فلسطین میں ایک پاکستانی
5 جون کو یوم نکبہ کے 50 سال مکمل ہوئے — یہ دن 1967 میں 6 دنوں کی جنگ کے بعد فلسطینیوں کی نقل مکانی کی یاد میں ہر سال منایا جاتا ہے۔ ناول نگار اور صحافی محمد حنیف تین بار، 1999، 2010 اور 2011 میں فلسطین جا چکے ہیں۔ وہ پہلی بار رپورٹنگ اسائنمنٹ کے سلسلے میں فلسطین پہنچے، دوسری بار تخلیقی فن تحریر پڑھانے اور پھر فلسطین ادبی میلے (پیلفیسٹ) میں شرکت کرنے کے لیے گئے۔
پیلفیسٹ کا آغاز 2008 میں ہوا تھا جس کا مقصد فلسطینیوں پر مسلط اسرائیلی فوج کے ثقافتی محاصرے کو توڑ کر فلسطین کی ثقافتی زندگی کو نمایاں کرنا اور فروغ دینا ہے اور اس کے ساتھ ہی فلسطین اورباقی دنیا کے درمیان ثقافتی تعلقات کو مستحکم کرنا ہے۔
2011 میں جب محمد حنیف میلے میں شریک تھے، تب مطالعاتی نشست کے اختتامیے کے دوران اسرائیلی پولیس نے ٹیئر گیس کی شیلنگ شروع کردی اور یوں حنیف اور دیگر مصنفین نے "اپنے ہاتھوں میں پیاز اور گیلے ٹاول کے ساتھ اپنی اپنی تحاریر پڑھیں۔" گزشتہ روز کتاب،'دس از ناٹ اے بارڈر'، مارکیٹ میں پیش کی گئی جو پیلفیسٹ کے 10 سالوں پر مشتمل تحاریر کا مجموعہ ہے۔ اس میں محمد حنیف کے فلسطین کے تجربات بھی شامل ہیں، جنہیں اس مضمون میں معمولی سی ترمیم کے بعد پیش کیا جا رہا ہے۔
یروشلم میرے یروشلم
میری اسرائیل میں موجود واحد یہودی-پاکستانی سے اتفاقی ملاقات ہوئی۔ جس میں پتہ چلا کہ ایک تاریخی غلط فہمی کے باعث انہیں یہاں کا رخ کرنا پڑا تھا۔ نہ میں اس شخص کا متلاشی تھا۔ نہ وہ میرا منتظر۔ گزشتہ صدی کے آخری دنوں میں، ملینیم بگ کی مدد سے ہماری تمام تر کمپیوٹر میموری کا ممکنہ صفایا ہونے سے قبل، اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن کی پختہ افواہیں پھیلی ہوئی تھیں۔
اس پھیلتے امن کا ایک ثبوت میرا پاسپورٹ تھا۔ مجھے لندن میں اسرائیلی سفارت خانے کی جانب سے پاکستانی پاسپورٹ پر رپورٹنگ ویزا فراہم کیا گیا۔ انہیں اتنا شعور ضرور تھا کہ میرے پاسپورٹ پر اسرائیلی ویزا کی مہر ثبت نہیں کرنی۔ میں سبز پاسپورٹ کے ساتھ بڑا ہوا تھا جس پر موٹے موٹے لفظوں کے ساتھ لکھا تھا ہے کہ، " کیوبا اور اسرائیل کے علاوہ ہر ملک کے لیے یہ پاسپورٹ کارآمد ہے۔" رپورٹنگ کے لیے یروشلم میں ڈائریکٹوریٹ آف سینسرز پہنچا اور دیکھا کہ اس کا تمام اسٹاف ہڑتال پر ہے تب میں قائل ہو گیا تھا کہ امن بس اب قائم ہونے والا ہی ہے۔ پاکستان میں مختلف اقسام کی سینسرشپ (بیچ رات دروازے کھٹکھٹائے جانے سے لے کر 'تم جو لکھ رہے ہو اس کے بارے میں چچا کیا سوچیں گے) کے درمیان رہنے کا تجربہ رکھنے کی وجہ سے، مجھے ہڑتال کا جان کر بڑی خوشی ہو رہی تھی: جب آپ کی سینسرشپ انتظامیہ ہڑتال پر ہو تو پھر خوف کس چیز کا؟
