Dawn News Television

اپ ڈیٹ 02 جنوری 2017 11:34am

طیبہ انصاف کیلئے کس کے دروازے پر جائے؟

اس کی عُمر دس برس ہے اور اس کے جسم پر جابجا زخموں کے نشان ہیں، تصویر میں ماتھے سے لے کر گردن تک جمے ہوۓ خون کی ایک پتلی سی لکیر نظر آرہی ہے۔ آدھے چہرے پر سوزش کی وجہ سے دائیں آنکھ کھلنے سے قاصر ہے، ہاتھوں پر جلائے جانے کے واضح نشان ہیں۔

سر کے چھوٹے بڑے بال دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شاید کسی غلطی کی سزا کے طور پر بے دردی کے ساتھ انہیں کاٹ دیا گیا ہے۔ بدترین تشدد کی شکار طیّبہ کا تعلق شام یا روہنگیا یا فلسطین سے نہیں، بلکہ وہ مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی باسی ہے، اور اس کے دارالحکومت اسلام آباد میں 'انصاف' فراہم کرنے کے ذمہ دار ایک سیشن جج کے گھر ملازمہ ہے۔

طیّبہ کا تعلق پاکستان کے ان لاکھوں بدنصیب بچوں میں سے ہے جن سے مشقت کروائی جاتی ہے اور غریب ہونے کی پاداش میں غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

قرضدار غریب خاندان اپنے قرضوں کی ادائیگی کے عیوض یا گھر کا خرچہ چلانے کے لیے ان معصوم بچوں کو فیکٹریوں، کھیتوں یا متمول گھرانوں میں چھوڑ جاتے ہیں جہاں اکثر و بیشتر مالکان ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرتے ہیں۔ مناسب صحت بخش ماحول، نشونما اور تحفظ سے محروم یہ بچے ہر طرح کی زیادتی کا سامنا کرتے ہیں لیکن اپنے لیے آواز نہیں اٹھا پاتے۔

پڑھیے: گھریلو ملازمہ پرتشدد کا مقدمہ،ایڈیشنل سیشن جج پر الزام

جج صاحب کے پڑوسیوں نے بچی کی حالت زار دیکھ کر وزارت برائے انسانی حقوق کے کرائسس سینٹر کو شکایت بھیجی جس پر کرائسس سینٹر کی ٹیم نے تحقیقات کی غرض سے جج کے خاندان سے رابطہ کیا۔ ابتدا میں یہی بتایا گیا کہ طیّبہ صبح کچرا پھینکنے گھر سے نکلی تھی اور اب تک غائب ہے۔ پولیس کے پاس وارنٹ نہ ہونے کی بنا پر گھر کی تلاشی بھی ممکن نہ ہو سکی۔ دلچسپ بات یہ کہ دوسرے دن بچی اسی گھر بازیاب ہوئی۔

گو کہ جج صاحب کی بیگم نے تسلیم کیا کہ بچی ان کے گھر میں ملازم ہے لیکن وہ کہاں سے آئی، اس کے ماں باپ کہاں ہیں، کوئی سرپرست ہے یا نہیں، اس حوالے سے ان کے پاس کوئی جواب نہیں، نہ ہی خاتون بچی کے جسم پر موجود مار پیٹ کے نشانات پر کسی قسم کی اطمینان بخش وضاحت پیش کر سکیں۔

میڈیا پر اس واقعے کو رپورٹ ہوئے 3 دن ہوچکے، لیکن اس کے باوجود بچی کے ورثاء سامنے نہیں آئے۔ خود بچی کا بیان ہے کہ وہ دو سالوں سے اپنے والدین سے نہیں ملی تو پھر کس کے توسط سے بچی بطور ملازمہ (ملازمہ کہنا تو غلط ہوگا، غلام کہہ لیجیے) جج صاحب کے گھر پہنچی؟

خاتونِ خانہ کا بیان ہے کہ اس بچی کو یہاں ایک عورت لے کر آئی تھی جو متمول گھرانوں کو گھریلو کاموں کے لیے بچے فراہم کرتی ہے۔

یہ معاملہ اتنا سیدھا سادہ نہیں جتنا نظر آتا ہے۔ یہ محض بچوں سے مشقت اور بچوں کے استحصال کی حد تک محدود نہیں۔ ایک سیشن جج کے گھر میں یہ بچی کیا کر رہی تھی۔ اسے کون لے کر آیا؟ کیا سیشن جج چائلڈ لیبر کے قوانین سے ناواقف ہیں؟ کیا بحیثیت قانون کے پاسدار ان کا یہ فرض نہیں بنتا کہ اس بچی کے سرپرستوں کو تلاش کریں اور چائلڈ ٹریفکنگ میں ملوث افراد کی رپورٹ کریں؟

