Dawn News Television

اپ ڈیٹ 27 جولائ 2017 06:37pm

ثنا میر پاکستانی ٹیم کی شکست کی ذمہ دار کیوں نہیں ہیں

جھوٹ

پاکستان کرکٹ بورڈ کے ایک نامعلوم ذرائع نے خبر رساں ایجنسی اے پی پی پی کو بتایا کہ پاکستانی وومین کرکٹ ٹیم کی کپتان ثنا میر، انگلینڈ میں کھیلے جانے والے آئی سی سی وومین ورلڈ کپ میں مایوس کن کارکردگی پیش کرنے پر قیادت اور ٹیم میں اپنی جگہ سے محروم ہو سکتی ہیں۔

خراب کارکردگی تھی؟ یہ کہنا تو سراسر جھوٹ ہے۔ پی سی بی ذرائع نے کہا کہ، "وہ (ثناء) پاکستان ٹیم کی ٹھیک طور پر رہنمائی کرنے میں ناکام ہوئی ہیں۔ ان کی اپنی کارکردگی بھی غیر اطمنان بخش تھی۔"

ایک خبر کے مطابق سیکریٹری برائے وومین ونگ، شمسہ ہاشمی نے بھی کپتان کی کارکردگی کو ’غیر حوصلہ بخش’ قرار دیا ہے۔

سچ

میں نے خود پاکستانی ٹیم کے تمام میچز دیکھے ہیں اور یہ کہنا کہ ان کی کارکردگی 'مایوس کن' ہے، بالکل بھی درست نہیں۔

سب سے پہلی بات تو یہ کہ ہماری ٹیم ایک سب سے کم عمر اور کم تجربہ کار ٹیموں میں سے ایک ہے، مگر اس کے باجود پاکستانی وومین ٹیم نے ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کر لیا۔ عالمی مقابلے کے لیے کوالیفائی کرنا ہی ہماری ٹیم کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔

ہماری ٹیم ان ٹیموں کے خلاف میدان میں اتری جو پاکستانی ٹیم کی، 90 کی دہائی کے وسط میں، تشکیل سے بھی دہائیوں قبل سے کرکٹ کھیلتی آ رہی ہیں، جبکہ ان ٹیموں کو ہماری وومین کرکٹ سے کئی گنا زیادہ وسائل اور سہولیات بھی حاصل ہیں۔

مگر اس کے باوجود بھی پاکستانی وومین ٹیم جنوبی افریقہ کو شکست کے کافی قریب لانی، اور ہندوستان کو ٹورنامنٹ میں ان کے سب سے کم ترین اسکور 169 رنز تک محدود کرنے میں کامیاب ہوئی (حالانکہ ہندوستان نے انگلینڈ کے خلاف 281 رنز بنائے تھے، دوسرے نمبر پر رہی؛ اور آسٹریلیا کے خلاف 226 رنز بنائے، پہلے نمبر پر رہی۔)

جبکہ وہ ٹیمیں جو پاکستان کے ہم پلہ کہی جا سکتی ہیں، ان کے ہاتھوں اگر پاکستان نے شکست بھی کھائی ہے تو کسی بڑے مارجن سے نہیں — ویسٹ انڈیز کے خلاف (ڈک ورتھ لوئس میتھڈ کے تحت) صرف 19 رنز اور سری لنکا کے خلاف صرف 15 رنز سے میچ ہاری تھی۔ کئی میچز میں پاکستان کی بولنگ اور فیلڈنگ کہیں شاندار تھی تو کہیں بہتر، البتہ بلے بازی کمزور تھی اور بسمہ معروف کے زخمی ہونے سے مزید متاثر بھی ہوئی۔

بسمہ معروف کی انجری اور ان کی تبدیلی نے واضح کر دیا کہ ہمارے اضافی کھلاڑیوں میں کھیل کا معیار اتنا بہتر نہیں ہے جتنا بہتر ٹاپ ٹیموں کے اضافی کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ بلے بازی نے بھی یہ آشکار کر دیا کہ ٹیم کی کوچنگ کس قدر غیر مؤثر رہی تھی۔

دانیہ بیگ کا یہ پہلا ٹورنامنٹ تھا، وہ اپنی بولنگ اور زبردست فیلڈنگ کے ساتھ دیگر نوجوان کھلاڑیوں میں ممتاز نظر آئیں۔

لیکن تمام میچوں میں ناکامی کے باوجود بھی ٹورنامنٹ کی پاکستانی اسٹار، ٹیم کی کپتان ثنا میر ہی ثابت ہوئیں۔

5 اننگز میں 30 سے زائد رنز کی اوسط کے ساتھ ثنا سب سے زیادہ بلے بازی اوسط رکھنے والی کھلاڑی ہیں جبکہ انہوں نے گیند بازی اور بلے بازی میں ٹیم کو سہارا دیا، حتیٰ کہ ان میچوں میں بھی جن میں ٹیم کی بیٹنگ ریت کی دیوار ثابت ہوئی تھی۔