گھنٹوں بعد، کھانے کی تلاش کے دوران، میں کافی گھبرایا ہوا تھا، بالکل کسی بھی عام سے سیاح کی طرح، جو اجنبی شہر کو جاننے کے لیے خود کو اس میں لاپتہ کر دیتا۔ میں نے چند دکانوں، کیفے اور بار کے اندر جانے کی کوشش کی۔ جب میں نے مغربی یروشلم کے مہنگے علاقے میں ایسا کرنے کی کوشش کی تو دروازوں پر مجھے روک لیا جاتا۔ آپ کا نام؟ آپ کا شناختی کارڈ؟ اور جب میں اس توقع کے ساتھ اپنا پاسپورٹ نکال کر دکھاتا کہ وہ کہیں گے کہ "یہ پاکستان کہاں ہے؟ ہمارے ملک میں آپ کو کون سی چیز کھینچ لائی؟"، مجھے سننے کو ملتا کہ "ہم آپ کو اندر جانے کی اجازت نہیں دے سکتے،" میں بس یہ کہنے ہی والا تھا کہ 'مگر میں فلسطینی نہیں ہوں' مگر پھر سوچا کہ بات تو پھر بھی ایک ہی ہوئی۔
لہٰذا یروشلم ہوٹل سے مدد مانگی، جہاں ٹوئر آپریٹر مجھ جیسے بھٹکے سیاحوں کو تین فون نمبروں سے مشکل راستے بتا رہے ہوتے تھے۔ میں نے مشرقی یروشلم کی جانب اپنا راستہ جاری رکھنے اور شہر کے محفوظ کواٹرز میں موجود امن و امان کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔ یہاں امریکن کولونی ہوٹل مشتعل افراد کے پتھراؤ کا مقابلے کیے بغیر افطار کی میزبانی کر سکتی ہے اور کرسمس کے سجاوٹی سامان سے خود کو آراستہ بھی کر سکتی ہے۔ القصبۃ تھیٹر بے معنی سے ڈراموں کے ریہرسلز کا بھی انعقاد کر سکتا ہے اور وہاں اداکار اپنے ڈراموں بین الاقوامی تھیٹر میلوں میں پیش کرنے کے خواب دیکھ سکتے ہیں۔
شبات کے موقعے پر اسرائیلی بچے آئس کریم لینے رام اللہ آتے ہیں اور کسی کو بھی مارے بغیر واپس آ جاتے ہیں۔
میں نے رام اللہ میں رات گئے ہونے تک جاری رہنے والے کنسرٹس میں شرکت کی۔ آئس کریم کھائی۔ فلسطینی حکام کی کرپشن کی کہانیاں سنی۔ جب لوگ سڑک پر کھدے ہوئے گڑھوں اور ٹریفک جام کی شکایتیں شروع کردیں، تو آپ کو پتہ چل جاتا ہے کہ ترقی کا کام جاری ہے۔
رملہ میں دیسی
چند دنوں تک شہر میں ارد گرد گھومنے پھرنے کے بعد میں نے رملہ جانے کا فیصلہ کیا، جہاں میں نے یہ سنا کہ یہاں کئی ہندوستانی رہائش پذیر ہیں۔ مجھے یہ بات ایک قیمتی رپورٹ کی طرح محسوس ہوئی، کچھ ایسے عنوان کی خبر کی طرح کہ، "دیکھیں، ہندوستانی میدان تیہ پر میں رہائش پذیر ہیں۔' میں جشن ہنوکہ (یہودیوں کا تہوار) کی شام یہودیوں کی عبادت گاہ آ پہنچا۔ جس وقت میں عبادت گاہ میں داخل ہوا تھا اسی وقت ہندوستان سے سرکاری دورے پر آئے صحافیوں کا ایک گروپ بھی عبادت گاھ کے اندر داخل ہوا۔ رملہ مجھے ان خلیجی شہروں میں سے ایک سا لگا جہاں برصغیر کا کوئی آدمی اپنے گھروالوں کو ڈبیلو سیز اور ایل سی ڈی ٹی وی دینے کی خاطر نیم غلامی کے ساتھ آ کر رہنے لگتا ہے۔
