Dawn News Television

اپ ڈیٹ 19 اگست 2017 09:01pm

شناختی کارڈ بنوانا کبھی اتنا مشکل تو نہیں تھا

چند روز قبل میری چھوٹی بہن نے مجھ سے کہا کہ اس کے شاختی کارڈ کی معیاد ختم ہو چکی ہے، لہٰذا میں اسے اپنا شناختی کارڈ دوں تاکہ وہ نادرا دفتر لے جا کر نیا شناختی کارڈ بنوا سکے۔ کارڈ کی اشد ضرورت تھی کیونکہ اسے ملازمت کے لیے درخواست دینی تھی اور دستاویزات کے ساتھ شناختی کارڈ بھی درکار تھا۔

اگلی صبح میری بہن نادرا کے دفتر پہنچیں اور وہیں سے مجھے فون کر کے بتایا کہ نادرا ملازمین کہہ رہے ہیں کہ آپ اپنے بھائی کو بلوا لیں، ان کی تصدیق کرنا بہت ضروری ہے۔

میں ہانپتا دوڑتا نادرا دفتر پہنچا۔ کرسی پر براجمان تھے 'صاحب' کو میں نے اپنا تعارف کروایا اور پوچھا کہ اس سے قبل تو کبھی شناختی کارڈ بنوانے کے لیے گھر کے کسی فرد کو آنے کی ضرورت نہیں پڑی، تو اس بار کیا ماجرا ہے؟

جواب آیا کہ، “سر اب ہماری پالیسی تبدیل ہو گئی ہے۔ پہلے ہم سترہ گریڈ کے کسی بھی افسر سے فارم کی تصدیق کرواتے تھے، مگر اب یہ سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے۔ “

مطلب یہ کہ تبدیلی یہاں 'آ نہیں رہی بلکہ آ چکی ہے'۔ بہرحال میں نے نادرا کے بابو سے کہا، چلیں ٹھیک ہے آپ تصدیق کر لیجیے بندہ ناچیز آپ کے سامنے حاضر ہے، میرا ریکارڈ بھی آپ کے پاس ہوگا۔

انہوں نے مجھے ٹوکن لینے کے لیے کہا، جہاں ہم نے کارڈ دکھائے تو ٹوکن دینے والے ملازم نے بتایا کہ آپ کی بہن کے شناختی کارڈ پر دو نمبر آ ر ہے ہیں چنانچہ آپ کا کارڈ نہیں بن سکتا۔ یہ دونوں نمبر ب فارم کے ہیں”۔

اُس وقت ہمارے پاس ب فارم کی کاپی نہیں تھی۔ مزید یہ بتایا گیا کہ ہمیں نئے کارڈ کے لیے اب ان میں سے ایک نمبر درج کروانا پڑے گا، تب جا کر نیا کارڈ بنے گا۔ ان دنوں رمضان کی آخری تاریخیں تھیں، چنانچہ نادرا کے بابو نے اگلی پیشی کے لیے عید کے بعد آنے کو کہا۔

گھر پر جب ب فارم کا بغور جائزہ لیا تو میری بہن کے نام کے نیچے ایک اور نام رزقا لکھا تھا اور جنس کے خانے میں لڑکا تھا۔ ہم دونوں دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ایسا کوئی فرد تو ہمارے گھر میں موجود ہی نہیں ہے تو ب فارم میں اس کا اندراج کیسے ہو گیا ہے، اور اس میں تاریخ پیدائش بھی وہی لکھی ہوئی تھی جو میری بہن کی تھی۔

چوں کہ اس سے پہلے صرف کسی سرکاری افسر کی تصدیق اور کسی بڑے کے شناختی کارڈ کی مدد سے نیا شناختی کارڈ بن جاتا تھا، لہٰذا ب فارم بے چارہ کوئی دو دہائیوں سے الماری میں مقید رہا تھا اور کسی کو اسے درست کروانے کا خیال نہیں آیا تھا۔ اب پچھتاوا ہوا کہ آخر یہ کیسے نظر سے رہ گیا۔

