Dawn News Television

اپ ڈیٹ 27 دسمبر 2016 02:32pm

کیا سی ایس ایس صرف 'تابعداری' کا امتحان ہے؟

سینٹرل سپیریئر سروسز (سی ایس ایس) کے تازہ ترین امتحانات، جس میں 10,000 امیدوار شریک ہوئے جن میں سے صرف 200 امیدوار پاس ہوئے، کا نتیجہ جاری ہونے کے بعد تبصروں کا ایک سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ حسبِ توقع زیادہ تر تبصروں میں تعلیم کے گرتے معیار پر افسوس کا اظہار شامل ہے۔

لیکن تبصروں میں سے کچھ کافی دلچسپ ہیں۔ ان تبصروں میں امتحان کے میرٹ پر ہونے اور بے انتہا شفاف ہونے کی تعریف کی گئی ہے۔ ایسے افراد کا مؤقف ہے کہ اس امتحان سے سول سروسز کے لیے بہترین افراد کا انتخاب ممکن ہو پاتا ہے جو کہ ان کے نزدیک سول سروسز کے مفاد میں بہتر ہے۔

میرا یہ سوال ہے کہ کیا یہ دعویٰ درست ہے؟ میں ثبوت، مشاہدے اور تحقیقات کی بنیاد پر دلائل دوں گا۔

سب سے پہلے ثبوت کی بات کرتے ہیں۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے تو سول سروس کا معیار وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہونا چاہیے تھا۔ مگر حقیقت میں سروسز کے لوگ بھی قبول کرتے ہیں کہ دور دور تک بھی ایسا نہیں ہے۔

پڑھیے: سی ایس ایس کے پرچے میں گرامر کی غلطیاں

دوسرے نمبر پر مشاہدے کی بات کرتے ہیں: میں کئی دہائیوں سے مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھا رہا ہوں، اور میں نے دیکھا ہے کہ تخلیقی اور شعوری صلاحیتیں رکھنے والے زیادہ تر طلبا اس امتحان میں ناکام رہے، جبکہ نسبتاً اوسط معیار کے حامل طلبا کامیاب ہوئے ہیں۔

یہ مشاہدہ میرے لیے اتنے تجسس اور دلچسپی کا باعث بنا کہ گزشتہ دو سالوں میں میں نے سی ایس ایس امتحان میں بیٹھنے والے کئی طلبا سے امتحان کے متعلق ان کے تجربات کے حوالے سے بات چیت کی۔

یہاں پر ایک مثال پیش ہے: ایک طالب علم، جو SAT کے رائٹنگ ٹیسٹ میں 94 پرسنٹائل (94 فیصد طلباء سے زیادہ اسکور)، بی اے کے رائٹنگ اور کمیونیکیشن کورس میں اے پلس گریڈ، GRE کی مضمون نویسی میں 85 پرسنٹائل اور TOEFL میں 100 پرسنٹائل حاصل کرتا ہے، جب سی ایس ایس امتحان کے انگلش مضمون نویسی کے پرچے میں بیٹھتا ہے تو اسے 100 میں سے 12 نمبرز دیے جاتے ہیں اور وہ فیل ہو جاتا ہے۔

اس کے برعکس کئی ایسے طلبا جو ایک مربوط پیراگراف بھی لکھنے میں دشواری محسوس کرتے تھے، وہ مضمون نویسی کا پرچہ پاس کر لیتے ہیں۔

کہیں کچھ تو مسئلہ تھا، اور میری تحقیقات مجھے اس مفروضے تک لے آئیں کہ: ایک امتحان سختی کے ساتھ میرٹ پر مبنی ہوسکتا ہے، انتہائی شفافیت کے تحت لیا جاتا ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ وہ مکمل طور پر گمراہ کن بھی ہوسکتا ہے۔

مزید پڑھیے: سی ایس ایس امتحانات: 92 فیصد طلبہ ’انگریزی‘ میں فیل

کسی بھی امتحان پر اپنی رائے دینے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس امتحان کے ذریعے کون سی چیزوں کو پرکھا جاتا ہے۔ میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ سی ایس ایس امتحان ذہانت یا تخلیقی صلاحیتوں یا زبان پر عبور کو نہیں پرکھ رہا ہے۔

اس کے بجائے میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اس میں معاشرے میں مروج بیانیے کی اطاعت، سرکاری طور پر منظور شدہ نظریے سے وفاداری اور اسٹیٹس کو پر سوال اٹھانے سے دستبرداری کو پرکھا جاتا ہے۔

میں نے یہ پایا ہے کہ یونیورسٹی کی چار سالہ تعلیم، چاہے اس ملک کے بہترین ادارے کی ہی کیوں نہ ہو، وہ سی ایس ایس امتحان میں کامیابی دلانے کے لیے کافی نہیں ہے۔