عبادت گاہ کے اندر ماحول کچھ ایسا محسوس ہوا جیسے چھوٹے پیمانے پر ہندوستانی شادی کی تقریب جاری ہو۔ یا جیسے کسی پاکستانی شادی کا موقعہ ہو۔ چمکیلے کپڑوں میں ملبوس گھرانے، ہندوستانی مٹھائیاں، خوشبوئیں چار سوں تھیں۔
مجھے ایک ہندوستانی صحافی سمجھ لیا گیا اور میرے گلے میں بھی پھولوں ایک ہار ڈال دیا گیا۔ میں نے سوچا کہ ہندوستانیوں کا کچھ نہیں کیا جاسکتا؛ بھلے آپ اجنبی بن کر ایک یہودی بستی میں آ جائیں تو بھی یہ آپ کے گلے میں ہار ڈال دیں گے اور آپ سے تقریر کرنے کا کہہ دیں گے۔ صحافیوں کے وفد میں سے ایک ایک کر کے صحافی اٹھتے گئے اور حاضرین کے سامنے اپنے لیکچر دیتے گئے کہ وہ ہندوستان میں غربت اور ذات پات سے پیچھا چھڑانے میں کس قدر خوشقسمت رہے ہیں اور کیوں انہیں ہر حال میں اسرائیل اور نظریہ اسرائیل سے وفادار رہنا چاہیے۔
مجھے بھی خطاب کرنے کو کہا گیا۔ میں ںے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ میں وفد کا حصہ نہیں ہوں مگر پھولوں کے ہار کے لیے شکریہ، مٹھائیوں کے لیے شکریہ؛ میں یہاں ان کی کہانیاں ہی سننے کے لیے آیا تھا۔ اور ہاں، میں ہندوستان سے نہیں ہوں، میرا تعلق کراچی سے ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ میں نے پاکستان کا لفظ استعال کیوں نہیں کیا، اگر استعمال کرتا تو شاید میں انہیں ایک دشمن جیسا محسوس ہوتا۔ میں نے جیسے ہی لفظ کراچی کہا تو حاضرین میں سے کسی کی ایک تیز سسکی کی آواز سنائی دی۔
تقاریر کے بعد ایک ادھیڑ عمر کا شخص میرے پاس آیا۔ وہ کراچی سے تعلق رکھنے والا ڈینیل نامی ایک آدمی تھا۔ اس کے ذہن میں ایسی کئی جگہوں کی یادیں بسی تھیں جن کا اب وجود ہی باقی نہیں رہا تھا۔ وہ ایرانی ریسٹورینٹ؟ ختم ہو گیا۔ منروا سنیما؟ گرا دیا گیا۔ ’کراچی میں ہماری مسجد’ کہہ کر وہ کراچی میں واقع یہودیوں کی عبادت گاہ کا حوالہ دیتا رہا۔ انہوں نے مرحوم جنرل ایوب خان کی کافی تعریفیں کیں۔ وہ ہمارے اس وقت کے آمر جنرل پرویز مشرف کے بارے میں بھی کافی پر امید تھے۔ وہ اپنے رہنما آرئیل شارون سے بھی کافی خوش تھے۔ 'ہماری قوم کو ایک مضبوط آدمی کی ضرورت ہے۔' میرے خیال کے مطابق 'قوم' سے ان کی مراد کراچی کے لوگ تھے۔
اس کے گھر والے 60 دہائی میں یہاں آ گئے تھے۔ 'وہاں ہمیں کوئی دشواری نہیں تھی بلکہ ہماری فیملی بہتر معاش کی تلاش میں یہاں آ کر بس گئی تھی۔’ میں نے پوچھا کہ کیا ان کے خاندان نے ایسا کر کے اچھا کیا۔ وہ مجھے ایک کونے میں لے گئے اور رملہ کی اندرونی سیاست کے بارے میں ایک مختصر لیکچر دیا۔ اس نے کہا کہ، ’اب دیکھیں، یہاں صرف ہمارا ہی ایک خاندان پاکستانی ہے جبکہ باقی ہندوستانی بستے ہیں۔ وہ ہمیں کبھی بھی اپنے برابر تسلیم نہیں کر سکتے۔ وہ کبھی بھی ہمیں بہتر حالات میں نہیں دیکھ سکتے۔ اس لیے یہ ایک بڑا مسئلہ ہے یہاں۔'