اگر بچی کے ساتھ مار پیٹ میں جج صاحب یا ان کے اہل خانہ ملوث نہیں تو کم از کم انسانی ہمدردی کے تحت ہی اسے طبّی امداد ملنی چاہیے تھی، لیکن ٹی وی چینلز اور سماجی کارکن محمّد جبران ناصر کے آفیشل فیس بک پیج پر موجود تصاویر سے صاف پتہ چلتا ہے کہ بازیابی تک بچی کو کسی قسم کی طبّی امداد تک نہیں دی گئی تھی، جس سے بادی النظر میں یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب دانستہ طور پر کیا گیا ہے۔

پڑھیے: 'باجی دروازہ کھولیں، میں مر رہی ہوں'

طیّبہ اس وقت وزارت برائے انسانی حقوق کے کرائسس سینٹر بھیج دی گئی ہے اور اس کا بیان بھی قلمبند کرلیا گیا ہے جس میں اس نے یہ انکشاف کیا کہ اکثر چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر اسے اس قسم کی سزائیں دی جاتی ہیں، اور مار پیٹ کے ساتھ ساتھ اسے بھوکا بھی رکھا جاتا ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جس انسان کی ذمہ داری عوام کو انصاف کی فراہمی ہے اس کے اپنے گھر میں پچھلے دو سالوں سے ایک بچی اس قدر برے سلوک کا شکار ہے۔

اب ایک طرف سوشل و الیکٹرانک میڈیا کے متعدد فورمز پر اس واقعے کے خلاف آواز اٹھائی جا رہی ہے تا کہ بچی کو نہ صرف انصاف ملے بلکہ ذمہ داران کے خلاف سخت سے سخت اقدامات کیے جائیں تو دوسری جانب بچی کے بیان کو مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے متنازع بنا کر جج اور ان کے اہل خانہ کو کلین چٹ دلوانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس میں میڈیکولیگل افسر کی رپورٹ سب سے پہلے ہے، جس میں بدترین زخموں کو، جلنے کے نشانوں، کٹے ہوئے بالوں، اور داغے گئے جسم کو 'گرنے' کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے۔

یہ واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں، بااثر شخصیات کے گھروں میں گھریلو ملازمین خاص کر بچوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کی چھوٹی بڑی سرخیاں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں لیکن اس حوالے سے کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھائے جاتے۔

2013 میں ایک سابقہ وفاقی وزیر کے گھر سے تین بچے بدترین حالت میں بازیاب کیے گئے تھے لیکن اس کیس کا حال بھی وہی ہوا جو اکثر اس طرح کے کیسز میں ہوتا ہے۔ اخبارات میں تھوڑا بہت واویلا ہوا، اور اس کے بعد گہری خاموشی چھا گئی۔

ان بچوں کا کیا بنا؟ مجرموں کو سزا دی گئی یا نہیں اس بارے میں کوئی معلومات سامنے نہیں آئی نا اخبارات میں اس پر مزید تبصرہ کیا گیا۔

پاکستان میں چائلڈ لیبر کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کر چکا ہے اور اس کی سب سے بدترین قسم گھریلو مشقت ہے۔ حکومت کے مطابق بچوں سے گھریلو مشقت جبری مشقت کے زمرے میں نہیں آتی چنانچہ اس حوالے سے کوئی ضوابط نہیں اور نہ ہی گھریلو کاموں کے لیے مخصوص اوقات کار متعین ہیں۔ پاکستان کے شہری علاقوں کی ایک بڑی آبادی خاص کر لاہور اور اسلام آباد میں گھریلو کاموں کے لیے بچوں کو ملازم رکھتی ہے، جن میں اکثریت لڑکیوں کی ہے۔

پڑھیے: 'باجی دروازہ کھولیں، میں مر رہی ہوں' — آگے کیا ہوا؟

غربت کے مارے یہ بدنصیب بچے ان گھرانوں میں انسانیت سوز حالات کا سامنا کرتے ہیں جن میں ذہنی و جسمانی تشدد سے لے کر جنسی زیادتی تک شامل ہے لیکن انہیں اس جہنم سے آزاد کروانے والا کوئی نہیں، ان کی سسکیاں اشرافیہ کی کوٹھیوں کی اونچی دیواروں کے پیچھے دفن ہوکر رہ جاتی ہیں۔

ملک میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے کئی قوانین پاس تو کیے گئے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان متعدد بین الاقوامی کنونشنزمیں فریق بھی ہے، اس کے باوجود بچوں سے جبری مشقت میں کمی کی بجاۓ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اس کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ چائلڈ لیبر سے متعلق قوانین موجود ہونے کے باوجود ان پر کہیں بھی عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس پر ستم یہ کہ جو لوگ ان قوانین کی عملداری کے ذمہ دار ہیں وہی ان کی دھجیاں اڑاتے نظر آ رہے ہیں۔

Read Comments