نقطہ نظر

باتوں کے پہلوان

طالبان کی شرطوں پر مذاکرات ہرگز نہیں ہوسکتے- وہ دستور پاکستان کی جگہ اپنے مطلب کی شریعہ نافذ کرنا چاہتے ہیں

یہ بات اب تک عمران خان کی سمجھ میں آچکی ہوگی کہ کرکٹ کی کپتانی کے مقابلے میں ایک سیاسی پارٹی کو چلانا زیادہ پیچیدہ کام ہے-

جب وہ قومی ٹیم کے ایک کامیاب کپتان تھے تو انکے بارے میں تاثر، آمرانہ مزاج کے ایک ایسے قائد کا تھا جس کیلئے، کسی طرح کی غلطی، ناقابل معافی تھی- لیکن کرکٹ ٹیم، گیارہ کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی ہے اور اگر ان کو کھیل میں شامل رہنا ہے تو کپتان سے مخالفت مول لینے کی جسارت نہیں کر سکتے ہیں-

سیاست کی خاردار دنیا میں خوش آمدید! جہاں پارٹی ممبر کا پارٹی ڈسپلن کا پابند ہونا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی اچھی سمجھ بوجھ کا- تھوڑے عرصے سے میرے ای میل کا ان باکس، قانون ساز اسمبلی میں تحریک انصاف کے دو رکن ممبروں کے خلاف، تلخ و ترش شکایتوں سے بھرا ہوا ہے جن کے بیانات نے، عمران خان کے نئے پاکستان کی تعمیر کے انتخابی نعرے کی دھجیاں اڑا دی ہیں-

سب سے پہلے تو ایم این اے، مجاہد علی خان نے قومی اسمبلی کے فلور سے مطالبہ کیا کہ سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو با عزت طور بری کر دیا جائے- ذرا سوچئے کہ اپنے جرم کو قبول کرنے والا قاتل، جسکوعدالت نے دو سال قبل، گورنر پنجاب کو قتل کرنے کے جرم میں سزا دی ہے، اسکو کسی عوامی نمائندے کی جانب سے باعزت بری کروانے کا مطالبہ، کتنی گھٹیا بات ہوسکتی ہے-

پھر چند دن پہلے پشاور کی ایک مسجد پر خودکش حملے کے بعد، کے پی کے وزیر صحت، شوکت علی یوسف زئی کا بیان کہ اس حملے میں بیرونی ہاتھ ہے- ان کے بیان کے مطابق "کوئی مسلمان، مسجد پر حملہ نہیں کرسکتا-" پی ٹی آئی کے ان پرعزم وفاداروں کا خیال ہے کہ طالبان "عبادت گاہوں پر حملے کے سخت خلاف" ہیں- یہ بات ان ہزاروں بدنصیبوں سے کہنے کی ہے، جو پچھلے کئی سالوں میں، مسجدوں پر حملوں کے نتیجوں میں ہلاک ہوئے ہیں-

لیکن ان چھپے ہاتھوں کی سازش کے نظریے میں وہ اکیلے نہیں ہیں- ابھی پچھلے دنوں، جب کوہ پیماؤں کے ایک گروپ کو نانگا پربت کے ایک بیس کیمپ میں قتل وغارت گری کا نشا نہ بنایا گیا تھا توہمارے وزیر اعظم نے فرمایا تھا کہ "یہ حملہ، پاکستان کے خلاف ان لوگوں کی سازش ہے، جنکا مقصد پاکستان کو برباد کرنا ہے"-

جبکہ تحریک طالبان نے یہ تسلیم کرنے میں ذرا دیر نہیں لگائی کہ یہ حملہ انکی نئی ذیلی تنظیم جنود الحفصہ نے کیا ہے- چھپے ہاتھوں کو الزام دینا شترمرغ کی طرح اپنا سر ریت کے اندرچھپانے کے مترادف ہے- اور یہی وہ ذہنیت ہے جس کی وجہ سے آج تک جانتے بوجھتے، جنگجو شدّت پسندوں کے گروہوں کے خلاف کوئی مؤثرکارروائی کرنے میں ناکام رہے-

