Dawn News Television

اپ ڈیٹ 10 جون 2017 10:11am

اس سال کی رمضان ٹرانسمیشنز کے ساتھ مسئلہ کیا ہے

رمضان ٹرانسمیشنز شروع ہوئے ابھی بمشکل ایک ہی ہفتہ ہوا ہے اور ایسے وقت میں جب ٹی وی چینلز ریٹنگز کی دوڑ میں ایک دوسرے سے مدِمقابل ہیں، تو پیمرا کے بھی نوٹسز بار بار جاری ہو رہے ہیں۔

تمام چینلز کے 'گیم شوز' ایک طرف رکھیں، اصلی گیم تو وہ میزبان کھیل رہے ہیں جو براڈکاسٹنگ کے سب سے زیادہ منافع بخش سیزن میں عوام کی دلچسپی برقرار رکھنے کے لیے ایک کے بعد ایک حربہ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔

آئیں آج کل جاری تنازعات کا ایک چھوٹا سا سروے کریں۔

پیمرا نے فہد مصطفیٰ کے شو جیتو پاکستان کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کیا ہے کہ گیم شوز 9 بجے سے پہلے نہ دکھانے کی واضح ہدایات کے باوجود شو ایک گھنٹہ پہلے کیوں شروع کیا گیا، جبکہ ساحر لودھی کو قائدِ اعظم کے لیے ان کی نفرت/محبت کی وضاحت کرنے کے لیے بھی کہا گیا ہے۔

ویسے یہ تو بڑے واقعات ہیں، مگر ایسی معمولی جھڑپیں جو اچھے ذوق اور رمضان کی روح کی حدود پر موجود ہیں، بھی آہستہ آہستہ سامنے آ رہی ہیں۔

جس شخص نے گذشتہ رمضان ایک شخص کو زبردستی آم کھلائے، ایک لڑکی کی خودکشی کا منظر پیش کیا، اور جسے حال ہی میں پاکستان کے لبرل کارکنوں کو توہینِ مذہب اور پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کرنے کی وجہ سے پابندی عائد کر دی گئی ہے، اب بول ٹی وی پر پہلے سے بھی بڑے گیم شو کے ساتھ واپس آئے ہیں۔

ظاہر ہے کہ بات عامر لیاقت کی ہو رہی ہے، اور ان کے شو کا نام 'گیم شو ایسے چلے گا' رکھا گیا ہے۔ یہ ایسا شو ہے جہاں وہ کوئی پرانی گاڑیاں نہیں بلکہ مرسیڈیز بینزیں، گھر، اور اس سے بھی بڑھ کر، ایک چھوٹا طیارہ تک دینے لگے ہیں۔

عامر لیاقت اپنی ابتدائی تقریر میں سیدھے مرکزی نکتے پر آگئے: پیمرا کے لیے کچھ طنزیہ الفاظ استعمال کیے، وسیم اکرم اور شعیب اختر (جنہوں نے ان کے پرانے میدان جیو ٹی وی میں ان کی جگہ لے لی ہے) کے بارے میں کمتر تبصرے دیے، اور چیلنج کیا کہ ان کا گیم شو تمام دوسرے شوز کو 'کھا جائے گا'۔ اور اگر یہ کافی نہیں تھا تو عامر لیاقت اور فہد مصطفیٰ دونوں ہی نے کم ڈھکے چھپے الفاظ میں ایک دوسرے پر طنز کرنے کا ایک تھکا دینے والا کھیل شروع کر دیا ہے۔

یہ سب شاید کچھ حد تک تفریح بخش ہوتا اگر یہ مزاح کے لیے تخلیقی ذہانت کا استعمال کرتے نظر آتے، مگر افسوس ہے کہ ایسا نہیں ہے۔

پیسہ، پیسہ، پیسہ

اس دوران ان کے اعداد و شمار بڑھتے جا رہے ہیں، اور ساتھ ساتھ ذلت آمیز کھیل کھیلنے یا دس ہزار روپے کے کوپنز کی لائن میں لگے شائقین کی تعداد بھی، جو اس امید میں ہوتے ہیں کہ شاید عامر بھائی، فہد بھائی، وسیم بھائی یا شعیب بھائی انہیں گاڑی کی چابیاں تھما دیں گے۔

گیم شوز میں بنیادی طور پر کچھ غلط نہیں ہے۔ اگر طریقہ صحیح ہو، تو یہ خاندان بھر کے لیے ایک اچھی تفریح ثابت ہو سکتے ہیں اور ایک طویل روزے کے بعد ذہنی سکون کا باعث بن سکتے ہیں۔ کسی بھی ملک کے کسی اچھی طرح سوچ بچار کے بعد بنائے گئے گیم شو کو دیکھیں تو آپ میزبان کو کھیلنے والوں کو ہلکا پھلکا چڑاتے ہوئے دیکھیں گے، مگر خوش دلی کے ساتھ کیا گیا یہ مذاق کبھی بھی عزت کی لکیر پار نہیں کرتا۔

