Dawn News Television

اپ ڈیٹ 05 ستمبر 2017 01:44pm

کیا مردم شماری میں واقعی کراچی کی آبادی کم دکھائی گئی ہے؟

اب پتہ نہیں کراچی والے کراچی کی انفرادیت سمجھتے نہیں یا سمجھنا ہی نہیں چاہتے، یا پھر حکومتِ سندھ اب گھبرا کر سندھ کی سیاست کے ذریعے سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔

مردم شماری کو سمجھنے سے پہلے اتنا سمجھ لیجیے کہ پاکستان کو انتظامی طور پر چار صوبوں (پنجاب، سندھ، خیبر پختونخواہ، بلوچستان)، دو نیم خود مختار علاقوں (آزاد کشمیر، گلگت بلتستان) اور دو ریجنز فاٹا، یعنی وفاقی کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات، اور وفاقی دارالحکومت یعنی اسلام آباد میں تقسیم کیا گیا ہے۔

اس انتظام کو مزید آگے ڈویژنز، ضلع اور تحصیل میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس تقسیم کے مطابق پورے پاکستان میں 34 ڈویژنز، 150 اضلاع اور 589 تحصیلیں ہیں۔

انتظامی تقسیم کی ان تمام اکائیوں میں بندوبستی اعتبار سے ضلعے کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ انتخابی نشستوں کی تقسیم، صوبوں سے ضلعوں کو مالیاتی بجٹ اور تعلیم اور صحت اور پولیس، عدالتی نظام کے شعبوں کی بیوروکریسی ضلعی بنیادوں پر طے ہوتی ہے۔ جبھی بڑی تحصیلوں کے عوام اپنی تحصیلوں کو ضلعے کا درجہ دلوانے کی جدوجہد میں لگے رہتے ہیں۔

پڑھیے: پاکستان کو بڑھتی آبادی سے کن مسائل کا سامنا ہے؟

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ملک کے بڑے اور مرکزی شہروں کو ایک ہی نام سے ڈویژن، ضلع اور تحصیل کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر راولپنڈی، صوبہ پنجاب کا ایک ضلع ہے جس کی 7 تحصیلیں ہیں۔

اب ان میں سے ایک تحصیل راولپنڈی بھی ہوگی۔ اسی طرح ارد گرد کے اضلاع کو ملا کر جب انتظامی یونٹ، ڈویژن کی تشکیل ہوگی تو اس ڈویژن کا نام بھی مرکزی ضلع کے نام پر رکھا جائے گا۔ جیسے پنجاب کے چار اضلاع راولپنڈی، اٹک، چکوال اور جہلم پر مشتمل ڈویژن کا نام راولپنڈی ڈویژن ہوگا۔ یوں صوبہ پنجاب میں راولپنڈی کے نام سے ایک ہی وقت میں تحصیل بھی ہوگی، ضلع بھی ہوگا اور ڈویژن بھی۔

اسی فارمولے کے تحت سندھ میں لاڑکانہ کے نام سے تحصیل، ضلع اور ڈویژن ہے۔ خیبر پختونخواہ میں مردان کے نام سے تحصیل، ضلع اور ڈویژن ہے جبکہ بلوچستان میں سبی کے نام سے بیک وقت تحصیل، ضلع اور ڈویژن ہے۔ اور یوں یہ مثال ملک کے باقی اضلاع پر بھی اسی طرح لاگو ہے۔

ملک کے بڑے اضلاع مثلاً لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، گجرانوالہ، ملتان، پشاور، کوئٹہ، اور اسلام آباد سمیت کئی انتظامی یونٹس کو شہری اور دیہی آبادی میں تقسیم کیا گیا تھا۔ صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کو، بطور ضلع، گزشتہ مقامی حکومتوں کے نظام میں مکمل طور پر شہری علاقہ (اربن) قرار دے دیا گیا تھا۔ یوں اب لاہور میں دیہی علاقہ (رورل) کہیں نہیں۔

