Dawn News Television

اپ ڈیٹ 08 ستمبر 2016 03:36pm

پیارے عمران خان! یہ آخری اوور ہے

مجھے عمران خان ایک محب وطن انسان لگتا ہے۔ وفادار ہے اور جی دار بھی۔

'تبدیلی' اس کے لیے ایک نعرہ ہی نہیں، بلکہ دل کی گہرائیوں سے پھوٹنے والی شدید خواہش بھی ہے اور وہ اپنی اس پہلی اور آخری محبت کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار رہتا ہے، ہر طریقہ اور ہر حربہ، جو بھی جیسے بھی ممکن ہو۔

وہ بہادر پختونوں کی طرح لمبی اننگ کھیلا اور آگے بھی کھیلنے کو تیار ہے۔ حکمتِ عملی اور فیصلوں کی غلطیاں کس سے نہیں ہوئیں؟ اس سے بھی ہوئی ہیں اور ہوں گی۔

مگر مجھے دکھ ہے کہ وہ "فرینڈلی فائرنگ" کا شکار ہوا اور ہوتا رہے گا۔ مجھے دکھ ہے کہ ایک محبِ وطن انسان کے خواب اپنوں ہی کے ہاتھوں "شب خون" میں مارے جائیں گے۔

مجھے افسوس ہے کہ وہ جب جب بھی تیر کھا کر کمین گاہ کی طرف دیکھے گا تو اس کی ملاقات اپنے ہی "دوستوں" سے ہو جائے گی۔

پڑھیے: پی ٹی آئی کے حامی کا عمران خان کو مشورہ

عمران جیسے شیر دلوں کو کبھی نواز و شہباز جیسے "کاغذی شیر" نہیں ہرا سکتے۔

عمران جیسے مخلص لوگوں کو زرداری جیسے 'پکے سیاستدان' بھی شکست سے دوچار نہیں کر سکتے۔

اس جیسے لوگوں کو مشکلیں ہرا نہیں پاتیں، بلکہ باد مخالف تو انہیں اونچا اڑاتی ہے۔ مگر یہ اکثر اپنی سادہ لوحی میں عمران اسماعیل، نعیم الحق اور شاہ محمود قریشی جیسے لوگوں کو خود اپنی صفوں میں شامل کرتے ہیں، اور یہی ان کے انجام کے لیے کافی ہوتے ہیں۔

کاش عمران کے گرد کوئی اسی جیسے محب وطن لوگ جمع ہو پاتے۔

کاش عمران کو کچھ اسٹریٹیجک پلانرز مل جاتے۔

قاضی حسین احمد کے ساتھ ساتھ کرک کے سفر میں جب میں نے کہا کہ قائد کی کامیابی میں دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت ہی اہم ہوتی ہے تو انہوں نے کار کی اگلی سیٹ سے پیچھے مڑ کر میری طرف دیکھا اور بولے "آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں"۔

ان کی آواز میں موجود درد صاف محسوس کیا جا سکتا تھا۔ پھر کافی دیر تک گاڑی میں گہری خاموشی چھائی رہی۔

عمران کی جدوجہد کی اننگ بھی اب ختم ہونے کو ہے۔ ایک پوری نسل اس کے عزم اور حوصلہ کے سائے میں پروان چڑھ کر جوان ہوئی۔

اس نسل نے اس شخص سے حوصلہ اور امید کشید کی، امنگ اور تڑپ پائی اسے معاشرے کے ہر طبقہ سے پذیرائی ملی۔

مزید پڑھیے: میں اب پی ٹی آئی کا دفاع کیوں نہیں کرتا

کارپوریٹ کلچر کے عادی لوگ اس کے لیے بروئے کار آئے۔ مقتدر قوتوں نے اس کے سر پر دست شفقت رکھا، غیرت مند پٹھانوں کی عورتوں تک نے اس کے لیے گھر سے نکل کر ووٹ ڈالا۔

مگر افسوس عمران کی شخصیت کی خامیاں۔

مگر افسوس دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت کا غلط انتخاب۔

مگر افسوس سیاسی حکمت اور جوڑ توڑ کے اسرار و رموز سے لا علمی۔

افسوس، پلاننگ کی اہمیت نہ جاننے کے سبب یہ قیمتی امکان بروئے کار نہ آ سکا اور نہ ہی شاید آ سکے گا۔