مگر پاکستان میں تو لگتا ہے کہ سب چلتا ہے۔

عامر لیاقت اس حوالے سے سب سے آگے آگے ہیں اور باقاعدگی سے کھیلنے والوں کی تذلیل کرتے ہیں؛ انہوں نے ایک شخص کی شکل و صورت کو جن سے تشبیہ دی جبکہ دوسرے شخص کو دس ہزار روپوں سے اپنے موٹاپے کا علاج کروانے کا مشورہ دیا۔ مگر وہ چاہے جتنے بھی اشتعال انگیز کیوں نہ ہوں، انہیں ان کے اس رویے کے لیے ایسی ریٹنگز ملتی ہیں جو کہ عام طور پر پاکستان انڈیا کے کرکٹ میچ کو ملتی ہیں۔

مگر اس سستی سنسنی میں جو چیز کہیں گم ہو جاتی ہے، وہ اس مہینے کی روح ہے، یعنی ذاتی نظم و ضبط اور اپنی ذات کو مٹانا۔

تو پھر الزام کس کو دیا جائے؟ ان لوگوں کو ان کے نامناسب رویے کے باوجود اتنی کامیابی کیوں ملتی ہے؟

افسوسناک سچائی یہ ہے کہ غلطی ناظرین کی ہے۔ اس طرح کے رویے کے خلاف کھڑے ہونا کافی آسان ہے۔ ان کے بے ادب رویوں پر ہنسنے کے بجائے ہم اپنے ریموٹ کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے چینل بدل کیوں نہیں دیتے؟

دوسری جانب اگر چینلز اس ماہِ مقدس میں مسحور ہوچکے ناظرین سے زبردست منافع کما رہے ہیں، تو ان پر بھی مناسب رویے اور ذمہ دار پروگرامنگ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ گیم شوز اب کبھی ختم نہیں ہوں گے، اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے چینلز ان شوز کا اسکرپٹ تیار کرنے کے لیے بہتر لکھاری بھرتی کریں تاکہ نامناسب جملے بغیر تیاری کے منہ سے کم سے کم نکلا کریں۔

اس سے بھی بہتر حل ان گیم شوز کے طویل دورانیے کو کم کر کے معقول پروگرام پیش کرنے پر غور کیا جائے۔ سب سے بڑی حیرت اس مہینے سنجیدہ مسائل پر ڈراموں کی کمی ہے۔

رمضان ایک انتہائی خصوصی مہینہ ہے جس میں کوئی ڈیڑھ ارب مسلمان اپنی مرضی سے کھانا پینا نیند اور آرام چھوڑ دیتے ہیں، تو کیوں نہ انہیں ذہن کو ماؤف کر دینے والی ہنگامہ خیزی کے بجائے کوئی تفریح بخش اور معلوماتی چیزیں دکھائی جائیں؟

پاکستان اور دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں میں ایسے کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ، کرشماتی، اور خوش گفتار علمائے دین موجود ہیں جو اس مہینے کے پروگراموں میں ضروری گہرائی لا سکتے ہیں، مگر سلیبریٹیز کو ان پر ترجیح دی جاتی ہے۔

افطار سے پہلے اور افطار کے بعد کے درمیان ایک علیحدگی ہے جو کہ کچھ حد تک تو قابلِ فہم ہے۔ ہاں لوگ روزہ افطار کے بعد ہلکا پھلکا محسوس کرنا چاہتے ہیں، مگر کیا قابلِ قبول رویوں کا معیار صرف اس لیے گر جاتا ہے کہ روزہ کھول لیا گیا ہے؟

مذہبی جذبات کا کیش کروایا جانا

مگر یہ تو موقع ہاتھ سے گنوانے والی بات ہے، آخر کار پاکستان میں رمضان شو کی میزبانی کرنا نہ صرف میزبان کے لیے نہایت منافع بخش موقع ہے، بلکہ ایک ایسا جادوئی موقع ہے جس میں ان کے سارا سال کے کارنامے ایک تیز اور سفید روشنی میں کہیں گم ہوجاتے ہیں۔

اگر آپ خاتون ہیں تو اچانک آپ کے سر کے دو چار بالوں کے ساتھ بندھا ہوا دوپٹہ سامنے آ جاتا ہے، جبکہ دونوں ہی صنفوں کے پاس ان ناظرین کو احساسِ برتری کے لہجے میں مذہبی مسائل سمجھانے کی صلاحیت آ جاتی ہے، جو شاید سارا سال میں بھی اتنا نہ کما پاتے ہوں جتنا کہ میزبان ایک مہینے میں کما لیتا ہے۔

جہاں اس مقدس مہینے کو توبہ اور مغفرت کے مہینے کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، تو وہیں عائشہ عمر جیسے سیکولر اور گلیمرس ستاروں سے مذہب پر لیکچر سننا کافی بناوٹی لگتا ہے۔