ثناء نے 6 کیچ پکڑے، ان میں سے ایک کو 'نسان پلے آف دی ڈے' بھی قرار دیا گیا۔ انہوں نے سب سے زیادہ وکٹیں (3) لیں، دو کیچ پکڑے اور عالمی نمبر ایک ٹیم، آسٹریلیا کے خلاف میچ میں سب سے بڑا اسکور (45 رنز) بنایا۔ (جبکہ اس میچ میں پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا اسکور 21 تھا۔)

ثناء میر نے کرکٹ کے تمام شعبوں میں زبردست اور مستقل مزاجی کے ساتھ کارکردگی پیش کی؛ آئی سی سی کے اعداد و شمار اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

وہ واحد پاکستانی خاتون کھلاڑی ہیں جو آل راؤنڈر کی عالمی رینکنگ میں 10 ویں نمبر پر اور باؤلنگ کی عالمی رینکنگ میں 12 ویں نمبر پر ہیں۔ ثناء میر دنیا کی چھٹی اور واحد پاکستانی کھلاڑی ہیں جو 100 وکٹ لینے اور 1000 رنز بنانے کا ریکارڈ رکھتی ہیں۔

ثناء میر کی مستقل مزاج کارکردگی اور زبردست دباؤ والے ماحول میں کپتانی، ان کے کردار میں موجود طاقت اور پختگی کو ظاہر کرتی ہے، جس کا اندازہ اعداد سے نہیں لگایا جاسکتا بلکہ ان لوگوں سے پوچھ کر لگایا جاسکتا ہے جنہوں نے انہیں کھیلتے ہوئے دیکھا ہے اور بولتے ہوئے سنا ہے۔ ٹورنامنٹ کمینٹیٹرز نے بھی ثنا میر کی کارکردگی پر کئی بار داد دی، ان کے مطابق تمام کپتانوں میں سے ثناء نے اپنی ٹیم کی بہترین انداز میں رہنمائی کی ہے۔

اس پر پی سی بی کا یہ عندیہ دینا کہ ثناء میر کو کپتانی کا عہدہ ترک کر دینا چاہیے اور ٹیم چھوڑ دینی چاہیے، سوائے ایک بھدے مذاق کے اور کچھ نہیں۔ بلکہ یہ ایک قیمتی اور کامیاب کھلاڑی کو بَلی کا بکرا بنانے کی ایک بزدلانہ کوشش ہے۔

چند سوالات

کون سا معقول شخص صرف ایک ہار کے بعد بہترین کارکردگی پیش کرنے والی اور سب سے زیادہ رینکنگ رکھنے والی کھلاڑی کو ٹیم سے باہر کرنا چاہے گا؟

ایک نوجوان خاتون، جنہیں آپ نے کچھ خاص وسائل اور سہولیات بھی فراہم نہیں کیں، لیکن پھر بھی وہ اپنی پوری قوت کے ساتھ کارکردگی پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، ان کے ساتھ کیا ایسا برتاؤ کیا جاتا ہے؟ آپ کی نمائندگی کرنے والوں کی ہمت اور کامیابیوں کو یہ صلہ دیا جاتا ہے؟ کیا آپ اس طرح ٹیم میں بہتری اور پختگی کی توقع کر رہے ہیں؟

اگر تمام میچوں میں ناکامی کا بوجھ صرف اکلوتی کپتان پر ڈالا جا رہا ہے تو پھر ذرا یہ بھی بتائیے کہ نجم سیٹھی کس کام کے لیے بیٹھے ہیں؟ چیئرمین کا کردار کیا ہوتا ہے؟ شمسہ ہاشمی کیا کر رہی ہے؟ کوچ کی کیا ذمہ داری ہے؟ اور انتظامیہ کس بات کی تنخواہ اٹھا رہی ہے اگر تمام خرابیوں کی واحد ذمہ دار صرف کپتان ہیں؟

بلاشبہ ٹیم کی کارکردگی پر گہرائی کے ساتھ جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔ تمام کھلاڑیوں، بشمول کپتان کو اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنے اندر مزید بہتری اور پختگی پیدا کر سکیں۔

مگر انتظامیہ صرف ایک اکیلی کھلاڑی — کپتان— پر الزامات کا ڈھیر لاد کر اور کوچ (انتظامیہ کی ملازم) کو برخاست کر دینے سے اپنی ذمہ داری سے فرار حاصل نہیں کر سکتی۔ پی سی بی کی اعلیٰ انتظامیہ — نجم سیٹھی، شہریار خان، ایزد سید اور شمسہ ہاشمی — کو سب سے پہلے اپنی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہیے۔

کیا پی سی بی نے تمام کھلاڑیوں کو اتنے وسائل، سہولیات، کوچنگ، تربیت اور دیگر مدد فراہم کی ہے کہ جس کی بنا پر وہ ٹیم سے ورلڈ کپ جیتنے کی توقع کر سکے؟

جواب غالباً ’نہیں’ میں ہوگا۔

اسی لیے، انتظامیہ کے اخلاقی معیار کے مطابق، کپتان اور ٹیم نہیں بلکہ پی سی بی کے اعلیٰ عہدیدار ہی ہارے ہوئے میچوں کے اصل ذمہ دار ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

Read Comments