عالمی یہودی برادری میں بھی ہندوستانی - پاکستانی کا فرق دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ ہم میں سے چند زمین تیہ جا سکتے ہیں مگر ہم تو اپنے دشمن اپنے ساتھ وہاں لے جا رہے ہیں۔
امن قائم ہونے کو ہے
میں تسلط کو دور سے دیکھ چکا تھا؛ شاعری میں، اخباروں اور اکثر اوقات ٹی وی پر۔ یہ تصور کرنا بہت مشکل بن رہا تھا کہ امن اور تسلط دونوں ایک ہی وقت میں کیسے قائم ہو سکتے ہیں۔ میں الاقصیٰ مسجد کے مفتی عظیم سے ملنے گیا، دیکھا تو ان کے دفتر میں چند اسرائیلی فوجی بیٹھے ہیں۔ وہ چائے کی چسکیاں لے رہے تھے اور باتوں میں مصروف تھے۔ ترجمے کے لیے میرے ساتھ موجود میزبان کو چھیڑتے ہوئے میں نے کہا کہ، کیا یہ امن کے بارے میں باتیں کر رہے؟ اس نے بے دلی سے بتایا کہ وہ آثار قدیمہ کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں۔
ایک ماہر آثار قدیمہ ہاتھوں میں ایک نقشہ تھامے اندر داخل ہوا اور بے دلی سے ہماری طرف ہاتھ ہلایا۔ میرے میزبان نے بتایا کہ آرئیل شارون دورہ کرنا چاہتے ہیں۔ جو امن کے لیے نقصاندہ ثابت ہوگا۔ ماہر آثار قدیمہ مسلسل نقشے کی طرف اشارہ کرتا رہا اور وارننگز دیتے رہے، اسرائیلی پولیس اہلکار چائے پیتے رہے اور مفتی شفیق کے چہرے پر شفیق مسکراہٹ سجی رہی۔
شارون کچھ عرصے تک دورہ نہیں کریں گے اور امن کی دکھاوا ابھی تھوڑا اور عرصہ جاری رہے گا۔ آپ کو ثبوت چاہیے؟ فلسطینی حکام کے ماتحت علاقے میں نئی کھلنے والے کیفے کی تعداد گن لیجیے۔ اگر آپ جنگ کی توقع کر رہے ہوں تو آپ کیفے تعمیر نہیں کرتے۔ وہ اگلے سال آئیں گے اور تمام امن کے تمام بیوپاریوں کے منہ پر تالے لگ جائیں گے۔
چرچ آف نیٹی وٹی کے بالکل سامنے ہی واقع بیت اللحلم میں ایک فلسطینی گھرانہ اپنا مستقبل تعمیر کرنے میں مصروف تھا۔ وہ کچھ عرصہ قبل ہی امریکا سے یہاں آ کر بسا تھا اور ایک شاندار ریسٹورینٹ تعمیر کیا تھا۔ انہوں نے اس کا افتتاح حضرت عیسیٰ کی 2000 سالگرہ سے کچھ دن پہلے ہی کیا تھا۔ ایک دلکش فیملی کاروبار کا نظارہ تھا؛ مالک اور اس کے ٹین ایجر بیٹے اور بیٹیاں دیگر ویٹروں کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، اس نئے ریسٹورینٹ میں جوک در جوک آنے سیاحوں کے درمیان میں سے ہاتھوں میں تھامی اپنی پلیٹوں کا توازن سنبھالتے گزر رہے تھے، میں یہ دیکھ کر اگلی کئی نسلوں کو اس ریسٹورینٹ سے اپنی زندگی کا چرخہ چلاتے ہوئے تصور کر سکتا تھا۔ میں نے سوچا، امن کا مطلب ترقی ہے۔ جب دین تجارت سے ملے تو جیت ہر کسی کی ہوتی ہے.