نواز شریف اور عمران خان دونوں ان جہادی گروہوں سے، جو کینسر کی طرح ملک بھر میں پھیل گئے ہیں، مذاکرات کا مطالبہ کرنے میں سب سے آگے ہیں- چلو اچھی بات ہے، انکو یہ موقع ملا ہے کیونکہ وہ پنجاب، کے پی اور مرکزمیں بااختیار ہیں-

لیکن اس سے پہلے کہ وہ اس غیر یقینی راستے پر چلیں، میں ان کی یاد دہانی کرتا چلوں کہ وہ کس قسم کے لوگوں سے بات کرنے جا رہے ہیں- یہ ایک خط ہے جو اسی اخبار میں کراچی کے ڈاکٹر کے فیاض الدین نے لکھا تھا اور ممکن ہے کہ نواز شریف اور عمران خان کو اسے پڑھنے کا موقع نہ ملا ہو-

"آپ کی نیوز رپورٹ (10 جون) کے مطابق، طالبان نےافغان فوج کیلئے جاسوسی کے شبہ میں دو کم عمر لڑکوں کے سر کاٹ دیئے جن کی عمریں 10 اور 16 سال تھیں- پچھلے سال بھی اسی صوبہ قندھار میں، انہوں نے 16 سال کے لڑکے، 6 سال کی لڑکی اور 12 سال کے لڑکے کا سر کاٹ دیا تھا اور ان کی کھالیں اتار دی تھیں-

"یہ طالبان، بے رحم ، وحشی درندے اورسنگدل لوگ ہیں- ان چھوٹے چھوٹے بچوں کی گردنیں کاٹنے کی ہمت کیسے ہوئی انکی- پوری متمدن دنیا ان کو ختم کرنے کیلئے ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوگی، چاہے وہ دنیا میں کہیں بھی ہوں، وہ کسی رحم کے مستحق نہیں ہیں- وہ وحشی درندوں سے بھی بدتر ہیں"- اور اگروزیراعظم اورعمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی طالبان اپنے افغان بھائیوں کے مقابلے میں زیادہ رحمدل ہیں، تو انکو سیکورٹی فورسز کے ان لوگوں سے باتیں کرنے کی ضرورت ہے جن کے سینکڑوں ساتھیوں کی گردنیں کاٹ دی گئیں یا انکو شدید قسم کی اذیتیں ٹی ٹی پی اور انکی ذیلی تنظیموں کے ہاتھوں اٹھانا پڑیں-

میں نے ای میل اور ٹی وی کے ٹاک شوز میں بار بار یہ استدلال سنا ہے کہ اگر امریکن طالبان سے مذاکرات کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کر سکتے- یہ بے تکا استدلال، اس اہم نکتہ کونظر انداز کرتا ہے کہ امریکن، اپنی فوج کی واپسی کے سلسلے میں مذاکرات کر رہے ہیں- پاکستان کے ساتھ اس طرح کا کوئی سلسلہ نہیں ہے-

ہماری فوج، پچھلے سالوں میں کئی مرتبہ، مختلف تشدد پسند گروہوں کے ساتھ امن معاہدے کرچکی ہے اور ہر بار ان جہادی گروہوں نے ان معاہدوں کو جنگ میں وقفے کے طور پر استعمال کیا ہے اور پھر اپنی مرضی سے جب اور جہاں چاہا ہے، حملہ کر دیا ہے-

یہ بات اس وقت پورے طور پر ثابت ہو گئی جب سوات کو ملا فضل الله اوراسکے طالبان کے حوالے کر دیا گیا تھا انہوں نے فورا ہی پڑوس میں مالاکنڈ کے قریبی علاقے کو اپنے قبضے میں کر لیا اور اسلام آباد سے صرف 100 کلومیٹر کے فاصلے تک پہنچ گئے-

