Dawn News Television

اپ ڈیٹ 12 جنوری 2017 12:22pm

رنگ برنگی کرسیاں بنانے والے بچوں کی بے رنگ زندگی

"تم اسکول جانے کے بجائے یہاں کیوں کام کرتے ہو؟"

"اگر میں کام نہیں کروں گا اور پیسے نہیں کماؤں گا تو میرے گھر والے کھانا کہاں سے کھائیں گے؟" 12 سالہ عبدالحمید نے تیزی سے انگلیاں چلاتے ہوئے میرے سوال کا جواب دیا۔

عبدالحمید کا تعلق سندھ کے ضلع خیرپور کی ایک تحصیل سے ہے، اور وہ اپنی عمر کے کئی دیگر بچوں کی طرح دستکار ہے۔

کام کی وجہ سے اس کے دن کا آغاز اسکول جانے والے بچوں کے دن سے کہیں پہلے ہوتا ہے۔ وہ ایک مقامی دکان پر جاتا ہے، سورج غروب ہونے تک کام کرتا ہے، اور اسے سارے دن میں اسٹول جیسی کرسیاں، جنہیں سندھی میں موڑھا کہا جاتا ہے، بنانے کے لیے سو روپے دیے جاتے ہیں۔ یہ کرسیاں بانس کی باریک ڈنڈیوں سے بنائی جاتی ہیں۔

ایک نوجوان بچہ رنگ برنگی کرسیاں بنا رہا ہے جنہیں سندھی میں موڑھا کہا جاتا ہے۔— فوٹو نادیہ آغا

ایک بچہ اپنا تیار کیا گیا موڑھا دکھا رہا ہے۔— فوٹو نادیہ آغا

موڑھے کی تیاری۔— فوٹو نادیہ آغا

پاکستان اپنے شہریوں کو سماجی تحفظ دینے میں ناکام رہا ہے۔ غربت پر ملک کی پہلی رپورٹ (2016-2015) کے مطابق 39 فیصد پاکستانی شدید غربت کا شکار ہیں، جبکہ غریب پاکستانیوں کی سب سے زیادہ تعداد دیہی علاقوں میں ہے۔

ریاستی غفلت کی وجہ سے چائلڈ لیبر میں اضافہ ہوا ہے۔ بچوں کی سماجی ترقی متاثر ہوتی ہے، اور چائلڈ لیبر کو تعلیم پر ترجیح دی جاتی ہے۔

حمید کی طرح تمام چائلڈ لیبر بچے غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کے پاس اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے بچپن سے کام کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

ضلع خیرپور میں چائلڈ لیبر کی سب سے عام قسم دستکاری ہے۔— فوٹو نادیہ آغا

بچوں کی جانب سے تیار کیے گئے خوبصورت غالیچے فروخت کے لیے رکھے گئے ہیں۔— فوٹو نادیہ آغا

یوں تو دنیا بھر میں چائلڈ لیبر میں کمی واقع ہوئی ہے، مگر پاکستان میں اس میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ صرف سندھ میں 10 سے 14 سال عمر کے اندازاً 8 لاکھ 80 ہزار بچے چائلڈ لیبر میں پھنسے ہوئے ہیں۔

سندھ کے دیہی علاقوں کا زرعی شعبہ غیر رسمی کام کرنے کے کئی مواقع فراہم کرتا ہے۔

کھیتوں میں زیادہ تر بچے یا تو فصل کی کٹائی میں، یا فصلوں کی ضمنی پیداوار سے مختلف چیزیں بناتے ہیں جن میں موڑھے اور دیگر فرنیچر شامل ہے۔

بچے کاموں کے دوران کئی خطروں کا سامنا بھی کرتے ہیں۔ انہیں بانس، اور پن جمع کرنے کے لیے کھیتوں میں جانا پڑتا ہے۔ یہ خطرناک اس لیے ہے کیوں کہ کھیتوں میں کیڑے، بچھو، سانپ اور دیگر جنگلی جانور بھی موجود ہوتے ہیں۔ وہ خام مال کسی بھی حفاظتی سامان کے بغیر اپنے ننگے ہاتھوں سے جمع کرتے ہیں جس سے زخم لگ سکتے ہیں۔

بانس اور پن جمع کرنے کا کام مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ خطرناک بھی ہے۔— فوٹو نادیہ آغا

ایک بچہ کھیتوں سے بانس اور پن جمع کر کے لا رہا ہے جس سے موڑھے تیار کیے جائیں گے۔— فوٹو نادیہ آغا

سخت محنت کے باوجود انہیں انتہائی معمولی اجرت ملتی ہے، جو کہ ان کے گھرانوں کی غربت ختم کرنے میں مددگار نہیں ہوسکتی۔

عام طور پر ایک موڑھا کچھ دن میں تیار ہوجاتا ہے، اور بچے کو ایک موڑھا فروخت ہونے پر 300 سے 400 روپے ملتے ہیں، جبکہ مارکیٹ میں اس کی قیمت دس گنا زیادہ ہوتی ہے۔

غربت اور استحصال کے اس گھن چکر میں پھنسے ہوئے یہ بچے اس بات سے واقف ہیں، مگر ان کے نزدیک زندہ رہنا زیادہ اہم ہے۔

یہ بچے بھی دیگر بچوں کی طرح ہی ہیں۔ ان کی آنکھوں میں بھی اچھے مستقبل کے سنہرے خواب موجود ہیں، یہ بھی تعلیم حاصل کرنا اور اچھی ملازمت کرنا چاہتے ہیں۔

مگر ملک، خاص طور پر سندھ کے حالات و معاملات کو دیکھتے ہوئے ان کے خواب پورے ہوتے نظر نہیں آتے۔

کیا آپ بھی ان بچوں کی آنکھوں میں موجود سنہرے خواب دیکھ سکتے ہیں؟— فوٹو نادیہ آغا

انگلش میں پڑھیں۔


کیا آپ کے پاس شدید مشقت کر رہے بچوں سے متعلق کوئی کہانی ہے، یا آپ کسی ایسے خاندان کو جانتے ہیں جو زندہ رہنے کے لیے شدید جدوجہد کرنے پر مجبور ہے، تو ہمیں blog@dawn.com پر اسی فارمیٹ میں لکھ بھیجیے۔

Read Comments