دنیا

'امریکا سے تعلقات ڈالرز کی بنیاد پر نہیں'

کئی معاملات پر امریکا کے ساتھ اختلاف موجود ہیں لیکن عالمی سطح پر تعلقات میں اونچ نیچ آتی رہتی ہے،پاکستانی سفیر جلیل عباس

اسلام آباد: امریکا میں پاکستان کے سفیر جلیل عباس جیلانی نے واضح کیا ہے کہ پاک- امریکا تعلقات نہ تو ڈالرز کی بنیاد پر ہیں اور نہ ہی انہیں اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'ان فوکس' کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں جلیل عباس جیلانی کا کہنا تھا کہ 30 کروڑ ڈالر کی فوجی امداد کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہمیں ان مثبت چیزوں پر بات کرنے کی ضرورت ہے جن میں کافی پیش رفت ہوئی۔

تاہم، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کئی معاملات ایسے ہیں جن پر پاکستان کے امریکا کے ساتھ اختلاف موجود ہیں، کیونکہ عالمی سطح پر تعلقات میں اونچ نیچ آتی رہتی ہے۔

انھوں نے پاک-امریکا تعلقات کو مضبوط قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ تعلقات صرف فوجی امداد نہیں، بلکہ کئی اور پہلوؤں پر مشتمل ہیں۔

اسلام آباد میں حال ہی میں منعقد ہونے والی 3 روزہ سفراء کانفرنس پر بات کرتے ہوئے جلیل عباس جیلانی نے کہا یہ ایک مثبت پیش رفت تھی جس میں پاک- امریکا تعلقات، مسئلہ کشمیر سمیت خطے کو درپیش تمام اہم مسائل زیر بحث آئے۔

انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اس وقت ایک درست سمت کی جانب گامزن ہے۔

امریکی ایوان نمائندگان کے حالیہ بیانات سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کانگریس میں پاکستان کو بہت اچھی حمایت حاصل ہے اور ایک یا دو لوگوں کی مخالفت سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کے اس بیان کی وضاحت کرتے ہوئے جس میں انھوں کہا تھا کہ امریکا اپنی ضرورت کے تحت ہمارے پاس آتا ہے، جلیل عباس جیلانی کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان کے مفادات ہیں تو امریکا کو بھی اپنے مفادات کا بالکل حق حاصل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا پاکستان کے ساتھ کئی شعبوں میں تعاون کررہا ہے جن میں دیا میر بھاشا ڈیم اور ڈاسو ڈیم بھی شامل ہیں۔

پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ اس سال ایف 16 طیاروں کی فنڈنگ پر مسئلہ پیدا ہوا، لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ گذشتہ سال امریکا نے 1 ارب ڈالر تک فوجی امداد دی تھی۔

انھوں نے کہا کہ امریکی ڈرون حملوں پر ہم نے ہمیشہ سے سخت مؤقف اختیار کیا اور جس طرح حال ہی میں بلوچستان میں حملہ کیا گیا تو اس پر بھی پاکستان نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا تھا، کیونکہ ان حملوں سے سلامتی کو خطرات درپیش ہیں، لہذا یہ کسی صورت بھی قابلِ قبول نہیں ہوسکتے۔

خیال رہے کہ حال ہی میں امریکا نے پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں 30 کروڑ ڈالر کی فوجی امداد روک دی تھی۔

مزید پڑھیں: کولیشن سپورٹ فنڈ:امریکا کا پاکستان کو30 کروڑڈالر دینےسےانکار

ایک امریکی عہدے دار نے بتایا تھا کہ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں 30 کروڑ ڈالر کی فوجی امداد نہیں دے گا کیوں کہ وزیر دفاع ایش کارٹر نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ کانگریس میں اس بات کی تائید نہیں کریں گے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف موثر کارروائیاں کررہا ہے۔

پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات ایک دہائی سے تنائو کا شکار ہیں اور امریکی حکام کا موقف ہے کہ پاکستان دہشتگرد گروپس افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف موثر کارروائیاں نہیں کررہا۔

پینٹاگون کے اعداد و شمار کے مطابق 2002 سے اب تک پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں 14 ارب ڈالر جاری کیے جاچکے ہیں۔

پاکستان کو فوجی امداد دینے کے حوالے سے امریکی کانگریس میں کافی مخالفت پائی جاتی ہے اور کئی ارکان پاکستان کے جوہری پروگرام، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی عزم اور افغانستان میں امن عمل میں پاکستان کے کردار پر ضدشات ظاہر کرچکے ہیں۔

مارچ میں ری پبلکن سینیٹر بوب کورکر نے کہا تھا کہ وہ سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو 70 کروڑ ڈالر کے ایف سولہ طیاروں کی خریداری کے حوالے سے امریکی فنڈنگ روک دیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: ایف 16 طیارے:’پاکستان کو خود فنڈز دینے ہوں گے‘

واضح رہے کہ امریکی محکمہ دفاع نے اتحادی ممالک میں دہشتگردی اور شدت پسندی کے خلاف جنگ پر آنے والے اخراجات پورے کرنے کیلئے کولیشن سپورٹ کے نام سے پروگرام شروع کررکھا ہے اور پاکستان اس کا سب سے بڑا وصول کنندہ ہے۔

یاد رہے کہ امریکا کی جانب سے پاکستان 30 کروڑ ڈالر کی فوجی امداد روکنے کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب اسلام آباد سفیروں کی ایک اہم کانفرنس جاری تھی۔