انتظامی لحاظ سے کراچی، پاکستان کا انتہائی منفرد یونٹ ہے۔ کراچی ایک ایسا ڈویژن ہے جس میں کراچی وسطی، کراچی شرقی، کراچی جنوبی، کراچی غربی، کورنگی اور ملیر کے 6 اضلاع شامل ہیں۔ صوبہ سندھ کی انتظامی تقسیم اور مقامی حکومتوں کے نظام کے مطابق ابھی تک کراچی میں شہری اور دیہی علاقے کی تقسیم موجود ہے۔

2017 کی مردم شماری کے مطابق ضلع کراچی کی کل آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ 51 ہزار سے زائد ہے۔ اس میں شہری آبادی ایک کروڑ 49 لاکھ 10 ہزار جبکہ دیہی آبادی 11 لاکھ 41 ہزار ہے۔

کراچی وسطی، کراچی شرقی، کراچی جنوبی اور کورنگی مکمل طور پر شہری علاقے ہیں جبکہ کراچی غربی اور ملیر کے اضلاع میں کچھ دیہی علاقے بھی شامل ہیں۔ کراچی غربی میں 2 لاکھ 83 ہزار جبکہ ملیر میں 8 لاکھ 58 ہزار دیہی آبادی ہے۔ ان دونوں دیہی آبادیوں کو جمع کیا جائے تو یہ 11 لاکھ 41 ہزار بنتی ہے۔

یوں 2017 کی مردم شماری کے مطابق کراچی شہر کی آبادی ایک کروڑ 49 لاکھ 10 ہزار ہے اور اس میں دیہی علاقوں کی آبادی 11 لاکھ 41 ہزار کو جمع کیا جائے تو ضلع کراچی کی کل آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ 51 ہزار سے زائد ہے۔

پنجاب کا صوبائی دارالحکومت لاہور بطور ضلع اور شہر ایک ہی انتظامی تعریف رکھتا ہے۔ پورے ضلع لاہور کے شہر قرار پانے کے باعث ضلع لاہور اور لاہور شہر کی آبادی کے اعداد و شمار ایک ہی ہیں جو کہ ایک کروڑ 11 لاکھ 26 ہزار بنتے ہیں۔

ملکی اور بین الاقوامی میڈیا میں کراچی اور لاہور کی آبادی کا موازنہ کرنے والے اور دونوں شہروں کی آبادی کے اعداد و شمار کو مشکوک نظروں سے دیکھنے والے ایک انتہائی اہم اور تکنیکی غلطی کر رہے ہیں۔ وہ 1998 کی مردم شماری میں لاہور شہر کی آبادی کا مقابلہ 2017 کی مردم شماری میں ضلع لاہور کی آبادی سے کر رہے ہیں۔ ان کے خیال میں 1998 میں لاہور کی آبادی 52 لاکھ 9 ہزار تھی جو اب بڑھ کر ایک کروڑ 11 لاکھ 26 ہزار ہو چکی ہے جو کہ 116 فیصد کا اضافہ ہے۔

پڑھیے: ضربِ تولید کی ضرورت ہے

مردم شماری کے اعداد و شمار کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو 1998 میں لاہور میں شہری اور دیہی علاقے کی تقسیم موجود تھی۔ اس وقت لاہور شہر کی آبادی 52 لاکھ 9 ہزار جبکہ لاہور دیہی کی آبادی 11 لاکھ 31 ہزار تھی۔ یوں 1998 میں ضلع لاہور کی کل آبادی 63 لاکھ 40 ہزار تھی جو 2017 کی مردم شماری میں بڑھ کر ایک کروڑ 11 لاکھ 26 ہزار ہو چکی ہے۔ یوں لاہور کی آبادی میں 116 فیصد کا اضافہ نہیں بلکہ 80 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

1998 کی مردم شماری میں کراچی شہر کی آبادی 94 لاکھ 49 ہزار جبکہ ضلع کراچی کی آبادی 98 لاکھ 56 ہزار تھی۔ 2017 کی مردم شماری میں کراچی شہر کی آبادی ایک کروڑ 49 لاکھ 10 ہزار ہے جبکہ ضلع کراچی کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ 51 ہزار ہے۔