غلطی تو ہم سے ہوئی لیکن اس کی قیمت کتنی مہنگی ہوگی اس کا پتہ تو عید کے بعد لگنا تھا۔

عید کے بعد ہم ایک بار پھر نادرا آفس میں حاضر ہوئے اور انہیں سارا قصہ سنایا کہ ب فارم میں جس نام کا آپ ذکر کر رہے ہیں اس کا اندراج غلط کیا گیا ہے اور ہمارے گھر میں اس نام کا کوئی فرد نہیں ہے اور میری بہن کا پہلا شناختی کارڈ اس ب فارم بننے کے بعد ہی بنا ہے۔

افسر نے ب فارم کا بغور جائزہ لیا اور کہا "پھر تو یہ جڑواں والا مسئلہ ہو گیا، یعنی آپ کی بہن کا کوئی جڑواں بھائی بھی ہے۔" لو بھئی موصوف نے اپنی جے آئی ٹی رپورٹ تیار کر لی اور دلیل پیش کر دی۔

میں نے اور میری بہن نے ایک دوسرے کی جانب سوالیہ نظروں سے ایسے دیکھا جیسے ہم ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوں کہ ہمارا جڑواں بھائی پیدا ہوا ہے اور گھر میں کسی کو خبر تک نہیں ہے۔

“مگر ہمارا تو کوئی ایسا جڑواں بھائی پیدا ہی نہیں ہوا۔”

"تو کیا ہوا کارڈ بنوانے کے لیے آپ لکھ دیں کہ ہمارا جڑواں بھائی ہے، اس طرح آپ کا کارڈ جلدی بن جائے گا۔"

مگر ہم صادق اور امین شہری ہی رہنا چاہتے تھے لہٰذا عرض کیا کہ، “مگر یہ کیسے ہو سکتا کہ جو انسان وجود ہی نہیں رکھتا ہم اس کے لیے یہ کہیں کہ وہ ہمارا بھائی ہے اور ہمارے ساتھ رہتا ہے۔ نادرا کا سارا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہے، ہمارے خاندان کا سارا ڈیٹا آپ کے ہاں موجود ہے تو پھر ہم ایسا کیوں کریں۔ اگر کل کلاں اس نکتے جو جواز بنا کر کوئی اور مسئلہ کھڑا ہو گیا تو ہم کیسے ثابت کریں گے کہ ہمارا کوئی جڑواں بھی بھائی ہے؟"

اس پر نادرا افسر نے اپنے نادر مشورے سے نوازا: "تو کیا ہوا، آپ کہہ دیجیے گا کہ وہ فوت ہو گیا ہے اور ایک ڈیتھ سرٹیفکیٹ فراہم کر دیجیے گا۔" افسر نے یہ جملہ جس پراعتماد لہجے میں کہا وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔

دس منٹوں میں ہمارا ایک جڑواں بھائی پیدا بھی ہو گیا تھا اور میری بہن اور میری آنکھوں کے آگے مر بھی گیا تھا، بس اب ہمیں اس کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ یوسی آفس سے بنوا کر لانا تھا۔

اس پر میں نے موصوف سے کہا،"سر یہ تو ہم نہیں کر سکتے، ہمیں کارڈ بنوانا ہے، اس کا کوئی آسان اور جائز سا حل بتائیں۔”

ہماری ایماندارانہ سوچ کا اثر صرف اتنا ہوا کہ نادرا والے بھائی صاحب نے کہا کہ، "پھر آپ ایسا کریں کہ دو دن بعد مینیجر صاحب سے آ کر ملیں وہ ہی آپ کو اس کا حل بتائیں گے۔”