کسی کوچنگ سینٹر میں اس امتحان کی تیاری کے لیے تقریباً ایک سال درکار ہوتا ہے جہاں طلبا کے ذہنوں میں سوالوں کے وہ روایتی جوابات بٹھائے جاتے ہیں جو ممتحن کے نزدیک قابل قبول ہوں۔ طلبا کو بتایا جاتا ہے کہ کن مصنفین یا لکھاریوں کے حوالے امتحان میں دیے جا سکتے ہیں اور کن سے ہر حال میں بچنا چاہیے۔ یہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ جواب کا کون سا حصہ ہائی لائٹ کرنا ہے۔

اس کے بعد کچھ ایسے سوالات ہوتے ہیں جن کے بارے میں امیدواروں کو اپنی رائے کا اظہار نہ کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے، بلکہ امیدواروں کو بنا کوئی غلطی کیے قابل قبول جوابات مطلوبہ طریقہ کار کے تحت لکھنے کو کہا جاتا ہے۔ کئی سوالات اس طرح ترتیب دیے جاتے ہیں کہ صرف ایک قابل قبول اور محفوظ جواب لکھنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں بچتا۔

ہوشیار طلبا کوچنگ سینٹرز کے طریقہ کار سے آگاہ ہونے کے باعث اس اعتماد کے ساتھ ان کوچنگ سینٹرز میں داخلہ لیتے ہیں کہ ایک بار امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد وہ اپنے نظریات پر واپس لوٹ سکتے ہیں۔

جانیے: سی ایس ایس رٹا کلچر کو کیسے فروغ دیتا ہے؟

جہاں چند امیدوار ایسا کرنے میں کامیاب رہتے ہیں، وہاں کئی امیدواروں کی شخصیت میں مکمل طور پر تبدیلی رونما ہو چکی ہوتی ہے۔ یہ ذہن سازی کا مؤثر ترین طریقہ ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو مہنگی فیسوں والی سی ایس ایس اکیڈمیز وہی کام کر رہی ہیں جن کی وجہ سے مدارس پر تنقید کی جاتی ہے۔

مختصراً کہیں تو گزشتہ چند برسوں سے سی ایس ایس امتحان میں ایسے امیدوار منتخب کیے جاتے ہیں جو 'کرنا یا مرنا' جانتے ہیں، نہ کہ وہ جو دلیل کی بنیاد پر 'کیوں' کہیں گے، اور مجھے لگتا ہے کہ یہ سب جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے۔

مجھے امید ہے کہ میں غلط ثابت ہوں، مگر مجھے غلط ثابت کرنے کے لیے آپ کو اس نظام پر کھل کر جائزہ لینا ہوگا۔

میں آپ کو یہ مشورے دے سکتا ہوں۔ پہلا یہ کہ چوں کہ تمام امیدوار گریجوئیٹس ہیں، اس لیے حالیہ تحریری امتحان میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کا ایک بین الاقوامی معیار کا ٹیسٹ، مثالی طور پر GRE سطح کا ٹیسٹ لیا جائے۔ چوں کہ کامیاب امیدواروں کی تعداد صرف 200 ہے تو یہ کام اتنا دشوار بھی نہیں ہوگا اور اس طرح فوری طور پر سول سروس کا حصہ بننے والے افراد کی بین الاقوامی معیار کے مقابلے میں اہلیت کا بھی اندازہ ہو جائے گا۔

دوسرا مشورہ یہ ہے کہ سی ایس ایس امتحان کے پرچے اور کامیاب امیدواروں کی جوابی کاپیوں کے مختلف نمونے ایک بین الاقوامی پینل کے حوالے کرنے چاہیئں۔ پینل میں ان ممالک کے سلیکشن بورڈ کے نمائندے شامل ہوں جن کی سول سروسز اعلیٰ معیار کی تصور کی جاتی ہیں، مثلاً برطانیہ، فرانس اور سنگاپور۔ پھر وہ پینل اسی ایس ایس کے سلیکشن کے نظام میں کمزوریوں کی نشاندہی کرے اور مناسب رد و بدل کی تجاویز پیش کرے۔

پڑھیے: سی ایس ایس میں اصلاحات اور وژن 2025

سول سروس کا دانشورانہ معیار ان پروگرامز پر عملدرآمد کروانے کی اس کی اہلیت میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے جن پر ملک کا مستقبل منحصر ہے۔

سروس کا حصہ بننے کے لیے امیدواروں کو اپنے نظریات تبدیل کرنے پر مجبور کرنا خطرناک عمل ہے۔ ان کی قابلیت اور صلاحیت کو جانچنے کے لیے ان کی سلیکشن کا عمل یقینی طور پر مؤثر بنانا لازمی ہے۔

اگر سول سروس میں اصلاحات کے لیے حکام مخلص ہیں، تو وہ ان خطرات کو ضرور مدِنظر رکھیں گے۔

انگلش میں پڑھیں

لکھاری دی ساؤتھ ایشین آئیڈیا ویب بلاگ چلاتے ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 20 دسمبر 2016 کو شائع ہوا۔

Read Comments