بیت اللحم کے ساتھ کوئی بھی کبھی بھی گڑبڑ کرنے کی کوشش کیونکر کرے گا؟ یا چرچ آف نیٹی وٹی کے ساتھ؟ وہ فلسطینیوں کے ساتھ گڑ بڑ کر سکتے ہیں لیکن بیت اللحم کے ساتھ نہیں۔ اس جگہ کا تعلق دنیا میں موجود اربوں عیسائیوں سے ہے۔ فضا میں پھیلی امید پروری کے ساتھ ریسٹورینٹ کے کھانے کا ذائقہ کافی رحمتوں بھرا تھا۔
صرف ایک سال بعد ہی، میں نے دور سے ڈیسک پر بیٹھ کر چرچ آف نیٹی وٹی کا نظارہ کیا جس پر اسرائیلی فوج شیلنگ کر رہی تھی۔ مجھے حضرت عیسیٰ کی جائے پیدائش کی پریشانی نہیں تھی بلکہ مجھے افسوس وہاں موجود ریسٹورینٹس اور دکانوں کو ملبے کا ڈھیر دیکھ کر ہو رہا تھا۔ دنیا میں بسے اربوں عیسائی بھی ایک چھوٹے سی عمارت کو بچا نہ پائے جہاں زائرین کے لیے خوش ذائقہ کھانا دستیاب ہوتا تھا۔
جب وہ امام الانبیا کی مزار تک پہنچ سکتے ہیں اور وہاں بھی کارروائی کر سکتے ہیں تو حضرت عیسیٰ کی جائے پیدائش کو کیوں بخشیں گے؟
امام الانبیاء کا شہرِ ویران
اس بات پر تمام عالم کا عقیدہ ہے، یا کم از کم ان کا تو لازمی ہے جو ایک خدا پر ایمان رکھتے ہیں، کہ حضرت ابراہیم تمام وحدانی مذاہب میں اونچی شان والے پیغمبر خدا ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ دنیا میں ایسا کوئی ایک مذہبی عقیدہ بھی ہے جو مانتا ہے کہ ان کی کوئی خاص اہمیت نہیں، مگر تمام مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیت کے پیروکاروں کے نزدیک گھر کے بڑے بزرگ کی طرح ان کا نہایت احترام اور محبت پائی جاتی تھی۔ 1999 میں میرا الخلیل جانا ہوا۔ جنگی حالات میں مسجد الاقصیٰ میں موجود عبادتگزاروں یا یا دیوار گریہ کے سامنے موجود دیوانہ وار دعا مانگنے والوں کے برعکس الخلیل میں مجھے کسی گاؤں میں جاری میلے کا سا سماں محسوس ہوا۔
حضرت ابراہیم کی قبر کے بیچ میں ایک لوہے کی گِرل تھی، جس نے قبر کے بڑی صفائی کے ساتھ دو حصے بنا دیے تھے۔ حرم ابراہیمی پر قتل عام ہوا تھا تب بظاہر حضرت ابراہیم سے ایک جیسی محبت اور عقیدت رکھنے والوں کو ایک دوسرے سے محفوظ رکھنے کے لیے، اسرائیلی حکومت نے اپنا پسندیدہ انتظامی اقدام اٹھایا: تقسیم کاری، تا کہ ایک طرف سے یہودی اور دوسری طرف سے مسلمان و دیگر عقائد کے لوگ، ایک صف میں کھڑے ہوئے بغیر، اپنی اپنی عقیدت کا اظہار کر سکیں۔
منقسم قبر جہاں سنگدلی کی علامت بنی ہوئی تھی وہاں باہر ایک بے روک شاپنگ میلے کا سماں تھا۔ یہاں دکانداروں کو آپ کے مذہب یا نسلی شناخت سے کوئی مسئلہ نہ تھا۔ میری ڈھارس بندھی کہ حضرت ابراہیم سے عقیدت رکھنے والے کئی مذاہب تقسیم ہونے کے باوجود تجارت کی صورت میں تو یکجا ہیں۔ مول تول سے ملنے والی سستی چیزوں کی شفا بخش قوتوں پر میرا بھی ایمان بحال ہوا۔