چلو بھئی ایک اور پیشی۔

اس کے بعد پھر میں اپنی بہن کے ہمراہ نادرا دفتر پہنچا جہاں مینیجر صاحب سے ملاقات کی اور ایک بار پھر اپنا پورا مسئلہ بتایا۔ انہوں کچھ دیر کے لیے اپنے کمپیوٹر پر سارا ریکارڈ چیک کیا اور کہا کہ “میرا مشورہ ہے کہ آپ جڑواں والے چکر میں نہ پڑیں، آپ ڈپ فارم (DUP Form) پُر کر دیں، جس سے پہلا کارڈ منسوخ ہو جائے گا اور دوسرا کارڈ بنانے میں آسانی ہو جائے گی۔”

ہم نے ڈپ فارم پر کیا اور ان کے حوالے کر دیا۔ انہوں نے وہ فارم اپنے ایک ماتحت ملازم کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ اسے فلاں آدمی کے حوالے کرے، اور مجھ سے کہا کہ آپ دو دن بعد پھر آئیں۔

کچھ امید بر آئی۔

میں دو دن بعد پھر نادرا دفتر پہنچا اور ان سے دریافت کیا کہ ہمارے فارم کا کیا بنا، تو انہوں نے اسی ملازم کو بلایا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ ہمارا بے چارہ فارم اس کی فائل تک محدود رہا تھا، آگے منتقل ہی نہیں کیا گیا۔

“چلیں کوئی بات نہیں ہم اسے آج پراسیس کرتے ہیں۔”

“مگر اس میں کنتے دن لگ جائیں گئے؟”

“دیکھیں جی اس میں 20 دن درکار ہوتے ہیں۔ یہ فارم اسلام آباد جائے گا اور وہاں سے اس کی تصدیق ہو گی۔ اس کے بعد ایک نمبر کو منسوخ کیا جائے گا اور پھر نیا کارڈ بنے گا، اور اگر پھر بھی کام نہیں ہوا تو آپ کو کورٹ سے آرڈر لے کر آنا پڑے گا۔ مگر آپ ایک ہفتے بعد چکر لگائیں۔”

ڈپ فارم جمع کرواتے وقت ایک ٹکٹ نمبر بھی دیا جاتا ہے مگر مجھے وہ بھی نہیں دیا گیا۔ خیر میں ایک ہفتے بعد نادرا مینیجر سے ملنے اور کارڈ کی پیش رفت کے بارے میں معلوم کرنے 'نادرا عالیہ' کے دفتر پہنچا تو پتہ چلا کہ موصوف کا تبادلہ ہو چکا ہے۔ میری بہن کا کارڈ اب تک نہیں بن سکا ہے اور وہ آج بھی کہیں کسی میز پر پڑی کسی فائل میں ریکارڈ کی درستگی کے لیے پڑا ہے۔

اس وقت مجھے ملا اختر منصور بہت یاد آنے لگا، جو ہمارے ملک کا شہری نہیں تھا مگر نادرا کی مہربانیاں تھیں کہ نہ تو اسے اپنا پاکستانی شناختی کارڈ بنوانے کے لیے کسی بھائی کو لے کر نادرا آنا پڑا اور نہ ہی اس کا ب فارم چیک کیا گیا۔

ہاں یہ بات درست ہے کہ نادرا میں نت نئے اصولوں کو متعارف کروانے کا مقصد ملک میں موجود غیر ریاستی عناصر کو ملکی شناخت نہ دینا ہے۔ مگر برق رفتار آن لائن نظام ہونے کے باوجود کسی عام شہری کو چکر پر چکر، پیشیوں پر پیشیاں لگوانے کا مقصد سمجھ نہ آیا۔

بہرحال، ہم اب بھی منتظر ہیں کہ کب میری بہن کا فارم تصدیق کے بعد واپس آئے گا۔ تب تک کے لیے ہمارا جڑواں بھائی زندہ ہے، کاغذوں میں زندہ ہے۔

Read Comments