئیٹس کی ایک کثیر تعداد پیدا کر دی ہے جس کا تعلق ورکنگ کلاس خاندانوں سے ہے۔

تاہم مایوس کن معیشت نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارے پاس تعلیم یافتہ بے روزگار افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

اس سے بھی افسوس ناک بات یہ ہے کہ ملازمت کے مواقع پیدا کرنا ہماری حکمران اشرافیہ کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔

جہاں ہمارے ملک میں پانامہ گیٹ اور مرد کو اپنی بیوی کو کس شدت سے مارنا چاہیے جیسی باتوں پر بے جا توجہ مرکوز کر کے جو ایک فضا قائم کی گئی ہے وہاں اب معاشی ترقی کسی کے بھی ایجنڈا پر زیادہ دکھائی نہیں دیتی۔

شرح روزگار کے اعداد و شمار مبہم کیوں کر دیے جاتے ہیں؟

پاکستانی نوجوانوں میں بے روزگاری اور عارضی ملازمتوں کی شرح کتنی ہے، اس بارے میں مستند اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو سرکاری طور پر موجودہ شرح بے روزگاری کا تناسب 6 فی صد سے بھی کم ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مجموعی آبادی میں افرادی قوت (بے روزگار افراد) کا بہت چھوٹا سا حصہ ملازمت کی تلاش میں مصروف ہے۔

یہ اعداد و شمار مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر گمراہ کن ہو سکتے ہیں:

پہلی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں خواتین ورکرز افرادی قوت کی شماریات میں شمار ہی نہیں کی جاتی۔ اگرچہ وہ بالغ خواتین جو ملازمت کی صلاحیت رکھتی ہیں پھر بھی وہ افرادی قوت کی شماریات سے خارج ہو جاتی ہیں۔

اب چونکہ ورلڈ بینک کے نزدیک وہ افراد جن کی عمر 15 سال یا اس سے زیادہ ہے اور وہ ملازمت کی تلاش میں ہیں تو وہ افرادی قوت کا حصہ ہے۔ اس لحاظ سے ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان کی افرادی قوت کا تخمینہ 6 کروڑ 50 لگایا جاتا ہے۔

اب پاکستان کی آبادی کا تخمینہ 19 کروڑ 60 لاکھ ہے اس طرح آبادی کا ایک تہائی حصہ افرادی قوت (ملازمت کے لائق آبادی) میں شمار ہو جاتا ہے، اور دیکھا جائے تو یہ تعداد باقی ترقی یافتہ معیشتوں کے مقابلے میں انتہائی کم نظر آتی ہے جہاں افرادی قوت تقریباً 60 فی صد ہے۔

لہٰذا ان اعداد و شمار کے بجائے اگر ہم پاکستان میں دیکھیں تو 60 فی صد سے زائد آبادی کا حصہ 15 سال سے 64 سال کی عمر کے افراد پر مشتمل ہے۔ اس لحاظ سے مجموعی افرادی قوت (ملازمت کرنے لائق افراد) کے تناسب کی بالائی حد 6 کروڑ 50 لاکھ کے بجائے 11 کروڑ 70 لاکھ ہونی چاہیے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ جو لوگ ملازمت تلاش کر رہے ہیں، حکومت اس کا تخمینہ کس طرح لگاتی ہے؟ اعداد شمار اکٹھا کرنے میں ریاستی عدم دلچسپی کی وجہ سے سرکاری شماریات قابل اعتماد نہیں ہیں جب کہ پاکستان میں 1998 کے بعد سے مردم شماری بھی نہیں ہوئی ہے۔

نتیجتاً پاکستان میں نہ صرف افرادی قوت کی شرح درست شمار نہیں ہو پاتی بلکہ ہمیں بے روزگار افراد کی بھی درست تعداد معلوم نہیں۔

ذرائع: ادارہ شماریات پاکستان

اب اگر حکومت 35 سال سے 39 سال کی عمر والے افراد میں بے روزگاری کی شرح ایک عشاریہ 98 فی صد رپورٹ کرے تو اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں۔ 35 سے 39 سالوں کی عمر والے دیہی مردوں میں بے روزگاری کی رپورٹ کردہ شرح کی حالت تو اور بھی بدتر ہے جو کہ محض ایک فی صد ہی بتائی جاتی ہے۔

بے روزگاری کے معاملے پر اگر ہم ان سرکاری اعداد شمار کو دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ ملازمت کے مواقع پیدا کرنے میں پاکستان کی معیشت مغربی معیشتوں کو مات دے رہی ہے۔

عارضی روزگار کیا ہے؟

بے روزگاری کے مسئلے کو مبہم اعداد شمار کے ذریعے خارج کرنے کے باوجود ریاست عارضی روزگار جیسے بے روزگاری سے بھی بڑے چیلنج پر سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی۔

میں عارضی روزگار کو یوں بیان کروں گا کہ وہ لوگ جو ایسی ملازمتوں سے وابستہ ہیں جہاں انہیں مناسب تنخواہ نہیں دی جاتی یا پھر وہ ایسے عہدوں پر فائز ہیں جو ان کی تعلیمی قابلیت کے مقابل نہیں ہیں۔ مثلاً اگر چکوال میں کوئی ماسٹرز ڈگری رکھنے والا شخص مالی کا کام کرتا ہے تو وہ بے روزگار نہیں کہلائے گا بلکہ اسے عارضی ملازم یا عارضی طور پر برسر روزگار کہا جائے گا۔