یہاں بھی ملکی اور بین الاقوامی میڈیا وہی تکنیکی مگر اہم غلطی دہراتے ہوئے 1998 میں ضلع کراچی کی آبادی کا موازنہ 2017 میں کراچی شہر کی آبادی کے ساتھ کیے جا رہا ہے۔ ان کے نزدیک کراچی کی آبادی 98 لاکھ 56 ہزار سے بڑھ کر ایک کروڑ 49 لاکھ ہوئی جو کہ 50 فیصد کے قریب اضافہ ہے حالانکہ کراچی کی آبادی 98 لاکھ 56 ہزار سے بڑھ کر ایک کروڑ 60 لاکھ 51 ہزار ہوگئی جوکہ تقریبا 61 فیصد کا اضافہ ہے۔

ایک اہم ترین نکتہ یہ بھی ہے کہ کراچی میں برسوں سے رہنے والے 20 لاکھ سے زائد افراد، کراچی نہیں بلکہ فاٹا، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں رجسٹرڈ ہیں۔ ان کے شناختی کارڈز پر مستقل پتہ آبائی علاقوں کا تھا اس لیے انہیں وہیں گنا گیا۔

2013 کے عام انتخابات سے قبل بھی شور اٹھا تھا کہ کراچی کے لاکھوں ووٹرز کم کر دیے گئے ہیں۔ اصل میں ان ووٹرز کو ان کے آبائی علاقوں میں درج کیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے برسوں کراچی میں رہنے کے باوجود عارضی پتہ کراچی جبکہ مستقل پتہ اپنے آبائی علاقوں کا درج کروایا تھا۔

پاکستان کی آبادی اور عمر کے تناسب سے ایک عوامی فارمولہ ہے کہ جتنی کسی حلقے کی آبادی ہوتی ہے اس سے آدھے رجسٹرڈ ووٹ ہوتے ہیں۔ 2013 کے انتخابات میں پانچ لاکھ ووٹ کراچی سے باہر رجسٹرڈ ہوئے تھے جس پر سیاسی جماعتوں نے شور مچایا۔ پانچ لاکھ ووٹ مطلب کوئی 10 لاکھ آبادی شہر سے باہر رجسٹرڈ تھی۔ اب چار سال بعد یہ 10 لاکھ 20 نہ سہی 15 لاکھ تو بنتے ہوں گے۔

کراچی اور لاہور دونوں شہروں میں دیگر شہروں کے لوگ روزگار کی تلاش میں آباد ہیں مگر یہاں بھی دونوں شہروں کا موازنہ کوئی زیادہ موزوں دکھائی نہیں دیتا۔ لاہور میں اپنے ہی صوبے پنجاب کے آبادکار زیادہ ہیں جو صوبہ ایک ہی ہونے کے باعث ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے اور مستقل پتہ لاہور کا کروا لیتے ہیں۔ صرف پٹھان اپنے آبائی علاقوں کا مستقل پتہ رکھتے ہیں جو کہ کراچی کی نسبت لاہور میں کم ہیں۔ سندھی اور بلوچی، لاہور میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

کراچی کا کیس الگ ہے یہاں صرف سندھ کے دیگر شہروں سے ہی نہیں، بلکہ پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان کے بھی لوگ رہتے ہیں جو کہ کراچی کی دوری کے باعث، مستقل پتہ آبائی علاقوں کا رکھتے ہیں اور اس کی عملی مثال 2013 کے انتخابات میں سامنے آئی تھی۔ کراچی ایک منفرد شہر ہے اور اس کی آبادی کے اعداد و شمار میں مختلف عناصر کو ذہن میں ضرور رکھنا ہوگا۔

پڑھیے: پاکستان، پناہ گزینوں کی دوسری بڑی آبادی کا میزبان

ملک کے دو بڑے اضلاع کی آبادی کے تناسب میں اضافے کا موازنہ کیا جائے تو مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 20 برسوں میں ضلع کراچی کی آبادی میں 61 فیصد جبکہ ضلع لاہور کی آبادی میں 80 فیصد اضافہ ہوا۔ مندرجہ بالا فیکٹرز اور دونوں اضلاع کے زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یہ اضافہ بہر طور حقیقت کے قریب ہی نظر آتا ہے۔