ہمارا یہ سوچنا سنگین غلطی ہوگی کہ چونکہ طالبان پڑھے لکھے لوگ نہیں ہیں اس لئے ان میں جنگی حکمت عملی کی صلاحیت نہیں ہے-

غیر ملکیوں کے ایک گروپ کو قتل کر کے، انہوں نے گلگت بلتستان کا راستہ ان چند بچے کھچے غیرملکی کوہ پیماوں کیلئے تو بند کر دیا جو ان بلند و بالا پہاڑوں کی چوٹیوں کو فتح کرنے کی دھن میں ان نامساعد حالات کے باوجود آتے تھے-

ان کی اس حکمت عملی کا اثر، وادی بلتستان میں شیعہ طبقے کے ان ہزاروں لوگوں پر ہوگا، جن کا روزگار ان غیر ملکی کوہ پیماؤں سے وابستہ ہے جو ہر سال وہاں آتے ہیں اور انہوں نے حکومت کے بودے حفاظتی انتظامات کا پول بھی دنیا کے سامنے ایک مرتبہ پھر کھول دیا-

پچھلے سال اکتوبر میں، میں اپنے سات انگریز دوستوں کے ساتھ جب وہاں گیا تھا تو مجھے یہ دیکھکر خوشی ہوئی تھی کہ میرے دوستوں نے اس علاقے کی خوبصورتی اور قدرتی حسن کو کتنا پسند کیا تھا اور سب نے وہاں دوبارہ آنے اور اپنے دوسرے دوستوں کو وہاں کا سفر کرنے کی ترغیب دینے کا ارادہ کیا تھا- لیکن جب، میں اسلام آباد واپسی کے راستے، چلاس میں قراقرم ہائی وے پر گزرا اور میں نے مقامی لوگوں کی آنکھوں میں نفرت اور بدگمانی کے جذبات دیکھے، تو میں نے تہیہ کر لیا کہ میں اپنے غیر ملکی دوستوں کو ان علاقوں میں دوبارہ کبھی نہیں لیجاؤنگا-

میں ہمیشہ نواز شریف اور عمران خان کے اس رویہ پرحیران ہوتا رہتا ہوں جو انہوں نے طالبان کے حوالے سے اختیار کیا ہوا ہے- حالانکہ دونوں کا واسطہ، ان ممالک سے کئی بارپڑچکا ہے، جو اس قسم کے سیکورٹی سے متعلق مسائل سے خاطر خواہ طریقے سے نبرد آزما ہونا جانتے ہیں- کسی قسم کی نرمی کا رویہ، سعودی عرب یا انگلینڈ میں دہشت گردی کی جانب نہیں دکھایا جاتا ہے- اس کے باوجود، ہمارے یہ دونوں قائد، پاکستان میں ان قاتلوں کے ساتھ، بے حد مشفقانہ رویہ کے متقاضی ہیں- پاکستان، وہ ملک، جس نے ان مذہبی جنونیوں کے ھاتھوں شدید قسم کی دہشت پسندی جھیلی ہے-

دوسری بات جو یہ باتوں کے پہلوان بھول جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ طالبان کے مطالبوں پر مذاکرات نہیں ہوسکتے- وہ جوچاہتے ہیں، وہ یہ ہے کہ موجودہ دستور کی جگہ اپنے مطلب کی شریعہ نافذ کریں- وہ حکومت کی مذاکرات کرنے کی پیشکش کو، حکومت کی کمزوری کی نشانی سمجھتے ہیں- آخر میں، آپ کس طرح ایسے لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنے کا سوچ بھی سکتے ہیں، جو بچوں کا سر قلم کرتے ہیں اور ان کی کھالیں اتارتے ہوں -


ترجمہ: علی مظفر جعفری

عرفان حسین

لکھاری کا ای میل ایڈریس irfan.husain@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