ہزاروں سالوں سے، کئی مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ان کی مزار پر آتے رہے ہیں۔ یہ ان بارحمت مقامات میں سے ایک ہے جہاں ایک مقبرہ معیشت کا مرکز بنا ہوا ہے۔ آپ کو صرف وہاں ایک چھوٹی سی جھگی نما دکان درکار ہے، جسے مذاہب سے منسوب مبہم ساز و سامان سے بھر دیجیے اور پھر خریداروں کا انتظار کیجیے۔ ان دکانوں میں آپ کو ہاتھی دانت کی بنی صلبیں، ایک درجن مختلف اقسام کی حضرت عیسیٰ کی شبیہیں، مقدس پانی کی چھوٹی شیشیاں، مقدس زمین کی مٹی کی شیشیاں، خنجر، تلواریں، قدیم طرز کے گلدان دستیاب ہوتے ہیں اور کچھ مبہم وجوہات کی بنا پر، بیلی ڈانسرز کے جھنکار پیدا کرتے بیلٹ بھی مل جائیں گے۔
اشیائے تجارت کی اتنی ورائٹی کے ساتھ دنیا کی آبادی کے دو تہائی حصے پر مشتمل کثیر تعداد میں خریدار ہوں تو الخلیل میں کبھی بھی کاروبار کا سلسلہ بند نہیں ہوگا۔
10 سال بعد میں پلفیسٹ کے سلسلے میں الخلیل گیا۔ دیکھا تو وہاں اب کوئی کاروبار نہیں تھا، بلکہ پہلی بار میں نے ایک باقائدہ ویران شہر دیکھا۔ ایک وقت میں روحانیت اور تجارت کا ایک مصروف مرکز رہنے والا یہ شہر، الخلیل اب مکمل طور پر بند ہو چکا تھا۔ مسجد اور منقسم قبر پر بھی تالے لگے تھے۔ مسجد سے ملحقہ علاقے بھی مکمل طور پر بند تھے۔ زیادہ تر رہائشی علاقہ چھوڑ کر جا چکے تھے۔ تمام پررونق چھوٹی چھوٹی دکانیں ختم ہو چکی تھیں۔
یہ سب کچھ صرف اور صرف امریکا اور کینیڈا سے یہاں آ کر بسنے والے چند سو یہودیوں کو سکون فراہم کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اسرائیل کے فوجی پورے فوجی ساز و سامان کے ساتھ سڑکوں پر گشت لگا رہے تھے۔ وہاں آنے والا کوئی بھی شخص مسجد کے قریب جانے کی کوشش کرتا تو ان پر وہ فوری اپنی بندوق تان لیتے۔ یہ بچے اپنے اس مرحوم بزرگ سے جنگ کر رہے تھے اور غالباً جیت بھی چکے تھے۔ میں نے ٹین ایجرز کا ایسا خوفزدہ گروہ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
ٹین ایجرز کے ہاتھوں چلنے والا ملک
آپ کے سر پر بندوق لہرانے والے وردی میں ملبوس ٹین ایجر اسرائیلی کو تھپڑ مارنے کی آپ کی شدید تمنا ٹرگر پر ان کی انگلی دیکھ کر مر جاتی ہے۔ ہر بار سرحد پار کرنے کے دوران، ہر چیک پوائنٹ میرا ان سے سامنا ہوا۔ جو پہلی چیز آپ ان سے پوچھنا چاہیں گے وہ یہ کہ وہ اسکول میں کیوں نہیں ہیں۔ مگر ان کے موٹے گال اور ان کے آٹومیٹک ہتھیار دیکھ کر آپ اپنے سوالات اپنے پاس ہی رکھ دیتے ہیں۔
ان میں سے ایک، جس نے وردی بھی نہیں پہنی ہوئی تھی، نے مجھے دریائے اردن کراسنگ پر جلتے سورج کے نیچے بینچ پر بیٹھا دیا۔ اس نے میرا کالا چشمہ لے لیے تھا۔ دیکھنے کے لیے کچھ نہیں تھا تو جس وقت اس نے مجھے دیکھا تو میں نے بھی اس کی طرف دیکھا۔ اس نے اپنا کالا چشما لگایا ہوا تھا، اس کی بندوق میں بندوق کی اپنی میگزین کے ساتھ ٹیپ کی مدد سے ایک دوسری میگزین بھی جڑی تھی، میں نے دیکھا ہے کہ کراچی کے کچھ گینگسٹرز بھی فائرنگ کی صلاحیت بڑھانے کے لیے ٹیپ سے اضافی میگزین لگاتے ہیں، شاید یہ بھی فائرنگ کی صلاحیت بڑھانے کے لیے ایسا کرتے ہوں۔ تم نے اپنی بندوق کے ساتھ اضافی میگزین ٹیپ سے جوڑ رکھی ہے؟ یہ اضافی میگزین کیسے کام کرتی ہے؟
اس کے بعد امیگریشن کے موقعے پر ایک دوسرے ٹین ایجر نے مجھ سے پوچھا کہ،’آپ کیا کرتے ہیں؟’ افسانے لکھتا ہوں۔
’کس قسم کے افسانے؟’