افسوس ایک پوری نسل پھر مایوسی کے سمندر کی طرف بڑھ کر بانجھ ہونے کو ہے۔

آنے والے کل کا اداس سورج ہر درد مند انسان کی طرح قوم کے اس نقصان پر افسردہ ہے۔

پی ٹی آئی کے مخالفین کراچی کا جلسہ شروع ہونے سے قبل کی چند تصویروں کی بناء پر کہہ رہے ہیں کہ جلسہ ناکام تھا۔

ایک جلسے اور چند تصویروں کی بنیاد پر پی ٹی آئی کو ناکام اور فلاپ کہنا کسی کی خواہش تو ہو سکتی ہے خبر نہیں۔

یہ درست ہے کہ عمران اسماعیل جیسے لوگ آخری کیلیں اپنے ہاتھوں سے بڑی مہارت اور صفائی سے ٹھوکتے ہیں۔

یہ بھی درست ہے کہ پی ٹی آئی کراچی میں اپنی ٹیم کو متحرک کرنے میں ناکام رہی۔

یہ بھی درست ہے کہ جلسے کی مہم کسی نہایت اناڑی نے بہت بے دلی سے چلائی۔

یہ بھی ممکن ہے کہ خوش فہمی سر چڑھ کر بولی۔

پر اگر بات انصاف سے کی جائے تو محض ایک جلسہ، محض ایک نااہل شخص، محض ایک ناکام مارکیٹنگ مہم کی بنیاد پر رائے بنانا درست نہیں ہو گا۔

جانیے: عمران خان کی پانچ غلطیاں

پر اگر عمران خان نے اس بات کو نہ سمجھا کہ کراچی میں وہ اینٹی ایم کیو ایم ووٹ لیتا رہا ہے اور اس کا اصل کیمپ وہی ہے، اور اپنے لوگوں کو غلطیوں پر غلطیاں کرنے دیں۔

اگر اس نے یہاں کی ٹیم کے جعلسازوں اور نوسربازوں کو نہ پہچانا۔

تو اس کا سمجھدار ووٹر تیزی سے تحلیل ہو جائے گا۔

پیارے عمران خان! یہ آخری اوور ہے.

اور جیت کے لیے تیز رننگ اور اسٹیڈیم سے باہر کے چھکے چاہئیں۔

جبکہ کریز کے دوسری طرف موجود کھلاڑی اگر دشمن سے ملا ہوا نہیں تو بھی لنگڑا اور غیر ذمہ دار ضرور ہے۔

تماشائیوں کی نظریں بس اب تم پر ہیں.

تم حیران کر دینے والے کام تو کرتے رہے ہو۔

مگر لگتا یہ ہے کہ 'امپائر' کے اشاروں کی امید نے تمہاری قوت فیصلہ چھین لی ہے اور حوصلہ کمزور کر دیا ہے۔

پڑھیے: 'عمران خان متحدہ سے این او سی لے کر جلسہ کرتے تھے'

اب کیا کیا جائے کہ امپائر سے تعارف کو تمہیں ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں اور ہم امپائر کو دہائیوں سے جانتے ہیں.

اس امپائر نے تم سے پہلوں کو بھی کئی بار غلط آوٹ دیا ہے بلکہ ان کے چھکے تک کھا گیا ہے۔

یہ بیک وقت دونوں ٹیموں کے ساتھ ہوتا بھی ہے اور نہیں بھی ہوتا۔ امپائر اصل میں کس کے ساتھ ہے، اس کا شاید اسے خود بھی ٹھیک پتہ نہیں۔ ہاں اس کے ڈسٹ بن، جیب اور ہاتھ میں مختلف رنگوں کے "ٹشو پیپرز" دیکھے گئے ہیں۔

ممکن ہے کہ یہ چوکے کا اشارہ دے کر پہلے خوش کرے اور پھر اگلی نوبال پر آؤٹ دے دے۔

اور ہاں امپائر امپائر ہے، "جنگل کا بادشاہ" کچھ بھی کر سکتا ہے۔

انڈہ دے، بچہ دے، دونوں دے، دونوں نہ دے۔

قوم نے امپائر پر نہیں، تم پر بھروسہ کیا ہے اور تم امپائر پر بھروسہ کر کے بیٹھ گئے۔

دیکھو آخری اوور ہے، ٹورنامنٹ تو جاری رہے گا، مگرتمہاری ٹیم (اگر اسے 'ٹیم' کہنا درست ہو تو) کیا کرے گی؟ کب تک اندر رہے گی اور کب باہر ہوگی؟ اس پر نظر رکھنا تمہارا کام ہے۔

Read Comments