اپنی اہلیت کے مطابق ملازمت نہ ہونے کی وجہ عارضی طور پر برسر روزگار ان افراد کی صلاحیتوں کا ملک کی معاشی ترقی میں حصہ اہنے تناسب سے بہت کم ہوتا ہے۔

عارضی روزگاری کے حالیہ تخیمنے حاصل کرنا بہت مشکل ہیں۔ حکومت عارضی ملازم کی تقسیم پر رپورٹ تو فراہم کرتی ہے مگر ان کے مکمل اعداد و شمار فراہم نہیں کرتی۔

ریاست جس طرح عارضی روزگار کو بیان کرتی ہے میرے نزدیک وہ بیانیہ زیادہ تشویش کا سبب ہے۔

ریاست کے نزدیک جو لوگ ایک ہفتے میں 35 گھنٹوں سے کم کام کرتے ہیں وہ عارضی ملازم ہیں۔ اس تعریف کے تحت وہ لوگ جو 35 گھنٹے یا اس سے زائد گھنٹے کام کرتے ہیں وہ منافع بخش روزگار سے وابستہ ہیں، مطلب یہ کہ وہ اپنی خاندانوں کی کفالت کرنے لائق پیسے کما رہے ہیں۔

چاہے بے روزگاری ہو یا پھر عارضی روزگار کے اعداد شمار، پاکستان جیسی جدو جہد کرتی معیشتوں کے لیے دونوں کافی بے معنی ہیں۔ کیونکہ حکومت کے تخمینے کے مطابق بھی 6 کروڑ پاکستانی یعنی 29.5 فی صد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارتے ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کے اندازے کے مطابق پاکستانیوں کا ایک بہت بڑا حصہ (44 فی صد) غریب ہیں۔

تاہم، بے روزگاری کی شرح کو مثبت انداز میں دکھانا فضول ہوگا کیونکہ آبادی کی ایک بہت بڑی تعداد جسے حکومت برسر روزگار تصور کرتی ہے وہ اپنے خاندانوں کی کفالت کرنے لائق پیسے نہیں کما رہی۔

حصول روزگار کے لیے بے جوڑ تعلیم - ملازمت کا راستہ

جنرل مشرف کے دور حکومت میں کئی گنا بڑھتی آبادی میں نئی یونیورسٹیوں کے قیام اور موجودہ یونیورسٹیوں کے پھیلاؤ (یونیورسٹی کی سائز) کی مہم شروع کی گئی۔

گو کہ گریجوئیٹس کی تعداد پر تو کسی قسم کی بحث کی ضرورت نہیں مگر ان کے معیار کو بلاشبہ زیر بحث لایا جاسکتا ہے۔

جب گریجوئیٹس کی ایک بڑی تعداد کالج اور یونیورسٹیوں سے فارغ ہونے کے بعد ملازمتوں کی تلاش میں نکلی تو ملازمتیں دستیاب ہی نہ تھیں۔ تاہم بہت سے گریجوئٹس بے دلی سے اپنی تعلیم سے بے جوڑ ملازمت کو اپنانے پر مجبور ہو گئے۔ جس کی مثال ہمیں چکوال میں بھی دیکھنے کو ملی۔

پاکستان میں یونیورسٹیاں گریجوئیٹس کو ملازمت کی مارکیٹ کے لیے تیار نہیں کر رہی ہیں۔ یونیورسٹی کے زیر اہتمام کریئر سینٹرز قائم کیے جاتے ہیں جہاں طالب علموں کو انٹرویو اور پریزنٹیشن اسکلز سکھائے جاتے ہیں لیکن اس قسم کے سینٹرز پبلک سیکٹرز یونیورسٹیوں میں موجود ہی نہیں ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیاں عام سطح پر یہ ظاہر ہی نہیں کرتی ہیں کہ گریجوئیشن کے ایک سال کے بعد کتنے فیصد گریجوئیٹس روزگار حاصل کر سکے۔ اس طرح نئے طالب علم جن ڈگریز کے حصول کے خواہشمند ہوتے ہیں، ان کے لیے ان ڈگریز کی افادیت کا تعین کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

پاکستان میں شرح پیدائش کا تناسب زیادہ ہونے کے ساتھ ہر سال افرادی قوت میں کروڑوں میں اضافہ ہو رہا ہے، لہٰذا ملازمت کے مواقع پیدا کرنا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی اولین ذمہ داری ہونی چاہیے۔

ڈومیسٹک مارکیٹ کو مستحکم بنانا ریاست کی سب سے اہم ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ نجی سیکٹر کو بھی خاطر خواہ سہولیات فراہم کی جائیں تا کہ اس کے بدلے میں نئی ملازمتیں پیدا ہو سکیں۔

ریاست کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے قیمتی انسانی سرمایے کو برباد نہ کرے جو ہمیں موجودہ حالات میں ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

انگلش میں پڑھیں

Read Comments