میں نے وہاں سے جلدی اپنی جان چھڑانے کی امید کرتے ہوئے کہا، محبت کے افسانے۔
’کس قسم کے محبت کے افسانے؟’
یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا جب تک مجھے خود یہ احساس نہیں ہو گیا تھا کہ میں اپنی ذات کا ایک پورا تصوراتی کردار تخلیق کر چکا ہوں، کوئی ایسا کردار جو یہ مانتا ہے کہ اسرائیلی بچے دراصل ادبی نقاد ہیں، اس کردار کو اب بھی افسانے کی فطرت کے بارے میں مزید جاننے کی ضرورت ہے۔ اور پھر آپ کو ایک سے دوسرے پھر تیسرے تفتیش کار کے پاس تب تک یونہی بھیجا جاتا ہے جب تک کہ آپ مکمل طور پر ٹین ایجرز کے ظالمانہ رویے کا مکمل طور پر نشانہ نہیں بن جاتے۔
فلسطین کا 'مسئلہ پاکستان'
فلسطین کے ادبی میلے کے ساتھ میں نے رام اللہ میں تخلیقی تحریر کے فن کی تعلیم بھی دی، رام اللہ تاجروں اور ان لوگوں سے بھرا ہوا تھا جو ان سے نفرت کرتے تھے۔ عارضی لکھاری استادوں کے لیے مختص رہائش گاہ ابھی مکمل طور پر تیار نہیں ہوئی تھی لہٰذا مجھے ایک نئے اور مہنگے کیفے اور بار میں ٹھہرایا گیا تھا۔ وہ واقعے مہنگا تھا، کیونکہ چند ہفتے پہلے ہی یہاں اسپینش نائٹس کی محفل موسیقی کا پروگرام ہوا تھا۔ میں نے اس کے مالک اور میرے میزبان سے پوچھا کہ، 'آپ یہ کیفے اور بار کس وقت بند کرتے ہیں؟’، جواب آیا، ’آخری گاہک کے جانے کے آدھے گھنٹے کے بعد۔’
اس نوجوان آدمی نے دنیا کا ذائقہ رام اللہ کو چکھانے کے لیے نیویارک میں اپنا کریئر چھوڑ آیا تھا۔ وہاں چند راتیں کنفیوژن میں گزریں کہ اگر اس کا آخری گاہک ہوا تو— کیا وہ میرے اوپر جانے کے بعد آدھا گھنٹہ انتظار کرے گا؟
پتہ چلتا ہے کہ میرے زیر تعلیم ورکشاپ صرف لڑکیوں پر مشتمل تھا۔ صرف ایک ہی لڑکا رجسٹرڈ تھا۔ وہ پہلے دن آیا اور پھر غائب ہو گیا۔ بیرونی جبراً دنیا سے لاتعلق کیے گئے وہ طلبہ انتہائی ذہین، قابل اور ہوشیار تھے۔ اور وہ بہت کچھ سیکھنا چاہتے تھے۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں انہیں کچھ سکھانے کا جیسے فریب دے رہا ہوں۔ میں نے انہیں اس سب باتوں کے بارے میں لکھنے کے لیے حوصلہ افزائی کی جو وہ جانتے تھے۔
ہماری ایک تحریری مشق کے دوران 'اپارٹمنٹ کے باہر کھڑکی سے ایک ایف 16نظر آیا'، 'کیک بیک کرتی خاتون کے سر میں بھٹکتی ہوئی گولی لگی'، تو کبھی 'زیتون کے ایک درخت پر تیزاب کا اسپرے کر دیا گیا'۔ وہ کسی طلسماتی حقیقت پسندی پر لکھ کر اپنے ہاتھ صاف نہیں کر رہے تھے بلکہ اپنے گھریلو زندگیوں کے بارے میں لکھ رہے تھے۔
زیادہ تر تحریری مشقوں میں اسرائیلی بچکانہ فوجیوں کے ہاتھوں گھر کے بڑے کی ذلت آمیز رویوں، کبھی کبھی ان پر کوڑوں، کبھی کبھی طمانچوں کی داستانیں شامل ہوتیں، وہ سب کچھ جو ان کے گھروالوں نے دیکھا تھا۔ وہ یہ سب لکھنا چاہتے تھے اور شائع کروانا بھی چاہتے تھے۔ ان کی کہانیاں محبت اور بھائی بہنوں کی لڑائیوں سے شروع ہوتیں لیکن پھر گولیوں کی تڑتڑاہٹ شروع ہو جاتی۔ یا پھر ایک فوجی بچہ کسی کو طمانچہ مارا جا رہا ہوتا۔