اداکارہ اشنا شاہ نے حال میں ایک فیس بک پوسٹ میں ان مصنوعی لوگوں کے بارے میں لکھا جو ماہِ رمضان کے دوران مذہب کو 'بیچتے' ہیں اور سارا سال بے وقوفوں والی حرکتیں کرنے کے باوجود اچانک انتہائی شریف اور پارسا بن کر سامنے آ جاتے ہیں۔ انہوں نے ان ڈائریکٹرز کی جانب بھی اشارہ کیا جو انہیں اپنے دام میں پھنسا لینا چاہتے تھے، اور اب انہیں 'رمضان مبارک' کے پیغامات بھیج رہے ہیں۔

جس منافقت کی جانب اشنا شاہ نے اشارہ کیا ہے اس میں کچھ نیا نہیں ہے، بلکہ یہ خاص طور پر اشتعال انگیز اور ذلت آمیز ہے، اس مہینے میں جس میں لوگ گرمیوں کے طویل دنوں میں لوڈ شیڈنگ اور کھانے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پریشان حال ہیں۔

اچھے گیم شوز پروڈیوس کرنا مشکل نہیں، تو پھر ہم ایسا کیوں نہیں کر رہے؟

انصاف کی بات ہے کہ ٹی وی پر کئی اچھے پروگرامز اب بھی دکھائے جاتے ہیں جیسے کہ پی ٹی وی پر احسن خان کا رمضان شو۔ جیو کی رمضان ٹرانسمیشن کچھ بے وقوفانہ واقعات کے علاوہ تقریباً معتدل اور مناسب رہی ہیں۔ مگر اکثریت کا مقصد اس مہینے میں ایک ہی ہے۔

ان تمام واقعات سے ایک ہی سوال اٹھتا ہے، اور وہ یہ کہ ٹی وی چینلز آخر کیوں گیم شوز کے علاوہ کوئی اور تخلیقی پروگرامز پیش نہیں کر سکتے؟

پروگرامرز کے لیے یہ بالکل ممکن ہے کہ وہ ماہِ رمضان کی روح کو اسی جذبے کے ساتھ پیش کریں جس طرح وہ مادہ پرستی اور ہوس کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ عام لوگوں نے کھادی کے بائیکاٹ کی اپیل کی ہے، مگر وہی لوگ عید کے جوڑے کسی اور برانڈ سے خریدنے پر تیار ہیں جو شاید اپنے ملازمین کے ساتھ وہی سلوک کرتی ہو جو کھادی نے کیا۔ اس مسئلے پر کیوں آواز نہیں اٹھائی جا سکتی، یا لوڈ شیڈنگ پر کیوں نہیں؟ حقیقت میں یہی روز مرہ زندگی کے مسائل ہیں جنہیں گیم شوز کے مہنگے انعامات کی چکا چوند نے کہیں چھپا دیا ہے۔

کیوں نہ معذوروں، نابیناؤں اور غریبوں کے اسکولوں کا دورہ کیا جائے، اور افطار کے بعد دس ہزار روپے کے وہ واؤچر وہاں تقسیم کر دیے جائیں؟ گاڑیاں بانٹنے کے بجائے ایسا کیوں نہیں ہوسکتا کہ معذوروں میں مصنوعی اعضاء تقسیم کیے جائیں، یا اسپانسرز سے پسماندہ علاقوں میں چھوٹی سطح کے فلاحی کاموں میں سرمایہ کاری کے لیے کہا جائے؟

کیا ہی اچھا ہو کہ یہ ٹی وی شوز معاشرے کی بھلائی کے لیے کام کرنے والے اور گھریلو تشدد اور ذہنی امراض کے بارے میں آگاہی پھیلانے والے نوجوانوں کی کاوشوں کو سامنے لائیں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں؟

پی ٹی وی کی رمضان ٹرانسمیشن میں ایک میزبان کو اپنی وہیل چیئر پر بیٹھے انعامات تقسیم کرتے دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ اس طرح کے لوگوں کو قبول کر کے اپنی خوشیوں میں شامل کرنا نہ صرف اس مہینے بلکہ پورے سال جاری رہنا چاہیے۔

اور کیوں کہ ماہِ رمضان سب سے زیادہ عبادات کا مہینہ ہے، تو کیوں نہ برداشت پر گفتگو کی جائے، اور مذہبی مسائل کو انتہاپسند ردِعمل دیے بغیر حل کرنا سیکھا جائے؟

مشتعل ہجوم کے ہاتھوں مشعال خان کے حالیہ قتل اور دنیا بھر میں جاری دہشتگرد حملوں کے پس منظر میں یہ ماہِ رمضان حقیقی علمائے دین کے ساتھ اعتدال پسندی اور باہمی عزت و تکریم کے ساتھ گفت و شنید شروع کرنے کے لیے ایک نادر موقع لے کر آیا ہے۔

میں یہ بات ضرور کہوں گی کہ گرینڈ پرائز دینے میں اور موج مستی کرنے میں کچھ غلط نہیں ہے، مگر کسی بھی طرح جیتنے پر توجہ نے اہم مسائل اور ہمارے درمیان موجود کم خوش قسمت لوگوں پر سے ہماری توجہ ہٹا دی ہے۔

اس طبقے کو معاشرہ ویسے ہی دیوار سے لگا چکا ہے، اور اب انہیں اندھیروں میں بھی دھکیلا جا رہا ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

Read Comments