صوبہ سندھ کی آبادی پر کیے جانے والے اعتراضات کا تانا بانا بھی مضبوط بنیادوں پر نہیں بنا گیا۔ کچھ بظاہر ٹھوس نظر آنے والے اعتراضات یہ ہیں کہ 2017 کی مردم شماری میں حیدر آباد، لاڑکانہ اور جیکب آباد سمیت سندھ کے کئی بڑے اضلاع کی آبادی 1998 کی مردم شماری کی نسبت کم بتائی گئی ہے۔

مثال کے طور پر 1998 کی مردم شماری میں ضلع حیدر آباد کی آبادی 28 لاکھ 91 ہزار تھی جوکہ 2017 کی مردم شماری میں 21 لاکھ 99 ہزار بتائی گئی۔ اسی طرح ضلع لاڑکانہ کی آبادی 1998 کی مردم شماری میں 19 لاکھ 27 ہزار تھی جوکہ 2017 کی مردم شماری میں کم ہو کر 15 لاکھ 24 ہزار ہوگئی۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیپلز پارٹی جیسی بڑی جماعت جو مسلسل 9 برسوں سے صوبہ سندھ میں حکمرانی کر رہی ہے، اس کے علم میں نہیں کہ گزشتہ 20 برسوں میں سندھ کے کل اضلاع کی تعداد 17 سے بڑھ کر 29 ہو چکی ہے۔ حیدر آباد، لاڑکانہ اور جیکب باد سمیت سندھ کے بڑے اضلاع میں سے سیاسی بنیادوں پر 12 نئے اضلاع تشکیل دیے گئے۔ اس لیے ان اضلاع کی آبادی تہہ در تہہ تقسیم ہو چکی مگر کہیں غائب نہیں ہوئی بلکہ سندھ میں ہی موجود ہے۔

اس بات کا ذکر کرنا بھی انتہائی اہم ہوگا کہ 1998 کی مردم شماری سے 2017 کی مردم شماری تک گزشتہ 20 برسوں میں پنجاب کے اضلاع کی تعداد 34 سے بڑھ کر 36، خیبر پختونخواہ کے اضلاع کی تعداد 24 سے بڑھ کر 25 جبکہ بلوچستان کے اضلاع کی تعداد 26 سے بڑھ کر 32 ہوئی۔

2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ 74 ہزار ہے اور 1998 کی نسبت یہ 2.4 فیصد سالانہ اضافہ ہے۔ اس دوران بلوچستان کی آبادی 65 لاکھ 65 ہزار سے بڑھ کر 3.3 فیصد اضافے کے ساتھ ایک کروڑ 23 لاکھ 44 ہزار ہو گئی۔ خیبر پختونخواہ کی آبادی ایک کروڑ 77 لاکھ 43 ہزار سے بڑھ کر 2.9 فیصد اضافے کے ساتھ 3 کروڑ 5 لاکھ 23 ہزار ہو گئی۔ سندھ کی آبادی 3 کروڑ 4 لاکھ 39 ہزار سے بڑھ کر 2.4 فیصد اضافے کے ساتھ 4 کروڑ 78 لاکھ 86 ہزار ہوگئی۔ پنجاب کی آبادی 7 کروڑ 36 لاکھ 21 ہزار سے بڑھ کر 2.1 فیصد اضافے کے ساتھ 11 کروڑ 12 ہزار ہوگئی۔ یوں چاروں صوبوں کا موازنہ کیا جائے تو سندھ نہیں بلکہ پنجاب کی آبادی سب سے کم تناسب سے بڑھی۔

سپریم کورٹ کے حکم پر ہی سہی مگر 20 برسوں بعد یہ اعزاز ایک بار پھر مسلم لیگ نواز کی حکومت کو ہی حاصل ہوا کہ 1998 میں ہونے والی پانچویں مردم شماری کے بعد 2017 میں ہونے والی چھٹی مردم شماری بھی اسی نے کروائی۔ قوموں کی زندگی میں میٹرو یا موٹر وے بنانا شاید اتنا اہم نہیں جتنا اہم اپنی درست تعداد معلوم کرنا ہے کیونکہ عوا م کے لیے تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں میں منصوبے شروع کرنے سے پہلے یہ جاننا از حد ضروری ہے کہ آخر ہم ہیں کتنے.

Read Comments