چند دنوں بعد میں نے خود کو فریبی محسوس نہیں کیا۔ میں نے پاکستان میں اس عہد کے ساتھ انگنت کہانیاں لکھنا شروع کیں کہ جس میں آخر تک خوشیاں اور روشنیاں برقرار ہوں گی، مگر لکھنے بیٹھتا تو 6 صفحے تک کسی نہ کسی کی المناک موت ہو جاتی۔ کیا کسی وہ لکھنا چاہیے جو وہ جانتا ہے؟ کیا ہو اگر کہ کوئی بھی وہ بات نہ لکھے جو میں جانتا ہوں؟ کیا ہوگا اگر کہ جو میں جانتا ہوں اس سے مجھے نفرت ہے؟ تسلط پر غصہ تھا، مگر زیادہ غصہ اس بات پر تھا کہ صرف ہم ہی کو کیوں یہ کہانی سنانی پڑتی ہے۔
میرے کئی طلبہ کے گھر کے بڑے 70 کی دہائی میں پاکستان سے تعلیم حاصل کر چکے تھے۔ انہوں نے پاکستان کے بارے میں کہانیاں سن رکھی تھیں۔ پاکستان سے کیا مسئلہ ہے؟ وہ مجھ سے یہ سوال پوچھتے رہتے۔ وہاں کیوں اتنے بم حملے ہوتے ہیں؟ پاکستان کیوں ہمیشہ غلط وجوہات کی بنا پر خبروں میں ہوتا ہے؟
میں نے خود کو اپنا دفاع کرتے پایا۔ میں نے انہیں یہ سمجھانے کی بھرپور کوشش کی کہ ہمارے پاس مذکورہ باتوں سے کافی بہتر حالات ہیں۔ ہم تسلط میں زندگی نہیں گزار رہے؛ بلکہ پاکستان کے چند حصے دعوی کرتے ہیں کہ ہم ان پر تسلط کیے بیٹھے ہیں، ہمارے پاس ایک قسم کی جمہوریت ہے، ہمارے پاس ووٹر لسٹیں ہیں اور ہمارے پاس آزاد پریس ہے ہاں یہ بات اور ہے کہ آزادی کو بحال رکھنے کے لیے باقاعدگی کے ساتھ ہم صحافیوں کا قتل ہوتا ہے۔ وہاں آپ کو اپنی سرزمین پر گڑ بڑ کروانے کے لیے کسی اسرائیل کی ضرورت نہیں، آپ خود اپنے اسرائیل بن سکتے ہیں۔ آپ خود اپنے بچے مار سکتے ہیں؛ آپ خود ہی نفرت کی دیواریں کھڑی کر سکتے ہیں۔
ورک شاپ میں ایک خوشقسمت طلبا بھی تھی، کیونکہ وہ واحد تھی جو یورپ گئی تھی۔ ’ہم جب بیرون ملک جاتے ہیں کہ تو وہاں کے لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ کہاں سے آئے ہیں۔ ہم کہتے ہیں فلسطین تو وہ کہتے ہیں کہ کیا — پاکستان؟ یہ غلطی کوئی بھی باآسانی کر سکتا ہے۔ مگر پھر وہ ہماری اضافی تلاشی لیتے ہیں؛ ہمارے ساتھ پاکستانیوں جیسا برتاؤ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔’
مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ دنیا میں ایئرپورٹ سیکیورٹی مرحلے میں پاکستانیوں کے فلسطینیوں کو پیچھے چھوڑ دینے پر خوش ہونا چاہیے یا افسوس۔
یا پھر وہاں کوئی گہرا معاملہ تھا؟
سیفٹی بیلٹ
میں بیت اللحم سے رام اللہ ایک فلسطینی منی بس میں سفر کر رہا تھا۔ ایک اسرائیلی ٹریفک پولیس کی گاڑی نے ہمارا تعاقب کیا اور بیچ راستے میں روک دیا۔ انہوں نے ڈرائیور سمیت تمام مسافروں پر سیفٹی بیلٹ نہ پہنے پر جرمانہ عائد کیا۔ تمام مسافروں نے مل بانٹ کر جرمانہ ادا کیا۔ انہوں نے مجھ سے پیسے لینے سے انکار کر دیا، ظاہر ہے میں پاکستان سے آیا ہوا ایک انجان شخص تھا مجھے جرمانے کے بارے میں کیونکر پتہ ہوتا؟ اس کے بعد ہم سب نے سیفٹی بیلٹ لگا دیے۔
جیسے ہی منی بس نے چلنا شروع کیا اور اسرائیلی ٹریفک افسر نے اپنی گاڑی کا رخ کیا تو تمام مسافروں نے بغیر ایک دوسرے کو دیکھے اپنے اپنے سیفٹی بیلٹ کھول دیے۔ میں نے چند سیکنڈ انتظار کیا اور میں نے بھی ایسا ہی کیا۔
یہ مضمون ڈان سنڈے میگزین میں 11 جون 2017 کو شائع ہوا۔